مرکز اور کجریوال حکومت کے درمیان کھینچ تان

0

پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے دہلی میں سرکاری ملازمین بطور خاص اعلیٰ سطح پر کام کرنے والے اور اہم عہدوں پر ذمہ داریاں نبھانے والے آئی اے ایس افسران کی تقرری کی بابت ایک فیصلہ سناتے ہوئے دہلی میں منتخب سرکار کی بالادستی کو قانونی جواز فراہم کیا تھا۔ یہ فیصلہ کئی معنوں میں اہم تھا۔ خاص طور پر جس انداز میں سپریم کورٹ نے مرکز کے نمائندہ لیفٹننٹ گورنر کے پر کاٹے تھے اور ان کی دہلی کی منتخب سرکار کو نظرانداز کرنے کی تمام پالیسیوں اور ہتھکنڈوں کو بے اثر کردیا تھا۔ اولاً یہ کہ یہ فیصلہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے ذریعہ ہی کئی معاملوں میں منتخب سرکاروں کے حق میں اور گورنروں کے آئینی اور قانونی اختیارات کو نظرانداز کرنے کے فیصلہ کو غیر قانونی قرار دیا جانے والا تھا۔ سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں ادھو ٹھاکرے کی سرکار کی معزولی پر بھی کئی اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی تھی۔ دہلی حکومت کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔
ظاہر ہے کہ اس فیصلہ سے مرکز کے ذریعہ مختلف ریاستوں خاص طور پر ان ریاستوں جہاں پر غیر این ڈی اے بی جے پی کی سرکار یں اقتدار میں ہے ، کو بڑی راحت ملی تھی ان ریاستوں کے روز مرہ کے کام کاج میں اڑچن ڈالنے کی کوششیں کی جا تی رہی ہیں اور ان گورنروں کے ذریعہ منتخب سرکاروں کو نیچا دکھانے، کام کاج میں روڑا اٹکانے ، سیاسی فیصلوں میں مداخلت اور قانونی اور دستور ی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کی جاتی رہی ہے۔ یہاں پر دہلی کے معاملے میں مرکز میں مقتدر بی جے پی سرکار اور دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت کے درمیان براہ راست تصادم ہے اس وقت کئی معاملوں میں عام آدمی پارٹی کے دو سابق وزیر گرفتار ہیں۔ ستیندر جین، منیش سسودیا مبینہ طور پر مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ہیں اوران کے خلاف سنگین الزامات ہیں۔ یہ دونوں وزیر وزیراعلیٰ اروندکجریوال کے قریبی ہیں ۔ عام آدمی پارٹی نے جس طرح دہلی کی حدود سے نکل کر پنجاب میں حکومت بنائی ہے اس بی جے پی کو لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں سیاسی طور پر نہ سہی مگر اخلاقی میدان میں عام آدمی پارٹی اس کے لیے بڑے چیلنجز پیدا کرسکتی ہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کا اقتدار میں رہنا پارٹی کے لیے وقار کی بات ہے۔ جبکہ بی جے پی کے لیے یہ ناک کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
تمام سیاسی، قانونی ہتھکنڈوں کے باوجود بھی دہلی میں عام آدمی پارٹی کا واپس اقتدار میں آنا بی جے پی کے لیے ناگواری کا سبب ہے۔ بہر کیف بی جے پی کی سرکار نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد جس میں منتخب حکومت یعنی عام آدمی پارٹی کی سرکار کو افسران کی تقرری اور ٹرانسفر کا اختیار ملا تھا۔ بے اثر کرنے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کردیا جس کے تحت دہلی سرکار سے افسران کی تقرری اور ٹرانسفر اختیارات واپس لے لیے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا قدم تھا اور وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے سیاسی اور قانونی دونوں طریقوں سے مرکز کے ’ منمانی‘ طریقہ کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اروند کجریوال کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے موسم گرما کی چھٹیوں سے ایک دن پہلے یہ آرڈیننس صادر ہوا اور اس کی ٹائمنگ کا مقصد صرف یہ تھا کہ دہلی سرکار اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرسکے۔
مرکزی سرکار نے اپنی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نیشنل کیپٹیل سول سروس اتھارٹی کا قیام کا اعلان کردیا اور اس اتھارٹی کو اگرچہ وزیراعلیٰ کو کمان دی گئی ہے مگر کو ئی اختلاف سامنے آتا ہے اس کی سلجھانے کے لیے لیفٹننٹ گورنر کو فیصلہ کا اختیار دیاگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اتھارٹی کے قیام سے ایک بار پھر دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کو وہ اختیار مل گئے ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ان سے چھن گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی کی سرکار نے سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کو چیلنج کیا ہے اور 11مئی کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظرثانی عرضی داخل کی ہے۔
مرکزی سرکار کا مذکورہ اتھارٹی کے قیام کو ایک مضبوط قانونی شکل دینے کا ارادہ ہے اور وہ اس سلسلہ میں پارلیمنٹ میں ایک بل لانا چاہتی ہے۔ ہندوستان میں مرکز ی سرکار اور ریاستی سرکارو ںکے درمیان اختلاف رائے اور اختیارات کی کھینچ تان کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر آج کے بدلتے ہوئے حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ منتخب سرکاروں کو زیادہ اختیارات دیا جائیں تاکہ عوام میں جس انتظامیہ کو منتخب کیا ہے وہ آزادی کے ساتھ اپنے فراض کی دائیگی کرے۔ بی جے پی سرکار نے اپنے کئی مینو فیسٹو میں یہ اعلان کرچکی ہے کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دے گی۔ مگر آج کے بدلے ہوئے سیاسی حالات اس کی رائے مختلف ہے۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر برائے قانون روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ دہلی کوئی ریاست ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی راجدھانی ہے اور مرکزی سرکار یہاں کے انتظام وانصرام کو کسی ذیلی ادارے یا سرکار کو سونپ دے گی تو اس سے کئی دشواریاں پیش آئیں گی۔ یہاں پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات کا خیال رکھا ہے کہ دہلی سرکار اختیار جہاں تک ہے انہی نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے دہلی سرکار کو بیورو کریسی پر اختیارات دیے جائیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا ہے کہ مقننہ اور انتظامیہ پر دہلی گورنمنٹ کو پورا اختیار ہے ، علاوہ لا اینڈ آرڈ Law and Order اوراراضی کے بی محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے محکمہ جات کے ۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سری روی شنکر پرساد کے مذکورہ بالا دعوئوں کو نفی کرتاہے۔ یہاں پر یہ بات بھی مد نظر رہے کہ مرکزی سرکار کے ساتھ موجودہ تصادم کے بعد اروند کجریوال کے رویے میں تبدیلی آئی ہے اور وہ اب این ڈی اے اور بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کے اتحاد کی باتیں کررہے ہیں۔ انہوںنے پوری اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ راجیہ سبھا میں اگر مذکورہ بالا آرڈیننس آتا ہے تو اپوزیشن اس کے خلاف متحد ہو کر موقف اختیار کرے اور مرکز کی بی جے پی سرکار کی سازشوں کو ناکام بنا دے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اروندکجریوال کی عام آدمی پارٹی کا یہ رویہ 2024کے عام انتخابات تک باقی رہے گا یا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS