کرم کر آسماں والے کہاں تک آزمانا ہے : ڈاکٹر محی الدین حبیبی

0

ڈاکٹر محی الدین حبیبی
’’ارض فلسطین ‘‘ ’اب تو ’’ارضِ شہیداں ‘‘ بن گئی !؟
(۳۲ویں عرب چوٹی کانفرنس کے تناظرمیں )
خُداخُداکرکے جُداجُدا عرب ممالک جدہ ؔ میں بظاہرطبعی طورپرجمع ہوئے مگر ’’حرم کی پاسبانی ‘‘(بیت المقدس کی بازیابی ) یاخود ’’مختاری فلسطین ‘‘ کے لئے کوئی لائحہ عمل (Action Plan) سامنے نہ آسکا ۔ وہی مذمت اورغم وغصہ کا اظہار۔نہ’ کارساز افکار‘
نہ کوئی سخن ِ یلغار ‘‘ !؟
یہ ہیں وہ 500ملین عربوںکے حکمراں جوچاہیں تواپنے ’’فکری ،وعملی اتحاد‘‘ سے ’’اسرائیل ‘‘ توکیا مقاصداسلامیہ کے مطابق دنیا کا نقشہ ہی بدل دینے کی قوت رکھتے ہیں۔اب گھرکا شیرازہ ایسا بکھراہے کہ نہ کوئی دیوارہے نہ دروازہ۔یہ لوگ ’’یقین ‘‘توکجا’’گمان کی سرحدوںمیںبھی داخل نہیں ہوسکتے کیونکہ ’’پیش بینی ‘‘سے معذور ہیں۔ ہونا تویہ چاہئے تھاکہ ارض ِ مقدس یعنی ’’مسجد اقصیٰ ‘‘ کی بازیابی کی کوئی بات ہوتی۔ایک خودمختارفلسطین کا (Road Map) سامنے آتا ۔
تاریخی شواہدکے مطابق 1948سے 2023تک یعنی ان (75) برسوں میں لاکھوںفلسطنیو ںکی ہلاکتوںکااسرائیل کو ’’قانونی طورپر بین الاقوامی عدالت (I.C.J) اوربین الاقوامی فردجرم عائدکرنے والی عدالت (I.C.C) کے ذریعہ جنگی مجرم بنایا جاتا ۔صرف 1967سے 1989 تک اقوام متحدہ کونسل نے کوئی 130سے زائددادیں منظورکی گئی ہیں اور2015سے UNOکی جنرل اسمبلی نے 150سے زائد متفقہ احکامات جاری کئے ہیں ۔جن میں مذمت بھی ہے ،ظلم کی شکایت بھی ہے اورسخت تنقیدوں کاتذکرہ ہے ۔یہ تمام اقوام متحدہ کی سرزنشیں ورنجشیں محض ایک ایسا ’’دلاسا ‘‘ یاتسلی ‘‘ ہے جس سے اور ’’رونا ‘‘ آتاہے ۔
اعدادوشمارکے مطابق اب تک UNOنے کوئی 2700قراردادیں ’’اسرائیل ‘‘ کے خلاف تاکیدی طورپر منظورکی ہیں ۔
عالمی سطح کے انسپکٹر جنرل یعنی ریاست ہائے متحدہ’’امریکہ ‘‘جہاں چاہیں ’’حملہ ‘‘کردیتے ہیں اور جہاں چاہیں ’’جنگ ‘‘ رکوادیتے ہیں ۔بہت بڑے انسانی حقوق کے علمبردارہیں ۔ بھوک پیاس فاقہ کشی کے لئے آنسوبہاتے ہیںلیکن معصوم فلسطینوں کی ہلاکت اوردربہ دری اوران پر ہونے والی بربریت ظلم پر ساکت وصامت رہتے ہیں ۔یوکرینؔ پرآنچ آئی تونہ صرف امریکہ بلکہ یورپی یونین نے کئی بلین ڈالرکے ہتھیاروںسے زوینکیؔ کوہمت دلائی۔لیکن کبھی محمودؔ عباس کو ایک معمولی بندوق بھی مہیانہ کی ۔
ایک اذیت ہے ،کارِوحشت ہے
عہدِ کرم کا ماتم ،ایک زحمت ہے
جس طرح بیسویں صدی کے اوائل میں ’’ رابطہ اقوام ‘‘ (League of Nation) کو اس لئے ناکارہ سمجھاگیاکہ وہ ۲(دو)عالمی جنگوںکوروکنے میں ناکام ہوگئی تھی ۔لیکن اب ’’UNO‘‘ کاکیاحال ہے ۔دوصدیوں پر حاوی رہنے کے باوجوداقوام متحدہ اگرچہ عالمی جنگ کے امکانات کو ابھرنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اعلیٰ فوجی طاقت اورجوہری طاقت کے ممالک (بشمول اسرائیل ) پرکوئی پابندی نہیں لگاسکتی ۔وہ توصرف ایران ،شام ،افغانستان اورشمالی کوریا وغیرہ پرپابندی لگانے میں تیز گام نظرآتی ہے ۔
خودمختارریاست فلسطین کا قیام اورمسجد اقصیٰ کی بازیابی جیسے مسائل اس کے لئے کوئی اہمیت کے حامل نہیں ۔جارج بُش کوعراق پر وحشیانہ حملہ سے یہ اقوام متحدہ روک نہ سکی۔افغانستان پر روس اورامریکہ کی خونریزی پرکوئی پابندی نہ رہی ۔کیونکہ آج بھی ’’اقوام متحدہ ‘‘ کی رگِ جاں پنجٔہ یہودہی میں ہے ۔
تاریخ اس بات کو یاددلاتی ہے اوراس یادسے دل غمگین اورجگرلخت لخت ہواجاتا ہے کہ ۱۹۱۲ ء؁ میں انگریزوںکے جال میں پھنس کر ’’عربوں‘‘ نے خلافت عثمانیہ (ترکیہ ) سے اس لئے بغاوت کردی تھی کہ شاید سارامشرق وسطی بشمول ارض فلسطین ان کے قبضہ میں آجائے گا ۔لیکن 1917؁ میں بلفورڈکلیریشن (اعلامیہ ) نے تمام اُمیدوں پر پانی پھیردیا اوراعلامیہ کے مطابق مساوی قومی ومذہبی حقوق کے تحفظ کے نام پر فلسطین کا ’’اسرائیل ‘‘ کو مالک بنادیاگیا ۔اس اعلامیہ نے ’’مسجد اقصیٰ ‘‘ کے تقدس واکرام کو بھی مجروح کرتارہا۔بلکہ 1969 میں اس مقدس سجدہ گاہ کو نذرآتش کردیاگیا ۔
ارضِ یعقوب کو ویرانہ بناڈالا
آخرش بیت المقدس کوجلاڈالا
آج بھی وہی آشفتہ سری ، بربریت ،وحشت ،خونریزیاں اوردربدری کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ اس معاملہ میں نہ تو ’’اقوام متحدہ ‘‘ نہ عرب لیگ اورنہ ہی O I C (اسلامی ممالک کی تنظیم )کوئی کچھ نہیں کرسکتا سوائے مذمت وسرزنش کے ۔۔۔!!‘‘
جبکہ عرب لیگ کے (22)ممالک جس میں زیادہ ترمتمول اور ’’تیل کے ہتھارسے لیس ‘‘ ہیں ۔یہی حال (57) مسلم ممالک کاہے جو O I C میں شامل ہیں ۔ حالیہ چوٹی کانفرنس میں بے بس محمودؔ عباس صدر فلسطین ’’داستان خونچکاں سناتے رہے ۔انہوںنے سینہ میں دل کے دھڑکنے کی بات کے علاوہ چشم فلسطین کے کربناک مناظرکوبھی پیش کیا ۔لیکن لیکن کوئی رفیق فکر ہمنوا ہوا اورنہ کوئی زورآوردم ساز !! ’’عالم اسلام ‘‘اور ’’عالم عرب ‘‘ ایک ہوکر نبردآزماہوں توہی علامہ اقبال تقریباً ایک صدی قبل کہی گئی بات عملی جامہ اختیارکرسکتی ہے ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS