پروفیسر عتیق احمدفاروقی
روس -یوکرین جنگ نے یوکرین کو ایک بڑا جھٹکادیاہے۔ یوکرین میں لگاجھٹکا حقیقی ہے۔ یہ 1940کی دہائی کے بعد کی سب سے بڑی زمینی جنگ بن چکی ہے جو پندرہ ماہ سے جاری ہے ۔دراصل پورا منصوبہ ناکام ہوچکاہے۔ امریکہ اور ناٹو نے اس یقین کے ساتھ روس-یوکرین تنازعہ میں دخل اندازی شروع کی تھی کہ یہ فریبی جنگ یوروپ میں روسی اثر کو کم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ اس کامقصد روس کو ضخامت میں چھوٹا کرنا اوردنیا میں کثیرقطبی نظام کو ختم کرنا بھی تھا۔ کاغذ پر یہ شیطانی نہ صحیح پرایک چالاک حکمت عملی تھی ۔ اندازہ تھاکہ ناٹواسلحوں سے لیس یوکرین جلدہی روس پر بھاری پڑے گا۔ کم ازکم مغربی منصوبہ سازوں نے یہ اندازہ تولگایاہی تھا کہ روس برسوں تک ایک اورافغانستان میں پھنسارہے گاجبکہ امریکہ ایک اعلیٰ طاقت کی شکل میں دوبارہ زندہ ہوکر قابض ہوجائے گا لیکن جو سوچا گیا تھا اس کے برعکس ہوا۔ یہ فریبی جنگ ہرمحاذ پر ایک ایسی لڑائی میں بدل گئی جسے ایک محدود جنگ عظیم کے زمرے میں رکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ امریکہ ایک بڑہدف لیکر چلاتھا پراس کے ہدف میں کمی آئی ہے۔ اس بار عالمی برادری مغرب کے پیچھے لائن لگاکر کھڑی نہیں ہوئی بلکہ ایمانداری سے اس نے فاصلہ برقرار رکھاہے۔ روس کو بدنام کرنے اور امریکی پابندیوں کو گلے لگانے کا ناٹو کا منصوبہ کے تئیں غضب کا انکار دکھاہے۔ دوسری جانب عالمی جنوب یا غریب ترقی پذیر ممالک کو اپنے مفاد کو فروغ دینے اورکثیر قطبی عالمی نظام کے استقبال کا موقع مل گیاہے۔ اب دنیا کے کمزور ممالک بھی بڑے ممالک کے ساتھ بہتر سودے بازی کرسکتے ہیں۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو بھی اس رجحان کے تحت دیکھاجاسکتاہے۔ آج جنوبی امریکہ ، افریقہ، مغربی ایشیاء اوریہاں تک کہ مشرقی ایشیاء کے کچھ حصوں میں بھی یہ رجحان دیکھاجاسکتاہے۔
بڑے ممالک کا جغرافیائی سیاسی توازن آہستہ آہستہ بدل رہاہے۔ یہ چین کی جانب راغب لگ رہاہے اورامریکہ کے سامنے مشکلیں بڑھی ہیں۔ واشنگٹن نے ماسکو اوربیجنگ کے درمیان درار پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ہے تاکہ وہ چین کے ساتھ نئے اتحاد کافائدہ اٹھاسکے۔ امریکی پالیسی سازوں نے روس سے چین کو دور کرنے کی کوشش میں شی جن پنگ حکومت کو بین الاقوامی عدالت میں لانے کی کوشش شروع کردی ہے مگر اس کا بہت کم فائدہ ہواہے۔ ایسا لگتاہے کہ روس کے ساتھ اشتراک کو خطرے میں ڈالنے کیلئے چین تیار نہیں ہے۔ تائیوان کے تعلق سے چین کو لگتاہے کہ امریکہ شاید اس کے ساتھ بھی وہی کرے گا جو اس نے روس کے ساتھ کیاہے۔
مغربی ہاتھوںمیں دراصل ترپ کا اِکّاہمیشہ سے اقتصادی نظام ہی رہاہے: امریکی ڈالر کی بالادستی، بین الاقوامی رسد فراہمی پر اس کاکنٹرول اورکسی پر اجتماعی پابندی عائد کرنے کی اس کی صلاحیت ۔ اسی سبب امریکہ کودرحقیقت لگاکہ وہ نہ صرف روس میں انتشار پیداکرسکتاہے بلکہ عالمگیریت کا ایک نیا باب بھی لکھ سکتاہے۔ پھر بھی چوکانے والے ڈرامائی اثرات سامنے آئے ہیں۔ دراصل جھٹکا روس کواتنا نہیں لگاکہ جتنا یوروپ کو لگاہے۔ یوروپ میں توانائی وصنعتی بحران کھڑا ہوگیاہے اورروسی اقتصادی نظام پر ویسا اثر نہیں ہوا جیسا امریکہ اورناٹو نے چاہاتھا۔ آج یوروپی اقتصادی نظام بڑھتی مہنگائی سے جوجھ رہاہے ۔ جرمنی جیسے بڑے صنعتی ممالک افراط زر کی زد میں آگئے ہیں۔ عالمی سطح میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ہوڑ چل رہی ہے ، میں یوروپ پچھڑ رہاہے۔ اقتصادیات کے ماہرین اب اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ یوروپ کی خوشحالی اورصنعتی طاقت کیلئے روسی سامان اورتوانائی کتنی اہم تھی۔
اب سوال اٹھتاہے کہ آخر روس کیسے بچ گیا، وہ بھی آسانی سے ؟ دراصل ناٹو ممالک جوچاہتے تھے ، اس پر غیر مغربی دنیا نے عمل نہیں کیا۔ کئی دیگر ترقی پذیر اقتصادی نظام کے ساتھ چین اورہندوستان نے مغربی بازاروں کی جگہ لے لی۔ اس سے روس کو نیا ذریعہ مواصلات ملا اوردیگر ممالک کو سستی توانائی سے فائدہ پہنچا۔ ابھی بھی ٹیکسوں سے لیس ماسکو اپنے اقتصادی استحکام کیلئے ضروری صنعتی سامان ، مشینری وصارفین کیلئے مختلف چیزیں خریدنے کے اہل ہے۔ ماضی میں روس کے ساتھ جرمنی کا جوکردار تھا اس میں اب چین اترآیاہے۔ چین کے ساتھ روس کی تجارت 2023ء میں دوسوارب ڈالر پہنچنے کا تخمینہ ہے۔
اس جنگ نے مغرب کے پورے جغرافیائی سیاسی داؤں پر سوال کھڑاکردیاہے۔ اتبدائی مرحلے میں روس کو گہرا جھٹکالگا، لیکن بعد میں ماسکو نے الگ حکمت عملی اختیارکی۔ اس نے نئے علاقوں پر قبضہ کرنے کی روایتی قواعد کی بجائے یوکرین میں واقع فوجی ڈھانچے کو تباہ کرنا اورنیچا دکھاناشروع کردیا۔ روس وسیع کھلے میدانوں میں بڑے ٹینکوں سے لڑائی کے ساتھ ہی یوکرینی محاذوں پر سیدھے حملے کرنے لگا۔ یوکرین اہم شہروں وقصبوں میں زبردست لڑائی چھیڑ دی۔ معتبر ذرائع کے مطابق روس تمام اہم شہری لڑائی میں فتحیاب ہواہے۔ اس سے اسے مشرقی یوکرین میں بڑھنے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی روس نے کیف سمیت تمام یوکرین میں فوجی رسدفراہمی اور قیمتی بنیادی ڈھانچے پر حملے میں اپنی جارحیانہ حملے کی صلاحیت کا خوب استعمال کیاہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق یوکرین کی فوجی طاقت کی بنیاد کافی حدتک بتاہ ہوگئی ہے ۔ ناٹو ابھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرسکتا۔ نہ صرف یوکرین بلکہ ناٹوممالک میں بھی ایک بڑی اورلمبی جنگ کو چلائے رکھنے کی صنعتی صلاحیت بری طرح گھٹی ہے۔ ناٹو ممالک نے 70ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی مددبھیجی ہے جس میں سے زیادہ حصہ امریکہ سے آیاہے۔ اصلی اڑچن اب مغربی صنعتی پیداوار کی صلاحیت ہے کیونکہ ناٹوکے پالیسی سازوں کو اتنی لمبی جنگ کی امید نہیں تھی۔ بہرحال یہ جنگ اب کسی قیمت پر ختم ہونی چاہیے۔ ولادیمیرپوتین چاہے کتنی بھی اپنی پیٹھ تھپتھپا لیں یوکرین میں عام شہری ،خواتین اوربچوں کا جوجانی نقصان ہواہے اس سے عالمی رائے عامہ پوتن کے خلاف ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کو اپناکردار نبھانا ہوگا ۔ بین الاقوامی سطح پر سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے کہ سارے فریقین ایک گول میز کانفرنس کرکے جنگ بندی کا اعلان کریں اورباہمی گفتگو سے اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔
[email protected]
روس -یوکرین جنگ کی زمینی حقیقت: پروفیسر عتیق احمد فاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS