تعلیمی سال نو کو بہتر کیسے بنائیں

0

اثر خامہ: محمد زکریا کھگڑیا

دو ڈھائی مہینے کو محیط طویل فترت اور عرصے کے بعد مدارس اسلامیہ پھر سے کھل چکے ہیں، نیا تعلیمی سال دو قدم آگے بڑھ کر، تشنگان علوم دینیہ وگل چینان ریاض نبویہ کو خوش آمدید اور مرحبا صد مرحبا کے دل نواز وجاں فزا نغمے سنا رہا ہے- پورے بر صغیر میں طلبۂ کرام اپنے اعزا واقارب کو الوداع کہہ کر، بہن بھائیوں کے پیار ودلار کو تیاگ کر، ماں کی مامتا ومحبت بھری آغوش سے نکل کر، مدارس اسلامیہ کا رخت سفر باندھ رہے ہیں- خود مدارس میں ہمہ ہمی کا ماحول قائم ہے، نو آمدہ جدید طلبہ کی داخلہ کارروائیاں، ان کے قیام وطعام اور دگر سہولیات کا انتظام، قدیم طلبہ کے تعلیمی سال کی ترقی کی، طلبہ میں کتابوں کی تقسیم؛ الغرض بہت سے مختلف الاشکال امور ہیں، جن میں ذمہ داران مدرسہ ومتولیان کار ہاے ادارہ بے طرح مشغول ومصروف ہیں-

تعلیمی سال نو کے آغاز میں طلبۂ مدارس اپنے وطن سے ایک نئے ولولے، نئے جوش وجذبے، کچھ کر گزرنے کے خیال، انتھک جد وجہد اور بے پایاں کد وکاوش کے ارادے سے مدارس میں قدم رنجہ فرماتے ہیں، چوں کہ اس وقت ان کی رگوں کا خون گرم، عزائم پختہ اور “نیا طرز جنوں ایجاد کرنے” کا جوش غالب ہوا کرتا ہے؛ اس لیے ایسے وقت میں ان کی ہمت افزائی کرنا، انھیں مہمیز لگانا، اور کارگاہ عمل ومیدان تگ و تاز کے شہسوار بننے کے ہنر بتانا؛ یہ بے انتہا مفید ہوا کرتا ہے، جس کا اثر سال بھر نہ سہی؛ لیکن ایک لمبی مدت بہ قید بقا رہتا ہے، اسی مقصد کے پیش نظر چند چیزیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں، جن کو اپنانے اور انھیں سرمۂ چشم بنانے سے، علم وعمل کی یہ پر خار وادیاں، ان شاءاللہ مرغ زار وسبزہ زار بن جائیں گی- ہم طالبان علوم پر از حد ضروری ہے کہ مندرجۂ ذیل اشیا کو ہر وقت نگاہوں کے سامنے رکھیں، اور جن میں کمی وکوتاہی محسوس ہو، اسے دور کرنے کی کوشش کریں:

(1) نصب العین کا تعین:
کسی بھی انسانی گروہ اور قافلے کی کام رانی، شاد کامی اور فلاح یابی جن خصوصی و امتیازی اوصاف میں منحصر ہیں، ان میں سب سے مقدم و سر فہرست: “نصب العین کا تعین” ہے- نصب العین یعنی واضح ہدف اور روشن مقصد، جس کی جانب اپنی تمام تر توجہات کو مرکوز کر سکیں- کیا کسی ایسے قافلے سے فلاح اور منزل رسائی کی ادنی سی بھی توقع قائم کی جاسکتی ہے، جس کو اپنی منزل اور منتہاے جستجو معلوم نہ ہو؛ لیکن وہ تمام تر سنگلاخ وادیوں، پر خار گھاٹیوں اور خطرات ومشقات سے لبریز راہوں کو طے کرتا چلاجاے؟ ایسا کارواں گو مشقت وصعوبت کے تمام شدائد جھیل لے، ناقابل تسخیر چٹانوں کو پاش پاش کردے، تند و تیز باد مخالف کا رخ موڑدے، پوری قوت وشوکت اور مکمل جوش وخروش سے اپنا سفر طے کرنے والے دریاؤں کا بہاؤ روک دے، ہفت خوان رستم کو طے کرلے یا فرہاد بن کر کوہ کنی کرتے ہوے جوے شیر برآمد کرلے؛ لیکن کبھی اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرسکتا ہےاور نہ ہی ان پیہم تگ ودو کا کوئی ثمرہ اس کے ہاتھ آسکتا ہے-
نصب العین اور مقصد کا تعین ہمارے کاموں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، سمت سفر طے کرتا ہے، ارادوں میں عزم اور عزم میں کوہ پیمائی کی صفت پیدا کرتا ہے، تحریکات میں جنوں کا رنگ بھرتا ہے اور راہ سفر میں پیش آنے والی مصیبتوں اور تکلیفوں سے نبٹنے کا حوصلہ ودیعت کرتا ہے- یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ایک واضح نصب العین کے بدوں، ایک اجتماعی گروہ یا انفرادی شخص ناقص اور بے بنیاد اور کسی کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ہوجاتا ہے- نصب العین کے تعین کے فقدان سے جہاں جوش اور جذبۂ عمل اپنا دم توڑدیتا ہے، وہیں اجتماعی مسابقے و مقابلے کا داعیہ بھی جاں بہ لب ہوکر رہ جاتا ہے-

طالب علم کا نصب العین کیا ہو؟
یوں تو کسی طالب علم کے بہت سے بلند نصب العین اور مختلف نیک مقاصد ہوسکتے ہیں؛ لیکن مندرجۂ ذیل باتوں پر ارتکاز، ہر طالب علم کے لیے بیش از بیش ضروری ہے:

(1)عمومی طور پر تمام ہی علوم متداولہ اور فنون رائجہ اور خصوصی طور پر کسی ایک علم وفن میں کامل اخلاص کے ساتھ مکمل دست گاہی اور اس پر بہ درجۂ تمام دست رس حاصل کرنا کہ زمانہ اس علم وفن میں اس کے سامنے دریوزہ گری وگدا گری کر مجبور ہوجاے-
(2) اپنے حاصل کردہ علوم وفنون کو تحقیقی وتطبیقی ( practically) طور پر اپنی حیات میں اتارنا، انھیں اپنی زیست کا عنوان بنانا اور عمل کے پیرہن سے انھیں آراستہ کرنا-
(3) حاصل کردہ علوم کی روشنی میں دگر ناخواندہ وناآشناے کوچۂ علم ومعرفت کو دین الٰہی کی دعوت دینا، انھیں علم و آگہی کے زیور سے پیراستہ کرنا اور بھٹکے ہوے آہوؤں کو پھر سوے حرم لے چلنا-

(2) مقصد کا استحضار:
صرف نصب العین کے تعین سے ہی منزل مقصود تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی، اس کی خاطر ضروری ہے کہ ہم معین کردہ نصب العین اور طے کردہ مقصد کو ہمہ وقت اپنے ذہن ودماغ میں مستحضر رکھیں، بار بار ان کا جائزہ لیتے رہیں، وقفے وقفے سے اپنے بناے ہوے خاکوں کو دیکھتے رہیں کہ اس میں مطلوبہ رنگ و روغن، مطلوب مقدار میں بھر رہا ہے یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ منزل کی تعیین کے باوصف ہم غلط سمت میں چل پڑے ہیں، یا کچھ مسافت طے کرلینے کے بعد، منزل مقصود تک لے جانے والی پگڈنڈی سے اتر کر، کسی اور رخ پر نکل کر، گم گشتۂ راہ صواب ہوگئے؟ تاریخ کے صفحات میں اس طرح کی دسیوں نہیں؛ سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں کہ ایک قافلہ بلند بانگ دعووں اور بڑے طمطراق کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں ہوا؛ لیکن کچھ ہی دور چل کر شاہ راہ ہدایت سے بھٹک کر ضلالت وگم راہی کی مہیب وعمیق کھائیوں میں گر کر، اس طرح نیست ونابود ہوگیا کہ گویا وہ پردۂ عالم پر کبھی ابھرا ہی نہیں!!!

(3) ذاتی جد وجہد کا جذبۂ فراواں:
کسی بھی بلندی سی ہم کنار ہونے، کام یابی کی چوٹیاں سر کرنے اور ساحل مراد تک رسائی حاصل کرنے میں انسان کی سب سے زیادہ ممد و معاون شے، اس کی اپنی ذاتی لگن، شخصی محنت اور نجی جد وجہد ہوتی ہے- ادارہ چاہے کتنا ہی نام ور اور عالم گیر شہرت کا حامل کیوں نہ ہو، اساتذہ چاہے کتنے ہی مشفق، مربی، محنت کیش اور جد وجہد شعار کیوں نہ ہوں، رفقا وزملا کتنے ہی برا نگیختہ کنندگان کیوں نہ ہو اور ماحول کتنا ہی ساز گار، مزاج آہنگ اور طبیعت موافق کیوں نہ ہو، جب تک انسان کے اندر اپنی ذاتی لگن، فکر، تڑپ اور مقصد کے حصول کی کڑھن نہ ہو، اس وقت تک یہ ساری اشیا اس کے لیے سود مند وفائدہ بخش نہیں ہوسکتیں- آپ کسی بھی عظیم علمی، عملی اور فکری شخصیت کا جائزہ لیجیے، ان کی کتاب زیست کے اوراق پلٹتیے اور ان کی تہ تک اترجائیے، آپ کو نظر آے گا کہ ان کی زندگی کی تعمیر، ان کی شخصیت کی بنا اور ان کو اوج رفعت وثریاے عظمت تک پہنچانے میں سب سے بڑا کردار، ان کی اپنی ذاتی وشخصی لگن، تڑپ اور کڑھن کا تھا-
البتہ رسول اکرم _ صلی اللہ علیہ وسلم _ کے فرمان مبارک: “خیر العمل ما دیم علیہ” کے پیش نظر، ہمیں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ہوگی کہ محنت اور جد وجہد گوبے انتہا کثیر مقدار میں نہ ہو؛ لیکن اس پر مداومت ومواظبت ضرور ہو- ایسا نہ ہو کہ کسی ایسی کتاب کا مطالعہ کرکے، جس میں سمند سعی کو زور دار مہمیز لگائی گئی ہو، یا کسی استاد کی ایسی تقریر سن کر، جس میں پیہم تگ و تاز اور مسلسل کد وکاوش پر برانگیختہ کیا گیا ہو…. ہم اتنی محنت میں مصروف ہوجائیں کہ کچھ ہی ایام کے بعد بیماری کے سخت شکنجے میں پھنس کر، پوری محنت سے صرف نظر کرنا پڑجاے- ہمیں آکاش کے ایسے موسلا دھار مینھ کی طرح ہونے سےبچنا ہوگا، جو برستا ہے، تو ہر سمت جل تھل کا سماں بندھ جاتا ہے؛ لیکن کچھ ہی دیر بعد زمین دوبارہ خشک ہو کر تشنہ رہ جاتی ہے؛ بل کہ ہمیں پانی کے اس بہاؤ کی مانند ہونا پڑے گا، جو اپنی وسعت وطاقت کے مطابق رواں رہتا ہے؛ لیکن راہ میں آنے والے ہر خس وخاشاک حتی کہ چٹان کو بھی کاٹ کر اپنی راہ نکالیتا ہے-

(4) عزائم کی کوہ پیمائی:
بے کراں جد وجہد سے کام لینا، بے پایاں کوششیں عمل میں لانا، اور شمع کی مانند اپنے آپ کو پگھلانا؛ یہ سب اسی وقت آسان ہوتا ہے، جب کہ انسان کے سامنے عزائم کا ایک کوہ ہمالہ ہو اور وہ اس کی آخری چوٹی کو سر کرنے لیے آمادہ وکوشاں ہو- عزائم میں جتنی رفعت وبلندی کا اضافہ ہوتا چلا جاے گا، انسان کی کوششیں بھی اس کے حسب حال روز افزوں ہوتی جائیں گی اور ارادوں میں جتنی ناپختگی اور تنزل کے آثار ہوں گے، کوششیں بھی اسی قدر ناقص اور ادھوری ہوں گی-

بسا اوقات بعض طلبۂ کرام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ ہمیں مدرسے کی چہار دیواری سے نکل کر مکتب یا کسی مسجد کی امامت کی ذمہ داری سنبھالنی ہے، اس کی خاطر کسی خاص قسم کی محنت کی ضرورت نہیں ہے-
اس سلسلے میں اولا تو یہ عرض ہے کہ یہ مفروضہ ومزعومہ ہی غلط ہے کہ مکتب، کسی مدرسے کے ابتدائی درجات یا کسی مسجد کی امامت کی ذمہ داری سنبھالنے کی خاطر، اعلی صلاحیتوں کی ضرورت نہیں- مکاتب یا مساجد میں وہی معلمین وائمہ بہ حسن وخوبی اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں، جنھوں نے دور طالب علمی میں حصول علم کی خاطر، اپنے وجود کو مانند شمع پگھلایا ہو، لیلاے راحت کو تیاگ کر جفا کیشی ومحنت شعاری کا لبادہ اوڑھے رکھا ہو، تجربہ اس کا شاہد ہے-
ثانیا: یہ بات بالکل درست ہے کہ مکاتب میں نونہالان قوم کی تعلیم وتربیت: یہ کوئی چھوٹا اور غیر اہم کام نہیں؛ لیکن:

قناعت نہ کر عالم رنگ وبو پر؛
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں!
اسی روز وشب میں الجھ کر نہ رہ جا؛
تیرے زمان ومکاں اور بھی ہیں!

صرف نونہالان قوم کی تعلیم وتربیت ہی ہماری ذمہ داری نہیں، ہماری کائناتِ فرائض کا حدود اربعہ صرف اتنا ہی نہیں؛ بل کہ ہم عالم گیر نبی کے وارث ہیں؛ اس لیے چہار دانگ عالم واقصاے دنیا میں اسلام وایمان کا پھریرا لہرانا، یہ بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے، جو کہ بے کراں جہد وعمل کا متقاضی ہے- مضمون طول کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے، ورنہ یہاں پر مولانا علی میاں ندوی _ رحمۃ اللہ علیہ_ کے وہ حوصلہ افزا کلمات نقل کرنے کو میرا جی چاہ رہا ہے، جن میں حضرت نے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے ہوے، ان کے عزائم میں سمندروں کی سی وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے-

(5) کوچۂ مطالعہ سے آشنائی:
مطالعے میں وسعت وکثرت اور اس کی گہرائی وگیرائی؛ اس کا مدار مندرجہ بالا ساری اشیا پر ہے- کسی طالب علم کا نصب العین طے شدہ ہو، ہمہ وقت اپنے مقصد کو ذہن میں مستحضر رکھے اور وقتا فوقتا اس کا جائزہ بھی لیتا رہے، اسی طرح ذاتی جد وجہد کا خوگر ورسیا بھی ہو، مزید بلند عزائم کا سمندر اس کے سینے میں تلاطم خیز ہو، تو ایسا طالب علم صحرا نوردی کتب اور بادیہ پیمائی مطالعے کا رسیا ہوتا ہے، گویا مطالعہ موقوف کی حیثیت رکھتا ہے اور مذکورہ بالا اشیا موقوف علیہا کے درجے کی ہیں-

مطالعے کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور بہ اعتبار فن صرف از قبیل ثلاثی مزید فیہ ہے- جب کسی لفظ کو ثلاثی مجرد سے مزید فیہ میں لے جاتے ہیں، تو اس سے بہت سے اغراض ومقاصد وابستہ ہوتے ہیں، بہت سی ایسی خاصیات ہوتی ہیں، جو صرف مزید فیہ میں جا کر ہی دست یاب ہوسکتی ہیں- مطالعہ کا لفظ بھی ثلاثی مزید فیہ کے باب مفاعلت سے تعلق رکھتا ہے- مفاعلت کے یوں تو اور بھی بہت سے خواص ہیں؛لیکںن سب سے مشہور خاصیت “اشتراک” کی ہے، یعنی فاعل ومفعول؛ دونوں میں سے ہر ایک فاعل بھی ہو اور ہر ایک مفعول بھی جیسے قاتل زید عمروا (زید وعمرو؛ دونوں میں باہم مقاتلہ ہوا) اس مثال میں زید فاعل کے ساتھ ساتھ مفعول بھی ہے، اسی طرح عمرو بھی جہاں فاعل ہے، وہیں مفعول بھی ہے-
اسی تناظر میں اب لفظ مطالعہ کو دیکھیے، یہ بھی مفاعلت سے تعلق رکھتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتاب کو اتنے انہماک و استغراق کی کیفیت اور اتنا ڈوب کر پڑھا جاے کہ قاری کتاب پر جھکا ہو اور کتاب قاری پر جھکی ہو، قاری پر کتاب کی باتیں کھلتی رہیں اور کتاب قاری کی خاطر اپنے معانی کا دہانہ کھول دے، قاری کتاب کی گہرائیوں میں کھوجاے اور کتاب قاری کے دل ودماغ کی وسعتوں میں کھوجاے- یہ کیفیت حاصل ہے، تو وہ مطالعہ ہے، ورنہ مطالعہ نہیں؛ پڑھنا ہے-

مطالعے کا شوق کیسے پیدا کریں:
ابتدا میں واقعات، سوانح، لطائف اور کہانیوں کی کتابیں زیر مطالعہ رکھی جائیں، اس سے مطالعے کا شوق پیدا ہوتا ہے، مزید انسان اپنی فطرت تتبع وجستجو کی وجہ سے مزید آگے کی کڑی معلوم کرنے کی خاطر، کتابوں سے چمٹا رہتا ہے- 2020ء میں ماہ نامہ النخیل کا مطالعہ نمبر شائع ہوا، جس میں ساٹھ سے زائد ارباب دانش و بینش، مسند نشینان ہفت اقلیم مطالعہ اور مالکان سلطنت خامہ نے اپنی علمی، مطالعتی اور کتابی زندگی کے کچھ انمٹ نقوش تحریر کیے- تقریبا سبھی حضرات نے مشترکہ طور پر یہی بات لکھی کہ ہماری مطالعتی زندگی اور کتابی زیست کا آغاز واقعات وقصص ہی کی کتابوں سے ہوا ہے- اس طرح کی کتابیں سہل الہضم بھی ہوتی ہیں اور شوق مطالعہ کو پروان چڑھانے میں اساسی وبنیادی کردار ادا کرتی ہیں، پھر رفتہ رفتہ انسان دگر تمام علوم کی کتابوں کا بھی متحمل ہوجاتا ہے اور پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ یہی شوق کتب بینی، ذوق میں پھر یہ ذوق ایک بیماری میں اور یہی بیماری مطالعہ ایک لاعلاج مرض کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس سے گریز پائی انسان کے اختیار سے خارج ہوجاتی ہے-

مطالعے کے سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس شوق کو لاعلاج مرض کے مرحلے تک پہنچانے کے لیے، نظام الاوقات کی تشکیل اور پھر اس کی حد درجہ پابندی ومواظبت بھی از حد ضروری ہے، نظام الاوقات میں جتنا وقت مطالعے کے لیے دیا گیا ہو، اس وقت میں ہر گز کوئی دوسری مشغولیت اختیار نہ کی جاے اور جتنے صفحات کا مطالعہ طے کیا گیا ہو، اتنی مقدار پوری کیے بغیر کھانا کھائیں اور نہ بساط راحت پر دراز ہوں- اس میں کچھ ایام پریشانی تو ہوگی؛ لیکن شدہ شدہ عادت پڑجانے پر، اس کی خلاف ورزی سے طبیعت میں ناگواری محسوس ہونے لگے گی-

یوں تو اور بھی بہت سی باتیں ہیں، جو نوک قلم کر آکر، صفحۂ قرطاس پر موتیوں کی شکل میں بکھرنے کو بے تابی سے مچل رہی ہیں؛ لیکن خوف طوالت کے پیش نظر، بادل نہ خواستہ اتنے پر ہی یہ کہتے ہوے اپنے قلم کو روکتا ہوں:

تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول!
لیلی بھی ہم نشیں ہو، تو محفل نہ کر قبول
اے جوے آب! بڑھ کے ہو دریاے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو، تو ساحل نہ کر قبول!
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول!
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے:
جو عقل کا غلام کو، وہ دل نہ کر قبول!
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق وباطل نہ کر قبول!

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS