انسانی لاش کی حرمت اور اسلام کی روشن تعلیمات

0

مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی

اسلام میں انسانی لاش کی بے حرمتی حرام ہے۔فوت ہونے کے بعد میت کا احترام، عزت و تکریم اور حرمت کو برقرار رکھنا لازم ہے۔ لاشوں کی بے حرمتی اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا پاسدار اور محافظ ہے۔اسلام دوران جنگ بھی انسانی لاش کی بے توقیری کی اجازت نہیں دیتا۔دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح بعد از مرگ اس کی حرمت کو برقرار رکھنا بھی لازم ہے۔
کسی بھی انسان کے مرنے کے بعد بھی ہڈی پسلی،نکالنا، توڑنا، تمام چیزیں حرام ہیں،متعدد احادیث مبارکہ میں ہے کہ کسی بھی مردہ کی ہڈی وغیرہ توڑنا، اسکو اذیت دینا ایسا ہی ہے کہ جیسا کسی زندہ کی ہڈی پسلی توڑی جائے جیسا کہ کسی زندہ کو اذیت دی جائے،اس پہ وہی گناہ ملے گا جیسے زندہ انسان کی پسلی یا ہڈی توڑنے کا گناہ ہے۔ مسلمان لاش کی تکریم ، شریعت کے مقاصد میں سے ہے۔ جس طرح انسان کی تکریم ،تعظیم اورعزت اس کی زندگی میں ہے ،اسی طرح عزت وتکریم اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کی ہے ۔دین اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ حالتِ امن ہو یا جنگ ، سفر ہو یا حضر ، مستقل رہائش ہو یا عارضی ، کسی طور پر بھی کسی بھی انسان کی جان ومال اور عزت وآبرو کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جائے ،خاص کر جب وہ انسان ایک مومن ومسلمان ہو تو اس کی تکریم اور عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے بلکہ ایک مسلمان کے مال وجان کا تحفظ کرنا دوسرے مسلمان کے بنیادی حقوق میں سے ہے ،اور فوت ہونے کے بعد اپنے بھائی کے غسل ، کفن ، ودفن اور جنازہ پڑھنے کا حکم ہے ۔ تکریم انسانیت کا اندازہ آپ درج ذیل احادیث نبویؐ سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے مرنے کے بعد اس کی لاش اور قبر کے بارے میں کیا کیا احکامات دیے ہیں ۔
لاش کو جلانے کی ممانعت: شریعت محمدیہ میں کسی میت کو بیماری کے پھیلنے کے خوف یا کسی اور بنا پر جلانا ہرگزجائز نہیں، بلکہ یہ مشرکانہ رسم کا تاثر ہے،میت کو جلانایہ میت کی سخت توہین ہے ، احادیثِ مبارکہ میں کسی کو جلانے سے صراحتاً ممانعت آئی ہے، اس لیے کہ آگ جہنم کا عذاب ہے، اور آگ میں جلانے کا حق صرف خالقِ کائنات کو حاصل ہے، دنیا میں کسی کو بھی آگ میں جلانا جائز نہیں ہے خواہ وہ کافر ہوں یا جانور وغیرہ چہ جائیکہ مسلمان کی میت کو جلایا جائے۔ اسی طرح ایک اورمقام پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک فوج میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اگر فلاں فلاں دو قریشی (ہبا بن اسود اور نافع بن عبد عمر ) جن کا آپ نے نام لیا تم کو مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے رخصت ہونے کی اجازت کے لیے حاضر ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہلے ہدایت کی تھی کہ فلاں فلاں قریشی اگر تمہیں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آگ کی سزا دینا اللہ تعالی کے سوا کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو انہیں قتل کر دینا (آگ میں نہ جلانا )(صحیح البخاری: 2954) اسلام نے میت کو جلانا تو کجا اس کی ہڈی توڑنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔لاش کومثلہ کرنے کی ممانعت:دینِ اسلام نے دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا اور ان کے اعضا کی قطع و برید کرنے سے بھی سختی سے منع کیا، حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔( صحیح البخاری: 2474)امام احمد بن حنبل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اسلامی لشکروں کو جہاد پر روانہ کرتے تو انہیں واضح طور پر یہ ہدایات فرمایا کرتے تھے:اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں غزوہ کرو اور اللہ کا انکار کرنے والوں سے قتال کرو۔ غزوہ کرو، غدر نہ کرو،(غنیمت میں)خیانت نہ کرو، مقتولین کے اعضا نہ کاٹو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔(سنن ا بی دائود: 2613)حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں ہمیں صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔(سنن ابی دائود: 2667)
مثلہ سے کیا مرادہے؟ مثلہ سے مراد مقتول کے اعضا کاٹنا ہے ۔ یعنی کسی کی ناک کاٹ دیا جائے ۔ کسی کا کان کاٹ دیا جائے ۔ کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں ۔ کسی کے ہاتھ اور بازو کاٹ دیے جائیں تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ احترام انسانیت کی بنا پر رسول اللہ نے ایسا کرنے سے منع فرما دیاہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں کیلئے رحمت اور شفقت بناکر بھیجے گئے تھے ۔ جنگوں میں مثلہ کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا، البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔
لاش کاپوسٹ مارٹم:خالق کائنات نے انسان کومحترم بنایا ہے، جس کی وجہ سے اس کا احترام ہر حالت میں لازم ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، پس انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جو اس کی زندگی میں اہانت کا باعث ہو یا جس سے اس کی بے احترامی لازم آتی ہو ، اسلام نے اس کی اجازت نہ اس کی زندگی میں دی ہے اور نہ ہی اس کی موت کے بعد دی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی عذر شرعی کے بغیر انسانی جسم میں زخم لگانے، کاٹنے یا عضو کے تلف کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، اور ظلما ًکسی کا عضو تلف کرنے پر قصاص لینے کا حق عطا فرمایا ہے۔ پوسٹ مارٹم کرنے میں انسانی جسم کی توہین کا لازم آنا ظاہرہے کہ چیرپھاڑ کی جاتی ہے اور جسم کے گوشت ، ہڈی وغیرہ کوبطورنمونہ کے حاصل کیا جاتاہے، اور اس کے لیے اس کے ستر کو کھولا جاتا ہے، اور یہ سب امور ایسے ہیں جو زندگی کی حالت میں باعثِ اہانت اور تکلیف ہیں، یہ مردہ انسان کے لیے بھی باعثِ اہانت وتکلیف دہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مردہ کی ہڈی توڑنا زندہ شخص کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔(سنن ابن ماجہ 1320)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:یعنی کسی مومن کو اس کی موت پر تکلیف دینا اس کی زندگی میں اسے تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ مردہ انسان کی ہڈی کا احترام ایسا ہے جیسا کہ زندہ انسان کا ہے۔(حاشیہ: موطا امام مالک، ص: 220)۔پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت:اس حدیث کی رو سے مردے کی لاش کا پوسٹ مارٹم (میڈیکل معائینہ)ممنوع قرا ر پاتا ہے مگر انتہائی مجبوری اور ضرورت کے پیش نظر اس میں گنجائش ہے یعنی جب سبب ِموت، وجہ ِقتل اور اصل قاتل تک پہنچنے کی شدید ضرورت ہو یا مردہ عورت کے جسم سے زندہ بچہ نکالنے کی ضرورت ہو، وگرنہ محض طبی تجربات کے لئے اس کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح سمندری سفر میں اگر کوئی فوت ہوجائے اور قریبی ساحل یا کسی جزیرے تک رسائی سے پہلے اس میں تعفن کا خدشہ ہو تو اسے سمندر کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔(المغنی: 439/3، و فقہ السنۃ: 556/1 )
انسانی قبروں کی عزت احترام احادیث کی روشنی میں:
جس طرح انسانی لاش کی تکریم اور عزت کا حکم ہے، اسی طرح عزت وتکریم اس کی قبرکا بھی ہے۔قبروں پر بیٹھنے کی ممانعت:رسول ریمﷺ کا ارشاد ہے۔ لوگو !قبروں پر نہ بیٹھا کرو ۔ اسی طرح حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبر پر دیکھا تو فرمایا: قبر سے اتر جائو، اس قبر والے کو اذیت نہ دو ۔ قبروں پر بیٹھنا آگ کے انگارے پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہﷺنے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا انگارے پر بیٹھنا جو اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کا اثر اس کی جلد تک پہنچ جائے تو یہ اس کے لیے کسی قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS