بی جے پی کو اپنے ترکش کیلئے نئے تیر کی تلاش: صبیح احمد

0

صبیح احمد

کرناٹک کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے۔ صرف بی جے پی ہی نہیں، بلکہ ان نتائج سے پورا بھگوا بریگیڈ ہی ہل کر رہ گیاہے۔ کرناٹک کی شکست صرف ایک ریاست کی شکست تک محدود نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ سنگھ کا نظریہ جس کو آر ایس ایس جنوب میں تیز کرنا چاہتی تھی، اس انتخابی شکست کی وجہ سے طویل عرصہ تک کند ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ برسوں سے آزمودہ ’ہندوتو‘ اور ’برانڈ مودی‘بھی اب سوالوں کے گھیرے میں آ گئے ہیں، جو انتخابات میں بھگوا پارٹی کی جیت کی ’ضمانت‘ سمجھے جاتے تھے۔ اور یہ سوال کوئی اور نہیں بلکہ آر ایس ایس نے اٹھایا ہے۔ اس شکست سے بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے اندر بھی کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ بھگوا نظریہ کی ترجمان ایک میگزین کے اداریہ میں برجستہ کہا گیا ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ محض ’ہندوتو ایجنڈا‘ اور ’وزیراعظم نریندر مودی کی شبیہ‘ انتخابات جیتنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ نئی انتخابی حکمت عملی کے طور پر مضبوط مقامی قیادت کو ریاستی الیکشن جیتنے کا اہم عنصر قرار دیا گیا ہے۔ یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے بی جے پی کو ریاستوں میں مضبوط مقامی قیادت تیار کرنے اور ترقیاتی سیاست اپنانے کی نصیحت کی ہے۔ ’ہندوتو‘ اور ’برانڈ مودی‘ کے بارے میں سنگھ پریوار کی فکر کی آخر کیا وجہ ہے؟ کیا بی جے پی کی اس سب سے بڑی طاقت میں اب الیکشن جیتنے کی صلاحیت نہیں رہی؟ لوک سبھا انتخابات سے تقریباً ایک سال قبل جب بی جے پی انتخابی تیاریوں کو حتمی شکل دے رہی ہے، سنگھ کے اس مشورے کی خاص اہمیت ہے۔
بی جے پی کے حوالے سے یہ بات عام ہے کہ 2014 سے پوری پارٹی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے گرد مرکوز ہے۔ نامعلوم حکمت عملی کے تحت پارٹی نے ریاستوں میں مؤثر قیادت تیار نہیں کی اور پارٹی کی پوری انتخابی مہم وزیراعظم نریندر مودی کے گرد گھومتی رہی۔ پارٹی کی یہ حکمت عملی اترپردیش، اتراکھنڈ، ہریانہ سمیت کئی ریاستوں میں کامیاب ثابت ہوئی اور وزیراعظم نریندر مودی کے نام پر ووٹ ڈالے گئے اور ان ریاستوں میں بے مثال اکثریت کے ساتھ بی جے پی کی حکومتیں بنیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہ کارڈ کچھ ریاستوں میں متوقع نتائج نہیں دے سکا اور پارٹی کو مغربی بنگال اور کرناٹک میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جارحانہ انتخابی مہم بھی اپوزیشن جماعتوں کی مضبوط مقامی قیادت کے علاقائی کرشمے کے سامنے خاکستر ہوگئی۔ اب جب کہ آئندہ سال لوک سبھا اور اس سے قبل کئی اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات سر پر ہیں، حالیہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سے سنگھ پریوار کے ماتھے پر بل پڑنے لگے ہیں۔ ایک طرف جہاں ’ہندوتو ایجنڈا‘ اور ’برانڈ مودی‘ بے اثر ثابت ہو رہا ہے، وہیں روایتی ووٹ بینک میں بھی سیندھ لگنے لگی ہے۔ اگر جہاں سیندھ نہیں بھی لگ رہی ہے تو وہاں یہ طے ہے کہ ووٹ بینک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اپنی مضبوط حریف کانگریس کی ’محبت کی دکان‘ کی مقبولیت نے پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ کیونکہ کانگریس کی طرف جو بھی ووٹ منتقل ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے، وہ یا تو مقامی پارٹیوں کا ہوگا یا پھر بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگ رہی ہوگی۔ اس لیے بھگوا بریگیڈاس کمی کو پورا کرنے کے لیے نئے ووٹروں کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کر رہا ہے۔
درحقیقت سنگھ اور بی جے پی کی پوری سیاسی چال اب تک قومی انتخابات میں 37.36 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ یہ پہلے ہی گجرات، مدھیہ پردیش اور دہلی جیسی کئی ریاستوں میں 51 فیصد کی نفسیاتی حد کو عبور کر چکی ہے۔ کیرالہ جیسی ریاستوں میں بی جے پی کی ہر ممکن کوششوں کے بعد بھی وہ ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ بی جے پی کو ملنے والے کل ووٹوں میں سب سے بڑا ووٹ بینک ہندو ووٹروں کا ہے۔ ملک کے کل ووٹروں کا تقریباً 67 فیصد ووٹ بینک ابھی تک اس کی پہنچ سے باہر ہے۔ اگر اپوزیشن اس غیر بی جے پی ووٹ بینک کو مہنگائی، بے روزگاری جیسے بڑے ایشو کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ 2024 میں نریندر مودی کی راہ میں مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ اگر بی جے پی کو آگے بھی اقتدار میں رہنا ہے تو اسے اپنا بنیادی ووٹ بینک بڑھانا ہوگا۔ لیکن چونکہ ہندو ووٹروں میں اس کی مقبولیت اب رک گئی ہے، اس لیے یہ اضافی ووٹ بینک صرف مسلم ووٹروں میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مسلم ووٹروں کے درمیان بہتر طریقے سے پہنچنے کی سنگھ پریوار کی کوششوں کو اسی انتخابی حکمت عملی سے جوڑا جاسکتا ہے۔ روایتی سیاست میں یہ مانا جاتا رہا ہے کہ مسلم ووٹر بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ نہیں دیتا۔ لیکن گزشتہ کئی انتخابات میں بی جے پی کے اس اعتماد میں اضافہ ہوتا گیا ہے کہ وہ مسلم ووٹروں کو اپنے ساتھ لا سکتی ہے۔ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات اور 2017 اور 2022 کے یوپی اسمبلی انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بی جے پی کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے، اگرچہ تعداد کم رہی ہو۔ کیونکہ اگر مسلمانوں کے ووٹ نہیں ملتے تو اس کے لیے ایسی بہت سی سیٹوں پر کامیابی ممکن نہیں تھی جہاں مسلم ووٹر فیصلہ کن ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی سابقہ پالیسی سے ہٹ کر بی جے پی نے اتر پردیش میں 2024 کے عام انتخابات سے قبل مسلم ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ پارٹی نے یوپی میں 2014 اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ساتھ 2017 اور 2022 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کو کھڑا کرنے سے گریز کیا تھا۔ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو16 لوک سبھا سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جن میں بجنور، امروہہ، مراد آباد، سنبھل، رائے بریلی، گھوسی، لال گنج، جونپور، امبیڈکر نگر، غازی پور، شراوستی، مین پوری، سہارنپور، اعظم گڑھ، رام پور اور نگینہ شامل ہیں۔ ان میں سے بی ایس پی نے 10، ایس پی نے 5 اور کانگریس نے ایک سیٹ جیتی تھی۔ حالانکہ بعد کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی اعظم گڑھ اور رام پور سیٹوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب یوپی میں تمام 80 لوک سبھا سیٹوں پر اپنی جیت کو یقینی بنانے کے مقصد سے بی جے پی نے نئی حکمت عملی کے تحت اقلیتی کمیونٹی کو راغب کرنے کے لیے ’مشن مودی مترا‘ وضع کیا ہے۔ اس مشن کا مقصد یوپی کے 80 پارلیمانی حلقوں میں سے ہر ایک میں 5000 مسلم ’مودی متروں‘ کو بھرتی کرنا ہے۔ مجموعی طور پر ریاست میں 4 لاکھ مسلم ’مودی متروں‘ کے اندراج کا ہدف ہے۔ ’صوفی سمواد مہا ابھیان‘ کے عنوان سے مسلم آؤٹ ریچ پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ جن لوک سبھا سیٹوں پر مسلمانوں کی آبادی کا 20 فیصد سے زیادہ حصہ ہے، وہاں آؤٹ ریچ پروگرام بڑے پیمانے پر منعقد کیے جائیں گے۔ اتر پردیش، کیرالہ، بہار اور مغربی بنگال سمیت کئی ریاستوں میں یہ مہم چلائی جائے گی۔ اتر پردیش میں سہارنپور، میرٹھ، رام پور اور اعظم گڑھ جیسے لوک سبھا حلقوں کے ساتھ ساتھ بہار کے کشن گنج، ارریہ اور کٹیہار میں بھی اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔
بہرحال بدلتے ہوئے حالات میں بی جے پی کو نئے منصوبے بنانے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے۔ غالباً سنگھ نے اشارہ کیا ہے کہ صرف ان ایشوز کی بنیاد پر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا جو اب تک جیت کی ضمانت دیتے رہے ہیں۔ بی جے پی کو اب اپنے ترکش میں نئے تیر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایسے ماحول میں جب اپوزیشن اپنے اتحاد اور منڈل سیاست کی مدد سے وزیراعظم کو گھیرنے کی حکمت عملی بنا رہی ہے، نئی منصوبہ سازی کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS