منصبی وقاراور وزیراعظم نریندر مودی

0

نریندر مودی ذہین، فطین اورخوش کلام سیاست داں ہیں، اپنی زبان و بیان سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ موقع شناس بھی ہیں،کب، کہاں، کیا اور کتنا کہنا چاہیے خوب اچھی طرح جانتے ہیںلیکن بعض اوقات وہ یہ فراموش کرجاتے ہیں کہ وہ صرف سیاست داں نہیں بلکہ فی الحال جمہوریہ ہندوستان کے وزیراعظم اور 140کروڑ عوام کے قائد ہیں۔ملک میں امن وامان،عوام الناس کے درمیان خیرسگالی، مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا بار گراں ان کے کاندھوں پر ہے۔انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی باتیں کریں جن سے کسی بھی طرح کی فرقہ واریت کی بو آتی ہو، مذہبی تنازعات میں کود پڑنا بھی ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ تاہم یہ ہندوستان کے لیے مستحسن نہیں کہا جاسکتا کہ وزارت عظمیٰ جیسے عظیم المرتبت عہدہ پر بیٹھا شخص لوگوں کو ان کے لباس کے ذریعہ شناخت کرنے کا دعویٰ کرے اور مذہبی تنازعات کوٹھنڈا کرنے کے بجائے انہیں ہوا دے۔بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان تنازعات میں ایک فریق بن جائے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ وزیراعظم ان دنوں ایسی ہی کوشش میں مصروف نظرآرہے ہیں۔ کابینہ کا اجلاس ہویا پھر عوامی فلاحی اسکیموں کے آغاز کی تقریب ہو، ہر جگہ وزیراعظم نریندر مودی مذہبی تنازعا ت میں نہ صرف فریق بنتے نظرآتے ہیں بلکہ اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھارہے ہیں۔
آج مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع میں اپوزیشن اتحاد’ انڈیا‘ کو ہدف ملامت بناتے ہوئے کہا کہ ’ انڈیا‘ کی پالیسی سناتن دھرم کو ختم کرکے ملک کو غلامی کے راستے پر لے جانا ہے۔ممبئی میں منعقدہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ انہوں نے ایک خفیہ ایجنڈا بنایا ہے اور جو پالیسی انہوں نے بنائی ہے وہ ہندوستان کی ثقافت پر حملہ کرنا ہے۔ ہندوستانیوں کی روح پر حملہ کرناہے۔ انہوں نے ہندوستانیوں کے عقیدے پر حملہ کرنے اور ہزاروں سالوں سے ملک کو متحد کرنے والے نظریات، اقدار اور روایات کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔حال ہی میں دہلی میں منعقدہ جی20 سربراہ اجلاس پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ اس کامیابی سے ملک کے ہر شہری نے فخر محسوس کیا ہے۔ اس تقریب کا سہرا مودی کو نہیں بلکہ پورے ملک کے 140 کروڑ عوام کو جاتا ہے۔ یہ اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہم دنیا کے ممالک کو جوڑنے کے قابل ہیں اور ہندوستان ایک عالمی دوست کے طور پر ابھر رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملک اور معاشرے کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ہم وطنوں کو متحد ہونے کی تلقین کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اب انہوں نے کھلے عام حملے شروع کر دیے ہیں، وہ اسے مزید آگے لے جانے والے ہیں، اس لیے ملک کے کونے کونے سے سناتنی لوگوں کو ملک کیلئے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ سناتن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو ہزار سالہ غلامی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، ہمیں مل کر ایسی قوتوں کو روکنا ہوگا۔
یادرہے کہ تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن کے بیٹے اور ریاستی وزیر ادھیانیدھی اسٹالن کا ایک بیان ان دنوں موضوع بحث ہے جس میں انہوں نے سناتن دھرم کو ڈینگو اور ملیریا کے وائرس کی طرح بتاتے ہوئے کہا کہ اس کا جتنی جلدی خاتمہ ہوجائے، اتنا ہی بہتر ہے۔ وزیراعظم اسی بیہودہ بیان کو بنیاد بناکر اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو ملک دشمن ثابت کرنے کی سیاست کررہے تھے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتہ ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں بھی انہوں نے اسی موضوع پر اپنا زور بیان صرف کیاتھا۔ اور اپنے وزرا کو ہدایت دی تھی کہ ’انڈیا‘ اور ’بھارت‘ کے معاملے پرتو خاموش رہیں لیکن ’سناتن ‘کے معاملے پر سخت ردعمل ظاہر کریں۔
مذہبی تنازع میں فریق بن جانا دراصل اس وقت وزیراعظم نریندر مودی اوربی جے پی کی لازمی ضرورت بھی بن گئی ہے۔ مضبوط ہوتا اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا‘ ان کے اعصاب پر سوار ہے۔ایک جانب ملک کا نام ’انڈیا‘ ہٹانے کی بات ہورہی ہے تو دوسری جانب جارحانہ قوم پرستی اور ہندوئوں میں ’ سناتن پریم‘ کے جذبات ابھار کر اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ نریندر مودی کے یہ بیانات اسی تیاری کاحصہ ہیں۔لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ بی جے پی لیڈر کے ساتھ ساتھ وہ ملک کے وزیراعظم بھی ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی کشیدگی پھیلنے نہ دیں۔ادھیانیدھی اسٹالن کے بیان پر انہیں ایک روشن دماغ، عالی ظرف اور مدبر قائد کا کردار ادا کرتے ہوئے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہیے تھا مگراس کے برعکس وہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھارہے ہیں جوان کے منصبی وقار کے خلاف ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS