پنکج چترویدی
مرکزی حکومت کی وزارت برائے جنگلات اور ماحولیات کے تحت نیشنل سینٹر فار کوسٹل ریسرچ (این سی سی آر) کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ملک کا سمندری ساحل کٹاؤ اور دیگر وجوہات سے سکڑ رہا ہے اور اس سے ماحولیاتی، سماجی اور معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ صرف تمل ناڈو میں ریاست کے کل سمندری کناروں کا تقریباً 42.7 فیصد حصہ سکڑاؤ کا شکار ہوچکا ہے۔ حالانکہ تقریباً 235.85 کلومیٹر کی ساحلی پٹی کی توسیع بھی ہوئی ہے۔ جب سمندر کے کنارے کٹتے ہیں تو اس کے آس پاس رہنے والے ماہی گیروں، کسانوں اور ان کی بستیوں کے لیے وجود کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ سمندر سے جہاں ندیاں مل رہی ہیں، وہاں کٹاؤ زیادہ ہوتا ہے اور اس سے ندیوں کی پہلے سے خراب صحت مزید خراب ہوسکتی ہے۔
اوڈیشہ کے چھ اضلاع بالاسور، بھدرک، گنجم، جگت سنگھ پور، پوری اور کیندرپاڑہ میں تقریباً 480 کلومیٹر سمندری پٹی پر بھی کٹاؤ کا بحران شدید ہو گیا ہے۔ اوڈیشہ کلائمیٹ چینج ایکشن پلان 2021-2030 میں بتایاگیا ہے کہ ریاست میں 36.9 فیصد سمندر کے کنارے تیزی سے سمندر میں ٹوٹ کر گر رہے ہیں۔ جن مقامات پر رشی کہولیہ، مہاندی وغیرہ سمندر میں ملتی ہیں، ان مقامات پر زمینی کٹاؤ کی رفتار زیادہ ہے۔ اوڈیشہ میں مشہور بندرگاہ پارادیپ کے ایرساما بلاک کے سیالی بحری ساحل پر کھارے پانی کا دائرہ بڑھ کر سیالی، پدم پور، رامتارا، سنکھا اور کلادیوی گاوؤں کے اندر پہنچ گیا ہے، نزدیک کے ضلع ہیڈ کوارٹر جگت سنگھ پور میں بھی سمندر کے تیز بہاؤ سے زمین کے کٹاؤ کے برے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ پارادیپ کے سمندری کنارے کے باغات، وہاں بنائی گئی کشتیوں کی جگہ، مہاندی کے سمندر میں ملنے کے مقام تک پر سمندر کے بڑھتے دائرہ نے اثر ڈالا ہے۔
حالانکہ بنگال میں بحری ساحل محض 210 کلومیٹر میں ہے لیکن یہاں کٹاؤ کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے۔ کیرالہ یونیورسٹی، تریویندرم کی طرف سے کی گئی اور جون-22 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تریویندرم ضلع میں پودِیّر اور اچونتھنگ کے درمیان 58 کلومیٹر کے ساحل سمندر کا 2.62 مربع کلومیٹر حصہ گزشتہ 14 برس میں سمندر کی گہرائی میں سما گیا ہے۔ کئی مقامات پر کٹاؤ کا دائرہ 10.5 میٹر تک رہا ہے۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ سال 2027 تک کٹاؤ کی رفتار تشویشناک ہو سکتی ہے۔ ویسے اس تحقیق میں ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ اسی عرصے میں سمندر کے بہاؤ نے 700 میٹر نئی زمین بھی بنائی ہے۔
وزارت ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا کے تحت کام کرنے والے چنئی میں واقع نیشنل سینٹر فارسَس ٹینیبل کوسٹل مینجمنٹ کے اعداد و شماربتاتے ہیں کہ ملک کی کل 6907 کلومیٹر کی ساحلی پٹی ہے اور گزشتہ 28 برسوں کے دوران ہر جگہ کچھ نہ کچھ نقصان ہوا ہی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مغربی بنگال میں سمندری سرحد 534.45 کلومیٹر ہے اور اس میں سے 60.5 فیصد یعنی323.07 کلومیٹر حصے میں سمندر نے گہرے کٹاؤ درج کیے ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ بحری ساحلی علاقہ گجرات میں 1945.60 کلومیٹر ہے اور یہاں 537.50 کلومیٹر کٹاؤ درج کیا گیا ہے، آندھراپردیش میں1027.58 کلومیٹر میں سے 294.89، تمل ناڈو میں 991.47 میں سے422.94 کلومیٹر میں کٹاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ پدوچیری جو کبھی سب سے خوبصورت سمندری ساحلوں کے لیے مشہور تھا، آہستہ آہستہ اپنے کناروں کو کھورہا ہے۔
ایک طرف تعمیرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف سمندر کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ یہاں محض 41.66 کلومیٹر کا ساحل سمندر ہے جس میں سے 56.2 فیصد کو کٹاؤ کا گرہن لگ گیا ہے۔ دمن دیئو جیسے چھوٹے جزیرہ میں 34.6 فیصد ساحل پر کٹاؤ کا اثر سرکاری اعداد و شمار مانتے ہیں۔ کیرالہ کے کل 592.96 کلومیٹر کے ساحل سمندر میں سے 56.2 فیصد آہستہ آہستہ کٹ رہا ہے۔ اوڈیشہ اور مہاراشٹر میں بھی سمندر کی وجہ سے کٹاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کوسٹل ریسرچ سینٹر نے ملک میں ایسے 98 مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں کٹاؤ تیزی سے ہو رہا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ اور تشویشناک 28 مقامات تمل ناڈو میں ہیں۔ اس کے بعد مغربی بنگال میں 16 اور آندھراپردیش میں 7 خطرناک کٹاؤ والے مقامات ہیں۔
تقریباً ایک دہائی قبل کرناٹک کے محکمۂ آبپاشی کے ذریعے تیار کی گئی ’نیشنل بیچ پروٹیکشن رپورٹ‘ میں کہا گیا تھا کہ سمندری لہروں کا رخ بدلنا بہت سے عوامل پر منحصر کرتا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ سمندر کے ساحلوں پر بڑھتی ہوئی صنعت کاری اور شہرکاری سے ساحلوں پر ہریالی کا غائب ہونا ہے۔ اس کے علاوہ ہوا کا رخ، جواربھاٹے اور ندیوں کے بہاؤ میں آرہی تبدیلیاں بھی سمندر کو متاثر کر رہی ہیں۔ مختلف جغرافیائی حالات جیسے بہت سی ندیوںکے سمندر میں ملنے کے مقام پر بنیں بہت سی مختلف خلیجوں کی موجودگی اور ندی کی سمت کی پوزیشن میں متواتر تبدیلیاں بھی سمندر کے غیر مستحکم رویے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اوزون کی پرت کے ختم ہونے اور فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے سمندر کی آبی سطح میں اضافہ بھی اس تباہی کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔
سمندر کی توسیع کا مسئلہ صرف دیہی علاقوں تک ہی محدود نہیں ہے، اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات سمندر کے کنارے آباد میٹروپولیٹن شہروں پر پڑ رہے ہیں، پہلے تو یہاں کئی من مٹی بھر کر متعدد عمارتیں تعمیر کی گئیں، اب جبکہ سمندر کے پانی کی سطح بڑھ رہی ہے اور بے قاعدہ یا اچانک موسلادھار بارشیں ایک عام سی بات ہو گئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ سمندر انسانوں سے اپنی زمین واپس مانگ رہا ہے۔ ویسے بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث زمین کی کمی ایک دھماکہ خیز صورتحال پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں بیش قیمتی زمین کو سمندر کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے مرکزی حکومت کو ہی جلد سوچنا ہوگا۔
جیسے جیسے دنیا کا درجۂ حرارت بڑھے گا، سمندر کے پانی کی سطح بڑھے گی تو ساحل سمندر کا کٹاؤ مزید سنگین شکل اختیار کرلے گا۔ جنوب میں تو کئی مقامات پر کئی کئی کلومیٹر تک مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے نظام زندگی متاثر ہو رہا ہے۔ قانون میں التزام ہے کہ ساحل سمندر کی ریت میں اگنے والے قدرتی پیڑ-پودوں کو اگنے کا مناسب ماحول فراہم کروانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ممبئی ہو یا کولکاتا، ہر جگہ زمین کے کٹاؤ کو روکنے والے میگروو شہر کا کچراگھر بن گئے ہیں۔ پوری کے ساحل سمندر پر موجود کھجری کے تمام درخت کاٹ دیے گئے۔
ماحولیات (تحفظ) ایکٹ 1986 کے تحت بنائے گئے سی آر زیڈ میں سمندر میں آئے جوار کی زیادہ سے زیادہ حد سے 500 میٹر اور بھاٹے کے درمیان کے علاقے کو محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں سمندر، خلیج، اس میں ملنے والی ندیوں کے بہاؤ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جوار یعنی سمندر کی لہروں کی زیادہ سے زیادہ حد کے 500 میٹر کے علاقے کو ماحولیاتی طور پر حساس قرار دے کر اسے این ڈی زیڈ یعنی نوڈیولپمنٹ ژون(کسی بھی تعمیر کے لیے پابندی عائد کیے گئے علاقے کا) اعلان کیا گیا۔ اسے سی آر زیڈ-1 بھی کہا گیا۔ سی آر زیڈ-2کے تحت ایسے میونسپل علاقوں کو رکھا گیا ہے، جو کہ پہلے سے ہی ترقی یافتہ ہیں۔ سی آر زیڈ-3قسم کے علاقے میں وہ ساحل سمندر آتا ہے جو کہ سی آر زیڈ-1 یا 2 کے تحت نہیں آتا ہے۔ یہاں کسی بھی طرح کی تعمیر کے لیے مرکزی وزارت ماحولیات کی اجازت ضروری ہے۔ سی آر زیڈ-4 میں انڈمان، نکوبار اور لکش دیپ کی پٹی کو رکھا گیا ہے۔ 1998 میں مرکزی وزارت ماحولیات نے نیشنل کوسٹل زون مینجمنٹ اتھارٹی اور اس کی ریاستی یونٹوں کی بھی تشکیل کی تاکہ سی آر زیڈ قانون کو نافذ کیا جاسکے۔لیکن یہ تمام قوانین صرف کاغذ پر ہی ہیں۔
[email protected]