زین شمسی
ایک اسکول ٹیچر نے اپنے بچوں کو دوران تعلیم بس اتنا کہا کہ پڑھے لکھے رہنمائوں کو ووٹ دینا چاہیے، بیچارے کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ایک اسکول کی بچی پورے اسکول میں ٹاپ کرتی ہے اور جب تقسیم اسناد کے وقت اسکول کے جلسے میں پہنچتی ہے تو یہ دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے کہ اس کا نام اسکول مینجمنٹ نے پکارا ہی نہیں، سیکنڈ اور تھرڈ ٹاپر کا نام لیتے ہی جلسے کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔ اسکول اسمبلی کے دوران بچے ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ کی دعا کا ورد کرتے ہیں اور پورے اسکول مینجمنٹ کو نوٹس جاری کر دیا جاتا ہے کہ وہ غدار وطنی کا سبق بچوں کو دے رہے ہیں۔ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ کا ترانہ گزشتہ کئی برسوں سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اردو زبان میں لکھے ہوئے مارکیٹ پروڈکٹس پر ہنگامہ مچتے ہوئے بھارت کے عوام دیکھ چکے ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں سے ایسی اور اس طرح کی خبریں سرعام ٹی آر پی بٹورتی نظر آتی ہیں۔
ملک کے بڑی اور مستحکم دانش گاہوں کے تعلیم نظام کو پوری طرح سے قابو میں کر لیا گیا ہے۔ اے ایم یو کی حالت تو مزید خراب ہے کہ جہاں اے ایم یو کورٹ کے پانچ ممبران میں سے ایک بھی اے ایم یو کا پروردہ یا اے ایم یو کے مشن کو جاننے والا نہیں ہے۔ جے این یو جیسے ادارے پر سیاسی شکنجہ کی شروعات تو بہت پہلے سے ہو چکی ہے۔ ڈی یو اور جامعہ ملیہ بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔ سیمی گورنمنٹ کے زیرنگیں چلنے والے اداروں کے چیئرمین اور ڈائریکٹر سنگھ اور بی جے پی کے نظریاتی جھروکوں سے نکل کر عہدہ بریں ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ پہلے سے چل رہی چیزوں کو ختم کرنا اور نئی طرح کی ان چیزوں کو پروان چڑھانا جو سرکاری موقف کی جم کر حمایت کریں۔ ایسے میں تعلیم کا معیار، اس کی حقیقت اور اس کی حکمت زخم خوردہ پرندہ بن کر رہ گئی ہے جو زندہ تو ہے مگر طاقت پرواز سے خالی ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد اچھی اور معیاری تعلیم پر منحصر ہوتی ہے۔ ایسی تعلیم جو ریسرچ کو فروغ دے، جس میں گہرائی اور گیرائی ہو، وہ سائنس ہو، سوشل سائنس ہو یا لٹریچر ہو۔ جب ریسرچ کا کام رک جائے گا تو پھر دیش کا وکاس مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوجائے گا، مگر تعلیمی نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے نئی تعلیمی پالیسی کا نیا منصوبہ تیار کیا گیا تاکہ دانشوران اس الجھن میں مبتلا رہیں کہ بغیر کسی وسائل اور ذرائع کے اسے نافذ کیسے کیا جائے اور اِدھر نصابی کتابوں سے ایسے اطلاعاتی چیپٹرس کو ہٹا دیا جائے جس کی بنیاد پر ہندوستان کا سیکولرازم کھڑا ہے۔ نصاب کی تبدیلی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ سرکار کو نہ ہی پرانی تعلیمی پالیسی سے مطلب ہے اور نہ ہی نئی تعلیمی پالیسی سے کوئی رغبت ہے، یہ صرف ایک ایجنڈا ہے جس کے حصول کے لیے تعلیم گاہوں پر شکنجہ کسا جانا ضروری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکار کو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، تو ظاہر ہے کہ اس کا جواب اس پر منحصر ہے کہ پرانا تعلیمی نظام ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرازم کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا، لیکن آج کی سیاست کو سیکولرازم لفظ سے سخت پریشانی ہے اور اس پریشانی کا ادراک یہی ہے کہ اس لفظ کو گڑھنے والی کتاب کو ہی ختم کردیا جائے۔ عہد مغلیہ کو نصاب سے ہٹاتے وقت یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ آخر مغل کے بغیر700 سال کی تاریخ میں ہندوستان کر کیا رہا تھا؟ پرتھوی راج چوہان، شیوا جی، مہارانا پرتاپ کس سے لڑائی کر رہے تھے اور کس سے ہندو اسمتا کی رکچھا کر رہے تھے۔ گویا اکبر، بابر، اورنگ زیب سے بھارت کو پاک کر نے کے لیے شیواجی، پرتھوی راج چوہان اور مہارانا پرتاپ کی تاریخی اہمیت کو بھی دھومل کیا گیا۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہ بچوں پر پڑھائی کا زور نہ بڑھے، اس لیے نصاب کو ہلکا کرنے کے لیے ایسا کیا گیاہے۔
نئی تعلیمی پالیسی میں انڈر گریجویٹ کوجس طرح کا نصاب دیا گیا، اس سے طلباپر مزید بوجھ بڑھ گیا ہے۔ یعنی پہلے وہ دو پیپر پڑھا کرتے تھے، اب6پیپر پڑھنے ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس کو پڑھانے کے لیے استاد ہی مقرر نہیں ہے۔اس پالیسی کے تحت سرکار بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے صرف کاغذی خانہ پری کو بڑھاوا دینے کا کام کرے گی، جو گزشتہ کئی برسوں سے بہار کی یونیورسٹیوں میں ویسے بھی جاری و ساری ہے۔
تاریخ کے نصاب میں وید،رامائن، مہابھارت اور گیتا کے شلوکوں کا اندراج کیا گیا، تاریخ شواہد پر مبنی ہے اور خود اس کانصاب اس سے مبرا ہے، کیا یہ حیرت انگیز نہیں ہے۔اردو کے نصاب سے اسلامی تاریخ کو ہٹا دیا گیا، جس کی تاریخ شواہد کے ساتھ موجود ہے، کیا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔اسلامی تاریخ کو ہٹانے کی وجہ سے کالجوں میں پہنچنے والے طلبا اسلامی تاریخ سے تو بیگانہ ہو ہی جائیں گے، ساتھ ہی ساتھ اردو شعر و ادب میں موجود اسلامی تلمیحات و استعارے اور کنائے سے بالکل ناآشنا رہیں گے، نتیجتاً نہ وہ غالب کو سمجھ پائیں گے، نہ ہی اقبال اور فیض کو۔ ایسے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کا تعلیمی نصاب ایسا ہو کر رہ جائے گا کہ لوگ سند یافتہ تو ہوں گے مگر تعلیم یافتہ نہیں۔ وہ گریجویٹ تو ہوجائیں گے مگر ایجوکیٹیڈ نہیں۔ میڈیا، انتظامیہ، عدلیہ اور دیگر شعبہ ہائے عوامی خدمات کے اب تعلیمی میدان پر سرکار کا شکنجہ سخت ہوچکا ہے تاکہ آنے والی نسلیں وہی پڑھ سکیں، وہی سیکھ سکیں جو سنگھ کے نظریات ہیں۔
ویسے سرکار کا تمام ہدف سرکاری اداروں کی جانب ہی ہے، پرائیویٹ تعلیمی ادارے چونکہ بڑی ہستیوں کے ہوتے ہیں اور وہاں بڑی ہستیوں کے آل اولاد ہی پہنچ پاتے ہیں، اس لیے اسے چھیڑنے کی ہمت ابھی سرکار میں نہیں ہے۔ تعلیم کا کا روباری استعمال تو بہت پہلے سے ہو رہا ہے، اب اس کازعفرانی سنگھار کیا جا رہا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]