ترکی میں رجب طیب اردگان کی فتح کے معنی: محمد عباس دھالیوال

0

محمد عباس دھالیوال
گزشتہ روز جیسے ہی رجب طیب اردگان ترکی الیکشن میں فتح کی خبر سامنے آئی تو عالمی سطح بیشتر مسلم ممالک و ان کے مسلمان باشندوں میں مسرت و خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دراصل اس کی بڑی تعداد یہی تھی کہ گزشتہ ایک دہائی سے مسلم دنیا میں رجب طیب اردگان ایک مسلم لیڈر بن کر ابھرا ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں اگر کہیں بھی مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی سامنے آتی ہے تو اردگان اس کے خلاف ضرور آہ کا نعرہ لگاتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ پچھلے دنوں ترکی میں جو عام صدارتی انتخابات ہوئے تھے ان میں دوسرے اور حتمی مرحلے میں صدر رجب طیب اردگان نے جیسے ہی کامیابی حاصل کی تو اس کے ساتھ ہی ان کے اقتدار کی تیسری دہائی کا آغاز ہو گیا ہے۔رپورٹس کے مطابق اتوار کو ترکی میں صدارتی انتخابات کے رن آف مرحلے کے لیے ووٹنگ ہوئی جس میں پانچ کروڑ 21 لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے۔ ووٹنگ ٹرن آؤٹ 85.71 فی صد رہا۔اس ضمن میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق الیکشن کمیشن کے اعداد و شمارکے مطابق صدر اردگان نے 52.1 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ ان کے مقابل امیدوار اور حزبِ اختلاف کے رہنما کمال کلیچ دار اولو کو 47.9 فی صد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہو ئی۔
ادھر ترکی کی میڈیا رپورٹس کے مطابق کلیچ دار اولو نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کے قومی اتحاد کی جمہوریت کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔
اس ضمن میں وہاں کے ایک مقامی اخبار ’حریت‘ کی رپورٹ کے مطابق کمال کلیچ دار اولو نے مزید کہا کہ وہ عوام کے حقوق پامال ہونے پر کبھی بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ بقول ان کے وہ اس بات کو کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے کہ لاکھوں پناہ گزینوں کے ترکی آجانے کے بعد یہاں کے شہریوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے انتخابات میں اصل ہیرو نوجوانوں اور خواتین کو قرار دیا۔ماہرین کے مطابق اس بار کے الیکشن صدر اردگان کے لیے ان کے سیاسی کریئر کا مشکل ترین مرحلہ قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ ترکی کے معاشی حالت خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ افراطِ زر سے لوگوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔رجب طیب اردگان کے مخالفین ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے دوبارہ انتخاب کے بعد وہ اسی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھیں جس کے تحت انہوں نے اپنے اختیارات میں اضافہ کیا اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا۔ اردگان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ادھر اپنی کامیابی کے بعد دارالحکومت انقرہ میں حامیوں سے خطاب میں رجب طیب ایردوان نے کہا کہ وہ عہد کرتے ہیں کہ تمام تنازعات کو پیچھے چھوڑ اپنی اقدار کے مطابق قوم کو متحد کریں گے۔اس موقع پر انہوں نے اپنے مخالف امیدوار پر اس تقریر میں تنقید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کمال کلیچ دار اولو نے دہشت گردوں کی حمایت کی۔
اس ضمن میں جب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ کردوں کی جماعت کے سابق رہنما صلاح الدین دیمرتش کو، جنہیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے، ان کی حکمرانی میں رہائی ملنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے بقول ترکی کا سب سے فوری مسئلہ افراطِ زر ہے۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے ان کو مزید پانچ برس کے لیے ملک کی حکمرانی کے لیے منتخب کیا۔
خیال رہے کہ 1923 میں سلطنتِ ۲۲۲۲۲عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفی کمال اتاترک نے جدید ترکی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کامیابی کے بعد اردگان جدید ترکی میں سب سے طویل حکمرانی کرنے والے رہنما بن گئے ہیں۔
ایردوان کی جماعت اے کے پارٹی اسلامی نظریات رکھنے والی جماعت کہلاتی ہے۔ اس کو ملک کے قدامت پسند طبقات کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق رجب طیب ایردوان کی صدارتی انتخابات میں کامیابی اور کلیچ دار اولو کی ناکامی نیٹو میں شامل ترکی کے اتحادیوں کے لیے بھی کسی حد تک پریشانی کا سبب ہوگی کیوں کہ ایردوان کے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رجب طیب ایردوان کی اس کامیابی کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کے رہنماؤ نے انھیں مبارکباد پیش کی ہے۔اس ضمن میں صدر پوتن نے ایردوان کو انتخابات میں کامیابی کا پیغام دیتے ہوئے ’میرے عزیز دوست‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ادھر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے نیٹو اتحادی کے ساتھ مشترکہ امور پر باہمی طور اور بین الاقوامی چیلنجز پر پیش رفت کے خواہاں ہیں۔ایران، سعودی عرب اور اسرائیل کے رہنماؤں نے بھی ایردوان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد پیش کی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS