شاہد زبیری
بی جے پی مخالف پارٹیاں جہاںبہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں پٹنہ میں 12 جون کو اتحاد کا ڈول ڈالیں گی اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی حکمت عملی طے کریں گی لکھنؤمیں سماجوادی پارٹی 9جون کو لکھنؤ سے 55کلو میٹر دور شمال مغرب کی جانب واقع ملک کے مشہور مندر نومیشارنیہ مندر میں ہون پوجن کے ساتھ پارلیمانی انتخابات کی مہم کا آغاز کرے گی۔یہ مہم پارٹی کے دو روزہ کارکنان کے ٹریننگ کیمپ سے شروع ہو گی ۔اطلاعات کے مطابق اس ٹریننگ کیمپ میں نرم ہندوتوا کا چولا پہن کر سماجوادی پارٹی لوہیا اور امبیڈکر کے نظریات سے پارٹی کارکنان کو واقف کرائے گی اور نرم ہندوتوا کے ہتھیار سے سنگھ و بی جے پی برانڈ ہندوتوا کے مقابلہ کرنے کیلئے کارکنان کو ٹریننگ دیگی اور اس طرح اکثریتی طبقہ کے ووٹروں کے ایک بڑے حصہ کو شیشہ میں اتار نے کی کوشش کرے گی۔
ایک معروف ہندی روزنامہ کی خبر کے مطابق پارٹی کے اس خاص ٹریننگ کیمپ میں پارٹی قائد اکھلیش سنگھ یادو کے علاوہ پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری شو پال یادو سمیت پارٹی کے سینئر لیڈر بھی شرکت کریں گے ۔کہا جا رہا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں لوہیا وادیوں اور امبیڈ کر وادیوں کو آئین بچا نے کی دہائی دے کر ایک اسٹیج پر لانے کی سعی کرنے کے علاوہ سماجوادی پارٹی انتہائی پسماندہ طبقات کے ساتھ بی ایس پی کے دلت ووٹروں میں بھی سیندھ لگانے کے فراق میں ہے۔ 2022کے اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو 38فیصد ووٹ ملے تھے جو مسلمانوں کی دین تھے جس سے انکار ممکن نہیں ، مسلمانوں نے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے آنکھ بند کر کے یکمشت ووٹ سماجوادی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیے تھے اس مرتبہ پارٹی کی کوشش ہے کہ انتہائی پسماندہ اور دلت ووٹروں کے سہارے اپنے 38فیصد ووٹ میں اضافہ کرے اس کا ہدف 40سے 45فیصد ووٹ پا نے کا ہے اس کیلئے کیمپ کا آغاز کرنے سے پہلے 151ویدی پر بیٹھے اکھلیش یادو سمیت پارٹی کے دوسرے لیڈر ویدک منتروں کا پاٹھ کریں گے اور ہون پوجن کریں گے ۔پارٹی کے سابق ممبر اسمبلی رام پال یادو کے مطابق اکھلیش سنگھ یادو اور دوسرے لیڈر للت مند ر بھی جا ئیں گے جہاں وہ دیوی دیوتائوں سے جیت کا آشر واد لیں گے ۔دو روزہ ٹریننگ کیمپ کیلئے سماجوادی پارٹی اس تاریخی اور قدیم مندر سے اپنی انتخابی مہم اس لئے شروع کررہی ہے تاکہ بی جے پی کے برانڈ ہندتوا کا جواب نرم ہندوتوا سے دے سکے ایو دھیا کی طرح اس تاریخی مندر میں بھی 84کوس پریکرما ہوتی ہے۔
سیکولرزم اور سوشلزم کی دعویدارسماجوادی پارٹی کا کسی مندر سے نر م ہندوتوا کا چولا پہن کر انتخابی مہم کے آغاز کرنے سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پارٹی سیکولرزم اور سوشلزم کی پٹری سے اتر رہی ہے اور شعوری طور پر کھلی آنکھوں سے سنگھ ا ور بی جے پی کے ہندوتوا کے ٹریپ میں پھسنے جا رہی ہے ۔حیرت ہے کہ سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش سنگھ یادو نے نہ تو 2022 کے اسمبلی انتخابات کی شکست سے کوئی درس لیا اور نہ ہی کرناٹک میں کانگریس کے صاف اور واضح انتخابی ایجنڈے اور فرقہ پرستی اور فسطائیت کیخلاف مضبوط اسٹینڈ سے کچھ سیکھا ۔ قارئین کو یاد ہو گا اسمبلی انتخابات میںاکھلیش سنگھ یادو نے برہمنوں کے ووٹ لینے کیلئے جہاں بر ہمنوں کے بھگوان پرشو رام کا فرسہ ہاتھوں میں اٹھا یا تھا انہوں نے برہمن سماج سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ کامیاب ہو نے اور سرکار بنا نے کے بعد یو پی کے ہر ضلع میں سرکار بھگوان پرشو رام کی مورتی نصب کرائے گی لیکن نتیجہ کیا نکلا سماجوادی پارٹی کو اکھلیش سنگھ یادو کی برادری کے بھی خاطر خواہ ووٹ نہیں ملے بر ہمن ووٹ تو کجا ۔
سیاسی مبصر یہ مانتے ہیں کہ اکھلیش سنگھ یادو نظریاتی طور پر اتنے مضبوط نہیں جتنے ان کے پتا نیتا جی ملائم سنگھ یادو تھے اکھلیش سنگھ پارٹی کو سماجواد اور سماجوادی پارٹی وراثت میں ملے ہیں وہ نہ سماجواد کو پوری طرح سمجھ پائے اور نہ ہی پارٹی ان سے سنبھل رہی ہے ۔یو پی کے بلدیاتی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے جیت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور یو پی کی 17کارپوریشن میں کسی ایک میں بھی اس کا میئر کامیاب نہیں ہوا۔ کانگریس نے بنا کسی محنت کے بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی نے مسلمانوں کو اس لئے اسٹیج سے دور رکھا تھاتاکہ پارٹی کو ہندو ووٹ مل سکے اور اس پر مسلم پرستی کا لگا داغ دھل سکے لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی مسلمانوں سے دوری بھی اس کو ہندو ووٹروں سے قریب نہیں کرسکی ۔ سماجوادی پارٹی کے اسی نا عاقبت اندیشانہ رویہ کے سبب مسلمان بھی اکھلیش سنگھ یادو اور سماجوادی پارٹی سے اب اپنا دامن بچا نے لگے ہیں بلدیاتی انتخابات میں کئی اضلاع میں انہوں نے کانگریس کو اپنی پہلی پسند مانا تو کہیں بی ایس پی کو ،مرادا باد اور سہارنپور اس کی واضح مثال ہیں ۔مسلمانوں کی نگاہیں اب اپوزیشن اتحاد پر لگی ہیںجسکی میٹنگ 12جون کو پٹنہ میں ہونے والی ہے معلوم نہیں کہ اس بحر کی تہ سے کیا نکلے۔ اس اتحاد میں سماجوادی پارٹی شامل ہو تی ہیکہ نہیں سوال یہ بھی ہے اس لئے کہ ابھی سماجوادی پارٹی تذبذب کا شکار ہے اس کو کانگریس سے خطرہ ہے جس طرح بنگال میں ممتا کو اور تلنگا نہ میں کے سی آر کو یہ تینوں لیڈر اور ان کی پارٹیاں کانگریس کے بڑھتے اثرات سے خوفزدہ ہیں اسی لئے کچھ پتہ نہیں کہ اس ممکنہ اتحاد میں یہ لیڈر شامل ہوتے ہیں کہ نہیں ممتا نے کانگریس کے واحد ممبر اسمبلی کو بھی توڑ لیا ہے جس سے کانگریس ناراض ہے پارٹی کے سینئر لیڈر اور قومی ترجمان جے رام رمیش کا اس پر بیان آچکا ہے کے سی آر جا نتے ہیں کہ تلنگا نہ میں کبھی کانگریس کا دبدبہ تھا اور وہ اب بھی تلنگا نہ میں اپنی پکڑ رکھتی ہے ان کوخوف ہیکہ کہیں اتحاد کے شانوں پر سوار ہو کر کانگریس تلنگا نہ میں اپنا قد اونچا نہ کر لے ،ممتا بنر جی کو ڈر ہے کہ بنگا ل کے 30 فیصد مسلم ووٹرکانگریس کے پالے میں نہ لوٹ جا ئیں اور اس کی نیّا ڈانوا ڈول نہ ہو جا ئے کچھ ایسا ہی ڈر اکھلیش یادو کو بھی ہے اسی ڈر کے سبب کے سی آر ،ممتا بنرجی اور اکھلیش سنگھ یادو نتیش کے اتحاد سے دوری بنا کر اپنا الگ اتحاد بنا نے کیلئے بھی پر تول رہے ہیں لیکن نتیش کے آگے ان تینوں کی بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی ہے ،نتیش مانتے ہیں کہ کانگریس ایک قومی پارٹی ہے جس کی کئی ریاستوں میں سرکار ہے اس کے بناء کوئی اتحاد کامیاب نہیں ہو سکتا یہ بات اب کجریوال کی سمجھ میں بھی آگئی ہے ۔ کر ناٹک میں کا نگریس نے سنگھ اور بی جے پی کی کھلی فرقہ پرستی کے جواب میں جس طرح واضح موقف اختیار کیا خواہ وہ حجاب کا مسئلہ ہو یا حلال اور مندروں میں دوکانیں لگانے کا مسئلہ یا مسلمانوں کے 4فیصد رزرویشن کا مسئلہ اس نے ا ن سب پر ایک مضبوط اسٹینڈ لیا اورماضی کی غلطی سے سبق لیتے ہو ئے اس نے برانڈ ہندوتوا کے مقابلہ کیلئے نرم ہندوتوا کا سہارا نہیں لیا نظریاتی بنیادوں پر اس نے سنگھ و بی جے پی کی مذہب اور دھرم کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے اور نفرت کی بنیا د پر سماج کو بانٹنے کی کوشش کر ناٹک میں ناکام کردی ۔مسلم فرقہ پرست پارٹیوں کے ساتھ بدنامِ زمانہ بجرنگ دل پر پابندی لگائے جا نیکا اعلان کرنے سے بھی وہ نہیں ہچکچائی اور کرناٹک میں اس نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اس پہلے ہماچل پردیش میں بھی کانگریس نے نفرت کی دوکان کے سامنے محبت کی دوکان کھولی اور کامیاب رہی اس لئے یہ کیسے ممکن ہیکہ کانگریس کے بغیر کوئی اپوزیشن اتحاد بن جا ئے اور بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کر دے کانگریس بھی نرم پڑی ہے او ر نتیش کے اس فارمولہ کی تائید کررہی ہے کہ جو پارٹی جس ریاست میں مضبوط ہے اس پارٹی کے امیدوار کی حمایت کی جا ئے اور کانگریس جن ریاستوں میں طاقتور ہے اپوزیشن جماعتیں اس کے امیدوار کو ووٹ دیں اور ایک کے مقابلہ ایک امیدوار اتارے اس کی تائید سابق گورنر ستیہ پال ملک بھی کررہے ہیں تاہم اتحاد کی اس حکمت عملی پر بھی کچھ سوال کھڑے کئے جا رہے ہیںIf & But بٹ لگا ئے جا رہے ہیں لیکن انتخابی ایجنڈا ، نظریہ اور وژن ایک ہو اس پر سب متفق ہیں ۔صرف مودی اوربی جے پی کی مخالفت نہ ہو بلکہ آئین کا تحفظ ، جمہوریت اور سیکو لرزم کی بقا اور معاشی پالیسی اور کمر توڑ مہنگائی کی بنیاد پر بی جے پی کیخلاف ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کی جا ئے۔ بھلا ایسے کسی اتحاد میں سماجوادی پارٹی کے نرم ہندوتوا کے ایجنڈہ کی گنجائش آخر کہاں نکلتی ہے؟
[email protected]
لوہیا اور امبیڈکر کے سہارے میدان میں اترے گی ایس پی : شاہد زبیری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS