خواجہ عبدالمنتقم
کچھ دن قبل پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی ایک دو رکنی بینچ نے نوح میں ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کی گئی بلڈوزر کارروائی کے بارے میں اپنی ضمنی رائے،جس کی پابندی لازم نہیں، کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نسل کشی جیسی کارروائی ہے۔ظاہر سی بات ہے اس واقعہ نے ان کے ضمیر کوجھنجوڑ دیا ہوگا جس کے سبب انہیں ایسا کہنا پڑا۔ لیکن قانونی نقطۂ نظر سے اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا،یہ ایک دلدوز فرقہ وارانہ تصادم ہے۔البتہ کسی فساد کے دوران ایک مخصوص فرقے کو زیادہ نشانہ بنانا، انہیں نقل مکانی کے لیے مجبور کرنا اور ان کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی اپیل کرنا کچھ ایسی باتیں ہیں جن کا اقوام متحدہ کی نسل کشی سے متعلق کنونشن میں حوالہ ضرور ملتا ہے مگر ہمارے ملک کے حوالے سے اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا۔ اگر ایمانداری سے عمل کیا جائے تو ہمارے تعزیری قوانین ملزمین کو سزا دینے کے لیے کافی ہیںاورہندوستانی مسلمانوں کو اپنے نظام عدالت پر پورا بھروسہ ہے۔
ہمارے ملک میں تشدد کا راستہ اپنانے والے، اس کی سازش کرنے والے اور اس کی ترغیب دینے والے افراد یا گروپس کو تین درجات میں بانٹا جا سکتا ہے:
1 – وہ جو فطرتاً جارحیت پسند، ظالم و جابر ہیں اور جو کسی بھی پرتشدد کارروائی کو خود یا کسی کی ایما پر انجام دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں۔
2۔جو اپنے یا معاشرے میںکسی کے ساتھ حد درجہ غیر انسانی برتاؤ کیے جانے پر انتقامی روش اختیار کر لیتے ہیں۔
-3جو فطرتاً تو جارح نہیں ہوتے مگر مذہبی جنون یا فکری اختلاف کے سبب کسی مخصوص صورت حال میں پرتشدد کارروائی کر بیٹھتے ہیں۔
ان تینوں اسباب میں سب سے خطرناک فکری اختلاف یا مذہبی جنون کے سبب کسی مخصوص صورت حال میں پرتشدد کارروائی کی انجام دہی ہے۔ فطرتاً جارحیت پسند افراد کو سز ا دے کر یا اصلاحی کارروائی کر کے راہ راست پر لایا جا سکتا ہے، اسی طرح جو لوگ حد درجہ غیر انسانی برتاؤ کیے جانے پر انتقامی روش اختیار کر لیتے ہیں،انہیں بھی سمجھا بجھا کر اور ان کے زخموں پر مرہم لگا کر کافی حد تک راہ راست پر لایا جا سکتا ہے مگر دوامی مذہبی جنون اور فکری اختلافات کو ختم کرنا انتہائی مشکل کام ہے اور کچھ لوگ تو اور ان کے حامی مرتے دم تک، خواہ ان کی کتنی ہی briefing کر لی جائے،اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لاتے۔
یہ بات بار بار دیکھنے میں آتی ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں آئینی وقانونی تحفظ کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ بہت سی ایسی زیادتیاں کی جاتی ہیں جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بہت سے معمولی تنازعات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ دریں صورت اس پر آشوب دور میں جب ’ انسانیت سے بدزن انسان’ ان ممالک میں بھی جنہیں دارالامان کا نام دیا جاتا رہا ہے، انسان کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے تو کس سے کریں شکایت اور کس کی دیں دہائی!؟ یہ دونوں نشانات یعنی نشان استعجاب اور سوالیہ نشان ہمارے ملک کے مہذب شہریوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہیں۔ ہمارے ملک میں مرکزی سطح پر اور ریاستی حکومتوں میں باقاعدہ جمہوری طریقے سے منتخب حکومتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کو، جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے ’دارالامان‘ کہا تھا، ہر طرح کے تشدد، فسق و فجور، ناشائستگی، فتنہ فساد، ہنگامہ آرائی،جنگجوئی، فرقہ پرستی و دہشت گردی جیسی برائیوں سے اس طرح محفوظ رکھیں کہ سابقہ حکمراں بھی اس پر رشک کریں اور مستقبل میں ارباب حکومت اس کی تقلید کریں۔پڑوسی ممالک بھی ہم سے سبق لیں اور امن کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ہما رے شانہ بہ شانہ چلیں اور اس طرح یہ خطۂ ارض پھر ایک بارجنت نظیر بن جائے۔
اقوام متحدہ نے9دسمبر، 1948کو نسل کشی کے انسداد اور سزا سے متعلق کنونشن منظور کی تھی۔ ہندوستان نے اس کی تیاری میں کافی دلچسپی لی تھی لیکن اس کی مشمولات کو قانونی شکل دینے کے لیے کوئی قانون وضع نہیں کیا۔ یہ کنونشن، جو12جنوری،1951 کو نافذالعمل ہوئی 19 دفعات پر مشتمل ہے لیکن اس کی نوعیت سمجھنے کے لیے اس کنونشن میں ’ نسل کشی‘ کی جو تعریف کی گئی ہے اس میں شامل ہیں کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروپ کو اس حیثیت سے مکمل طور پر یا جزوی طور پر ختم کرنے کی نیت سے کسی گروپ کے لوگوں کو ہلاک کرنا، شدید جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچانا۔
اس وقت ہمیں اپنے بزرگوں کے کچھ خطابات بھی یاد آرہے ہیں۔
سر سید احمد خاںنے پٹنہ میں 1883 میں کی گئی تقریر میں کہا تھا: ’’اے عزیزو!جس طرح ہندوؤں کی شریف قومیں اس ملک میں آئیں اسی طرح ہم بھی اس ملک میں آئے۔۔۔ پس اب ہم دونوں ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں۔۔۔ مقدس گنگا جمنا کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ایک ہی زمین کی پیداوار کھاتے و استعمال کرتے ہیں۔ مرنے جینے میںدونوں کا ساتھ ہے۔۔۔ ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی وبہبودگی ممکن ہے اور آپس کے نفاق، ضد،عداوت اورایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔۔۔جو لوگ اس نکتے کو نہیں سمجھتے اور دونوں فرقوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں مصروف ہیں وہ خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی ماررہے ہیں۔‘‘
اس وقت ہمیں تقسیم ہند کے وقت جامع مسجد، دہلی کے منبر سے کی گئی مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر کا وہ حصہ بھی یاد آرہا ہے جس سے بے حد متاثر ہوکر ہندوستانی مسلمانوں نے ہندوستان میں جینے اور مرنے اورہجرت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا: ’’میرے عزیزو!۔۔۔۔ جن سہاروں پر تمہیں بھروسہ تھا وہ تمہیں لاوارث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کرگئے۔۔۔ ۔ یہ فرار کی زندگی( ہجرت پاکستان) جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے، اس پر غور کرو، اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جارہے ہو اور کیوں جارہے ہو؟۔۔۔‘‘
اس سے قبل 1940میںرام گڑھ کے اجلاس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں بہ بانگ دہل یہ بھی کہا تھا کہ کیا انسانوں کے اتنے بڑے ہجوم (ہندوستانی مسلمان) کے دل میں ایسا خدشہ پیدا ہونے کی کوئی معقول وجہ ہوسکتی ہے کہ آزاد اور جمہوری ہندوستان میں وہ اپنے حقوق اور مفادات کی حفاظت نہ کرسکیں یا بہ الفاظ دیگر انہیں اس طرح کا تحفظ نہ فراہم کیا جائے۔
بقول مولانا آزاد ہم نے لیل ونہار کی بہت سی گردشیں دیکھی ہیں۔ مایوسی کفر ہے۔ہمیں اپنے بہتر مستقبل کے لیے خود آگے بڑھنا ہوگا، حکومتوں سے اپنا حق مانگنا ہوگا، سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھا نے کیلئے آگے آنا ہوگا، تعلیم کے میدان میں مثبت پیش رفت کرنی ہوگی،اپنے غیرمسلم بھائیوں کا دل جیتنا ہوگا۔ محبت کا جواب تو محبت سے دیا ہی جاتا ہے مگر ہمیں اپنی قوت برداشت وصبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفرت کا جواب بھی محبت سے دینا ہوگا۔یاد رہے کہ صبر و استقامت و حلم وبرداشت،بے خوفی، جرأت و بلند ہمتی ہمارے پیغمبرآنحضرتؐ کے اوصافِ حمیدہ میں شامل ہیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]