ایک ملک -ایک تفتیشی افسر

0

جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں طاقت و اقتدار کا سرچشمہ اور مرکز عوام ہوتے ہیں۔ عوام براہ راست حکمرانی کے بجائے انتخاب کے ذریعہ حکمراں کا انتخاب کرکے بالواسطہ حکومت کرتے ہیں۔ امور حکومت عوام کی مشاورت اور مرضی سے ہی چلائی جاتی ہے۔ اس نظام کوعوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق جاری رکھنے کیلئے آئین میں اقتدار و اختیار کی لامرکزیت کا وسیع تصور دیا گیا ہے۔ مرکزاور ریاستی سطح پر حکومت کے ساتھ ساتھ سہ درجاتی پنچایتی نظام اورطاقت و اختیار کے الگ الگ متعددمراکز ہیںاور یہ سب ایک آئین سے وضع کیے جانے والے قانون کی بنیاد پر منظم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس آمریت طاقت کی اس لامرکزیت کی شدید مخالف ہے، ماورائے آئین اقدامات اسے مرغوب ہوتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کا فقدان،تکثیریت کا رد، طاقت کی مرکزیت اور اکثریت یا بعض اوقات ایک فرد کی مرضی ہی اصل قانون بن جاتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے جاری بی جے پی کی حکمرانی میں ہونے والی آئینی تبدیلیاں اور نت نئی قانون سازی یہی بتارہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہندوستان کے جمہوری نظام حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور آمریت یا اکثریت کی حکمرانی کادور دورہ ہوگا۔بدقسمتی یہ ہوگی کہ اس حکمرانی کی توثیق بھی عوام کی منتخب کردہ پارلیمان سے ہی کرائی جائے گی۔
آج جب پوری دنیا کی جمہوریتیں اپنی ریاست کو فلاحی اور سماجی بنانے کیلئے اقتدار کی لامرکزیت پر زور دے رہی ہیں۔ طاقت کو ایک جگہ مرکوز رکھنے کے بجائے اسے مختلف سطحوں پر منقسم کرکے پالیسی نفاذ اور فیصلوں کے اختیارات نچلی سطح پرمنتقل کررہی ہیں، ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت اقتدار کی مرکزیت کو فروغ دینے کے اقدامات کر رہی ہے۔کبھی ایک قوم ایک انتخاب کا نعرہ دیاجاتا ہے تو کبھی ایک قوم ایک سیاسی پارٹی کی بات کہی جاتی ہے۔مودی حکومت کے یہ افکار و خیالات ابھی حقیقت تو نہیں بن پائے ہیں لیکن حکومت ایسے چور راستے نکالنے میں ضرور کامیاب ہورہی ہے جس سے دھیرے دھیرے عوام کو جمہوریت کے بجائے آمریت قبول کرنے کی راہ پر لگایا جا سکے۔حال کے دنوں میں مودی حکومت نے آمرانہ پارلیمانوں کی نقل کرتے ہوئے کئی ایسے قوانین بنائے ہیںجن میں اقتدار کی لامرکزیت کا تصور مبہم ہوا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تنازع کا شکار ہونے والا قومی دارالحکومت علاقہ دہلی سے متعلق قانون میں ترمیم ہے۔اسے آئین کی آرٹیکل 239الف میں درج دہلی کے سلسلے میں اختصاص کے باوجود جی این سی ٹی ڈی ترمیمی بل کے ذریعہ ایوان سے پاس کرایاگیاتھا۔اب سناجارہاہے کہ مودی حکومت تفتیشی ایجنسیوں کے اختیار کار کو ایک جگہ مرکوز کرنے کیلئے خصوصی قانون بنانے جارہی ہے، اگر یہ قانون پاس ہوجاتا ہے تو مرکزی حکومت ہندوستان کے جیسے وسیع خطہ میں تفتیشی امور کیلئے بنائی گئی مختلف ایجنسیوں کیلئے ایک ہی سربراہ مقررکرے گی۔ یعنی ایک فردکی ذات میں وہ تمام اختیارات مجتمع ہوجائیں گے جو مختلف ایجنسیوں کو الگ الگ حاصل ہیں۔اس کارخاص کیلئے حکومت ایک نیا عہدہ ’ چیف انویسٹی گیشن افسر(سی آئی او) وضع کرنے والی ہے جو حکومت کے کسی معتمدخاص کو تفویض کیاجائے گا۔اس عہدہ پر براجمان شخص سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) و دیگر تفتیشی ایجنسیو ں کا حقیقی سربراہ ہوگا اور ان ایجنسیوں کے انفرادی سربراہ کی حیثیت ماتحت عملہ کی ہوگی۔
دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ سی آئی او کے عہدہ کیلئے نام پر بھی غور وخوض شروع ہوگیاہے۔ کہاجارہاہے کہ یہ عہدہ مودی حکومت کے پسندیدہ افسرای ڈی کے سربراہ سنجے مشرا کو دیاجاسکتا ہے۔سنجے مشرا،وزیراعظم نریندر مودی کے قریب ترین افسران میں سے ایک ہیں اور ان تمام معاملوں کی نگرانی کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں جن میں ای ڈی کی جانچ کے دوران اہم سیاسی لوگوں کوملوث کیاگیا تھا۔اپنے اس پسندیدہ افسر کی سبکدوشی کے بعد بھی حکومت نے اس کی مدت کار میں دو دو بار اضافہ کیا اور تیسری بار اضافہ کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے سخت سرزنش کی سزاوار ہوئی۔ لیکن اپنے پسندیدہ شخص کو اس عہدہ سے ہٹانے کے بجائے ’ وسیع تر قومی مفاد‘ کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے خصوصی رعایت حاصل کرلی۔
ان تفتیشی ایجنسیوں کی سربراہی کیلئے ایک شخص کو متعین کرنے کا مقصد بہتر تال میل کو یقینی بنانابتایاگیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اختیارات کی مرکزیت کی سمت بڑھتا ہوا مودی حکومت کا وہ قد م ہے جسے اگر نہیں روکا گیا تو یہ ہندوستان کو آمریت اور مطلق العنانی کی راہ پر لے جائے گا۔
جمہوریت میں اقتدار و اختیار کی مرکزیت کی ہر کوشش مذموم ٹھہرتی ہے اور یہ صریحاًعوام کی امنگوں اور توقعات پر شب خون مارنا ہے۔مستحکم اور صحت مند جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ طاقت و اقتدار اور اختیارات کی مرکزیت ہر سطح پر ہر ادارہ سے ختم کی جائے اور کسی بھی عہدہ پر کسی کو اتنے اختیارات نہ حاصل ہوں کہ وہ مطلق العنان ہوکر عوام کی تقدیر کا مالک بن بیٹھے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS