چوبیس سال بے مثال

0

محمد فخر امام

اردو زبان ایسی شیریں زبان ہے جس نے نہ صرف دلوں پر حکومت کی بلکہ وطن عزیز سے محبت کرنے والوں میں ایک ایسے جوش اور ولولہ کی چنگاری بھڑکادی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شعلہ میں تبدیل ہوگئی اور نتیجہ کے طور پر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ آزادی کے بعد اقتدار کی ہوس اور تقسیم کی سیاست سے نہ صرف ملک کے عوام کو شدید نقصان پہنچا بلکہ لوگوں کو متحد کرنے والی اردو زبان بھی آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی اور یہ زبان اپنے ہی وطن میں بے گانہ ہونے لگی۔ ایک طرف غیرملکی زبان کی دستک تو دوسری طرف مغربی تہذیب کے بڑھتے اثرات کے درمیان اپنوں نے ہی اردو سے منہ موڑنا شروع کردیا۔ لوگوں کے گھروں اور میز سے اردو کے جریدے غائب ہونے لگے۔ ایسے ہی وقت میں اردو زبان کا ایک شیدائی سامنے آیا اور اس بجھتے ہوئے اردو کے چراغ کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ اس پرکشش زبان سے اپنی محبت اور ہمدردی کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی مثال دوردور تک شاید ہی ملے۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا کی شکل میں 2 جون 1999 کو اردو صحافت کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ آزادی کے بعد پہلی بار ایک اردو اخبار کی رسائی کشمیر سے کنیا کماری تک ہوگئی۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے مختلف ایڈیشن دہلی، لکھنؤ، ممبئی، کولکاتہ، بنگلورو، حیدرآباد، پٹنہ، کانپور اور گورکھپور سے شائع ہونے لگے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے روز افزوں بڑھتے ایڈیشن نے نہ صرف اردوکے حوالے سے پھیلی ہوئی مایوسی کو ختم کیا بلکہ ملک بھر میں اردو اخبار نکالنے والوںاور اردو سے وابستہ اداروں کے لوگوں کا حوصلہ بھی بڑھایا۔ کئی اردو اخبارات کے صفحات رنگین ہوئے ۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے بعد اردو اخبارات کے تئیں لوگوں کی سوچ بدلی۔کئی اچھے اردو کے اخبارات متعدد شہروں سے شائع ہونا شروع ہوگئے، ساتھ ہی اردو کے پورٹلوں کی دھمک بھی سنائی دینے لگی۔ نجی سطح پر بھی اردو کے کئی تحقیقی اور ادبی ادارے قائم ہوئے۔ دراصل جنگ آزادی کے بعد جب پاکستان میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہندوستان سے یہ زبان آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی ہے لیکن 1999 میں روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اشاعت کے ساتھ ہی حالات بدلنے لگے اور آج بھی یہ زبان گنگاجمنی تہذیب کی نمائندہ ہے۔ اس اخبار نے ہمیشہ ملک کو متحد رکھنے، دبے کچلے بے یارومددگارلوگوں کو اپنا جائز حق دلانے میں اہم رول ادا کیا۔ لوگوں کی آواز کو سڑکوں سے ایوان تک پہنچایا۔ اشتعال انگیز اور زردصحافت سے گریز کرتے ہوئے حکومت کے سامنے بے باک انداز میں سوالات اٹھائے۔ بلاتفریق ہرکسی کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔ اعلیٰ معیار کے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی، اس کے علاوہ نئی نسل نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔اس وقت کی کانگریس کی حکومت ہو یا آج کی مودی حکومت روزنامہ راشٹریہ سہارا عوام کی آواز بن کر ایوان کی دہلیز تک صدائے احتجاج بلندکرنے میںہمیشہ پیش پیش رہا۔روزنامہ راشٹریہ سہارا نے کبھی بھی گودی میڈیا کا لیبل اپنے اوپر چسپاں ہونے نہیں دیا۔ اتنا ہی نہیں اردو کو اہم مقام دلانے والے اس ادارے نے ہمیشہ اپنے ملازمین کے حوصلوں کو بلند رکھا اورپرکشش تنخواہوں کے ساتھ ساتھ بہتر وسائل فراہم کیے۔ اس کا اثر یہ بھی ہوا کہ دوسرے اردو اخبارات کو بھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا پڑا۔ہمیں یہ بات کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اہل قلم حضرات نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اشاعت کو حق اور انصاف کی ایک مضبوط تحریک قرار دیا ہے۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا اپنے کثیر ایڈیشن کی وجہ سے آج دنیا کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کی حق گوئی، معتبریت اور مثبت فکرونظر کی یہ دلیل ہے کہ اس کی آواز ایوان اقتدار اور سیاست میں گونجتی رہی ہے اور اس کی آوازکو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ آج ہم تمام اردو کے چاہنے والوں کیلئے خوشی کا دن ہے کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا اپنی اشاعت کے 24 سال مکمل کرچکا ہے۔ ہمیں اس پر فخر بھی ہے اور اس عزم کا اعادہ بھی کررہے ہیں کہ ہم اخبار کی غیرجانبدارانہ پالیسی اور مثبت فکرونظر کی ذمہ داریوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔مجھے امید ہے کہ گزشتہ 24 برسوں سے روزنامہ راشٹریہ سہارا کا جو چراغ روشن ہے، اس کی روشنی جلد ہی ملک کے دیگر اردو خطوں تک پہنچائی جائے گی جہاں تک رسائی ابھی تک ممکن نہیں ہوپائی ہے اور یہ زبان گنگاجمنی تہذیب کی خوشبو کوملک کے طول وعرض میں بکھیرتی رہے گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا، دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS