ایم اے کنول جعفری
منی پور میں 3مئی 2023 سے کوکی اور میتئی کمیونٹیوں کے درمیان بھڑکی نسلی تشدد کی آگ 43 ویںدن بھی ٹھنڈی نہیںہوئی ۔حالات پر قابو پانے میں ناکام ڈی جی پی، پی ڈونگل کو ہٹا کر راجیو سنگھ کو کمان سونپنے کے علاوہ 11آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران کے تبادلے کیے گئے۔ مرکزی حکومت نے امن بحالی اور گفتگوکے لیے گورنر انوسوئیا اُوئی کے، کی صدرات میں وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ، ریاستی حکومت کے کچھ وزرا،اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی، سیاسی جماعتوں کے قائدین،سابق نوکر شاہ، ماہرین تعلیم، ادیب، فن کار،سماجی کارکن اور قبائلی ذاتوں کے نمائندوں کو بطور ممبر شامل کرکے کمیٹی تشکیل دی ۔ 29مئی کو چار روزہ دورے پر امپھال پہنچے مرکزی وزیر داخلہ اَمت شاہ کے ذریعہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد تشددزدہ علاقوں میں امن برقرار رکھنے، بات چیت قائم کرنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی اپیل کے ساتھ ریٹائرڈ چیف جسٹس کی صدارت میں تشکیل عدالتی کمیشن سے تحقیقات کی یقین دہانی کے بعد اُمید کی جارہی تھی کہ ریاست کا ماحول سازگار ہوجائے گا،لیکن ایسانہیں ہوا ۔ کشیدگی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اَمت شاہ کے لوٹنے کے تین روز بعد پھر تشدد پھوٹ پڑا۔8جون کو بائک پر آئے دو لوگوں نے بی جے پی رکن اسمبلی سوارئیسام کے بی کے گھر بم پھینک کر دھماکہ کیا۔ 9جون کو کوکی اکثریتی کھوکین گاؤں میں 3افراد ہلاک ہوئے تو 11 جون کو ضلع کانگ پوکپی میں وردی پہنے بندوق برداروں نے کھوکین میں معمر خاتون سمیت3افراد کو ہلاک اور2کو زخمی کر دیا۔ واردات سے ناراض کو کی کمیونٹی نے قومی شاہراہ2- کے13کلومیٹر حصے کو بلاک کر دیا۔ 22,327 مربع کلومیٹر رقبے والی ریاست میں 104لوگ مارے گئے اور 314 زخمی ہوئے، جبکہ 50,698 لوگ 349 ریلیف کیمپوںمیں پناہ گزیںہیں۔ وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ نے مہلوکین کے وارثوں کو5لاکھ، شدید طور پر زخمی کو2لاکھ اور معمولی زخمی کو25ہزار روپے کے علاوہ تباہ ہوئے مذہبی مقامات اور گھروں کو2لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
میتئی اور کوکی قبائل کے درمیان پُر تشدد جھڑپیں تشویش ناک ہونے کے علاوہ بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت کی ناکامی کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔’میتئی‘ قبیلے کے ہجومی تشدد سے محفوظ رہنے کے لیے ’کوکی ‘قبیلے کے کئی کنبوں نے امپھال کے مغربی کانگچپ میں واقع آسام رائفلز کے کیمپ میں پناہ لی ہے۔ پناہ گزینوں کے کیمپ پر میتئی کے ذریعہ جب تب فائرنگ اور گولہ باری کرنے کا الزام ہے۔ 4جون کے حملے میں کیمپ میں موجود 8 برس کا معصوم ٹونسنگ ہینگنگ سر میں گولی لگنے سے شدید طور پر زخمی ہوا ۔ اُس کی والدہ مینا ہینگنگ(45برس) اور ایک رشتہ دار لیڈیا لار یمبس(37) بھی زخمی ہوئیں۔ شام کے 5:16بجے ایس پی کی نگرانی میں بغیرسیکورٹی کے مریض لے جا رہی ایمبولینس کو تقریباً 2 ہزار لوگوں نے راستے میں گھیرنے کے بعد اُس میں آگ لگادی۔ ڈرائیور اور نرس نے بھاگ کر جان بچائی ، لیکن زخمی ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ایس پی کے سامنے دل کو لرزادینے والی دہشت ناک واردات میں تینوں جل کر راکھ ہو گئے۔اس کے خلاف ہاتھوں میں ’کوکی زندگیاں بچاؤ‘ کی تختیاں لیے قبیلے کے لوگوں نے دہلی میں وزیر داخلہ اَمت شاہ کے گھر کے باہر نعرے بازی کرکے مظاہرہ کیا ۔5 جون کی رات میں کاکچنگ ضلع کے سگنو علاقے کے سیرومیں سیکورٹی فورسز اور باغیوں کے درمیان رُک رُک کر گولہ باری ہوئی ۔ 6جون کی صبح 4:15 بجے سیرو کے اسکول میں چھپے کوکی دہشت گردوں نے بی ایس ایف جوانوںپر حملہ کر دیا ۔ گولہ باری میں بی ایس ایف کا جوان رنجیت یادو شہید اور آسام رائفلز کے دو جوان زخمی ہو گئے ۔ تشدد زدہ علاقوں میں چپے چپے پر فوج، آسام رائفلز، سینٹرل آرمڈ فورس اور صوبائی پولیس کی موجودگی کے باوجودباغیوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ اُنہوں نے 5مئی تک ہی پولیس فورس کے 5,200 ہتھیار لوٹ لیے تھے۔امت شاہ کی اپیل پر 80فیصد میتئی اور20فیصد کوکی علاقے سے لوٹے ہتھیاروں میں صرف900 برآمد ہوئے۔ تلاشی کے دوران اے کے سیریز کی 2 رائفلیں ، ایک51ایم ایم مورٹار ، 2 کاربائن، 57 اسلحہ، 318 گولیاں اور5بم برآمد ہوئے۔ تشدد کے بعد ریاست میں کل 953 ہتھیار، 13,351 گولہ بارود اور223بم برآمد ہوئے۔ 10جون کو امپھال مشرق کے رکن اسمبلی ایل سوسندرو میتئی کے مکان پر لگے ’ڈراپ باکس‘ میں ماڈرن آٹو میٹک رائفل سمیت130اسلحے ڈالے گئے۔انٹرنیٹ پر3مئی سے جاری پابندی 15جون تک بڑھادی گئی ہے۔ مجرمانہ سازش کی بو کے شبہ میں6ایف آئی آر کی جانچ سی بی آئی کو سونپی گئی ہے۔
منی پور کی آبادی تقریباً38لاکھ ہے۔ میتئی53فیصد ہیں اور زیادہ تر امپھال گھاٹی میں رہتے ہیں ۔ کوکی40فیصد ہیں اور پہاڑی اضلاع میں رہائش پذیرہیں۔ریاست کے 16 اضلاع میں تیگنو پال، چُراچاندپور، وشنوپور، مغربی امپھال اورمشرقی امپھال سمیت11اضلاع متاثر ہیں۔ میتئی قبیلے کے میتئی لپن ، ارمبائی ٹینگول، پیوپلس لبریشن آرمی، کوآرڈینیٹنگ کمیٹی آن منی پور انٹیگرٹی اور کوکی قبیلے کے کوکی نیشنل آرمی، کوکی ریوولیوشنری آرمی، جو می ریوولیوشنری آرمی اور کوکی اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن فعال ہیں ۔ چراچاند پور، تھوبال، وشنوپور، کاکچنگ، کبگ پوکپی، کام جونگ۔ تیگنو پال، چندیل امپھال مغرب، امپھال مشرق اور اُوکھرول میں میتئی قبیلے کے 61 گاؤں میں 2190 گھروں کو آگ لگا دی، جبکہ کوکی قبیلے کے 71گاؤں میں 1475 گھر وں کو آگ کے حوالے کردیا۔ 28مئی کو سیرو میں کانگریس کے رکن اسمبلی کے گھر توڑ پھوڑ کے بعد کئی گھروں میں آگ لگائی گئی۔
میتئی کمیونٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 1949 میں انڈین یونین کے ساتھ انضمام سے قبل انہیں ریاست میں ایک قبیلے کا درجہ حاصل تھا۔گزشتہ 70 برسوں میںآبادی62فیصد سے گھٹ کر50فیصد رہنے کی بنا پر قبیلہ اپنی شناخت بچانے کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کر رہا ہے،جبکہ منی پور کے ناگا اور کوکی قبائل ریزرویشن کے خلاف ہیں۔ دلیل ہے کہ ریاست کی60اسمبلی سیٹوںمیں امپھال وادی کی 40 سیٹوں پرپہلے ہی میتئی کا غلبہ ہے۔قانون کے تحت میتئی کوصوبے کے پہاڑی علاقوں میںبسنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے حکومت کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے پر غور کے احکامات دیے ہیں۔ ریزرویشن کی بنا پر میتئی کو ایس ٹی زمرے میں ریزرویشن کے بعد کوکی اور ناگاؤں کو حقوق کی تقسیم کا خوف ہے۔ یہی تشدد کی اصل وجہ ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے کوکی لوگوں کا ماننا ہے کہ آسام رائفلز اُن کی مدد کر رہا ہے،لیکن امپھال میں میتئی کے دبدبے اور وزیراعلیٰ سے لے کر وزرا تک کے میتئی ہونے کے سبب صوبائی پولیس میتئی کی مددکر رہی ہے ۔ ادھر میدان والے میتئی قبیلے کے لوگوں کا خیال ہے کہ کم آبادی کے باوجود 90فیصد زمین پر کوکی کا قبضہ ہے۔ میانمار سے سیدھے تعلق کی بنا پر وہاں سے ملیٹنٹ ان کی مدد کو آتے ہیں۔ پولیس ٹھیک ہے،لیکن آسام رائفلز اپنے مفاد میں کوکی کو تعاون دے رہا ہے۔ میتئی این آر سی کے نفاذکے ساتھ کوکی کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیںتو کوکی الگ راجیہ کی مانگ تک پہنچ گئے ہیں۔منی پورقانون ساز اسمبلی کی اخلاقیات اور استحقاق کمیٹی کی جانب سے16مئی کو میڈیا کے سامنے الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والے کوکی چن کے 10ممبران ہاؤکھولیٹ کپگین، نگر سانگلور سناٹے ، کمنیؤ ہاؤکپ ہنگ شنگ، لیپاؤ ہاؤکپ، ایل ایم کھوٹے،لیٹزا مانگ ہاؤکپ، چن لتھانگ، پاؤلین لال ہاؤکپ،نیمچا کپ گین اور ونگ جاگن والٹے کو نوٹس جاری کیے ۔ تشدد کی آگ ٹھنڈی کرنے اور حالات پر قابو پانے میں سیاسی جماعتوں کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]