کانگریس کیلئے ابھی چیلنجز بہت ہیں

0

عبیداللّٰہ ناصر

ہماچل پردیش کے بعد کرناٹک اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی شاندار کامیابی کے بعد اس کی مقبولیت کا گراف ایک دم سے اوپر چلا گیا ہے۔کانگریس مکت بھارت کی مہم چلانے والوں کے لیے اب ایک کے بعد ایک اپنی ریاستی حکومتیں بچا پانا مشکل ہو رہا ہے۔ ویسے بھی اگر سابقہ اسمبلی انتخابات کا ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو بی جے پی کئی ریاستوں کا الیکشن ہار چکی ہے، کئی جگہ اسے مکمل اکثریت نہیں ملی اور بہت سی جگہ اس نے خرید و فروخت سے اپنی حکومت بنا لی لیکن اب وقت کا پہیہ الٹا گھومنے لگا ہے۔ مودی جی ہی اس کے اسٹار پر چارک ہیں، گرام سبھا سے لے کر لوک سبھا تک کا الیکشن انہی کے چہرہ پر لڑا جاتا ہے اور ان کے پاس مذہبی منافرت پھیلانے اور کانگریس کو کوسنے کے علاوہ اور کوئی موضوع نہیں ہوتا اور فطری طور سے عوام اب اس سے اوبنے لگے ہیں۔ہماچل پردیش جہاں کی 98فیصد آبادی ہندو ہے، وہاں بی جے پی کو اپنی حکومت گنوانی پڑی اورکرناٹک جہاں محض12فیصد مسلمان ہیں، وہاں اس کا بجرنگ دل جیسی لمپٹوں کے گینگ کو بجرنگ بلی کے مساوی کھڑا کرنا بھلے ہی الیکشن کمیشن کو برا نہ لگا ہو لیکن بجرنگ بلی کو برا لگ گیا اور انہوں نے اپنا نام بدنام کرنے والوں کو ایسی شکست دی کے دنیا دنگ رہ گئی۔ ہماچل اور کرناٹک دونوں ریاستوں کے الیکشن میں سب سے اہم بات یہ بھی رہی کہ دونوں جگہ سابقہ کے برخلاف انتخابی ایجنڈا کانگریس نے طے کیا اور بی جے پی کے جھانسہ میں نہیں آئی۔گرانی، بے روزگاری، بد عنوانی اور سماجی منافرت سے بیزار عوام کے سامنے جب کانگریس نے ان کی مشکلات کو اجاگر کیا اور انہیں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تو عوام کو باد صرصر میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا اور وہ اس شجر سایہ دار کی پناہ میں آ گئے۔ دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی عوام سے کیے گئے وعدوں کو ایمانداری سے پورا کرنے کی کارروائی شروع کی تو دوسری ریاستوں کے عوام کا بھی کانگریس پر اعتماد بڑھا اور سیاسی مبصرین و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ میں کانگریس کی کامیابی یقینی ہے جبکہ راجستھان اور تلنگانہ میں وہ سخت مقابلہ کرے گی اور نتیجوں کی پیش گوئی قبل از وقت ہوگی لیکن کانگریس کے اندرونی سروے کے مطابق وہ ان دونوں ریاستوں میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے کیونکہ راجستھان میں کا نگریس ہی نہیں بی جے پی میں بھی آپسی چپقلش ہے اور تلنگانہ میں بی جے پی جتنی مضبوطی سے لڑے گی، کانگریس کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔
اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی اس کامیابی کا اثر اگلے سال ہونے والے پارلیمانی الیکشن پر بھی پڑے گا اور جو علاقائی پارٹیاں ابھی تک کانگریس کو در خور اعتنا بھی نہیں سمجھتی تھیں، اب اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں۔ کرناٹک کی نئی حکومت کی تقریب حلف برداری میں پارٹی نے اپنے حلیف وزرائے اعلیٰ اور پارٹی کے لیڈروں کو مدعو کیا لیکن تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھرراؤ، دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال اور کیرالہ کے وزیراعلیٰ، بی ایس پی سپریمو مایاوتی کو نہیں مدعو کیا حالانکہ کمیونسٹ لیڈر سیتا رام یچوری، ڈی راجہ اور اتل کمار انجان کو مدعو کیا گیا تھا۔بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے تقریب میں شرکت نہیں کی جبکہ اپنی ایک خاندانی بزرگ کی اچانک رحلت کی وجہ سے اکھلیش یادو اس تقریب میں شریک نہیں ہوسکے۔ لوک دل کے لیڈر جینت چودھری بھی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ سیاسی مبصرین کرناٹک کے اس جم گھٹ کو آئندہ پارلیمانی الیکشن میں حزب اختلاف کی صف بندی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ بی جے پی کی لیڈرشپ اور اس کا حامی میڈیا بھلے ہی کوئی بھی دعویٰ کرے حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اس گٹھ جوڑ اور اپنے انتخابی موضوع یعنی مذہب کے نام پر منافرت پھیلا کر چناؤ جیتنے کے ہتھیار کے کند ہوجانے سے پریشان ہے کیونکہ عوامی مسائل پر کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں وہ نہیں ہے، اب اس کا ہر دعویٰ خود اس کے لیے ہی گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔
لیکن کانگریس کے لیے ابھی سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے۔ ہندی پٹی خاص کر اترپردیش، بہار نیز بنگال میں وہ بہت کمزور ہے۔یہی حال تلنگانہ اور آندھرا پردیش کا ہے، تمل ناڈو میں ضرور اسے قابل اعتماد حلیف ملا ہوا ہے، اس لیے اسے وہاں زیادہ دردسر نہیں ہے۔ دوسرے علاقائی پارٹیاں چونکہ کانگریس مخالفت پر ہی وجود میں آئی ہیں اور اسی کے سابقہ ووٹ بینک پر ان کے وجود کا انحصار ہے، اس لیے کیا وہ کانگریس کو مضبوط ہوتا دیکھ سکیںگی ؟ دوسری جانب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کانگریس کس حد تک اور کتنی قربانی دے کر چناوی سمجھوتہ کرے گی، خاص کر ان حالات میں جب وہ جانتی ہے کہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی سے سیدھا مقابلہ ہونا ہے اور علاقائی پارٹیاں اس کی طرف یا بی جے پی کی طرف جانے کو مجبور ہوں گی۔ عوام بھی مرکز میں سرکار بنانے کی حیثیت رکھنے والی انہی دو پارٹیوں میں سے کسی ایک کی طرف جائیں گے اور علاقائی پارٹیاں محض کسی کی حلیف ہی ہوسکیںگی، اس لیے کانگریس اپنا یہ ابھرتا ہوا ووٹ بینک کیسے کھوجانے دے گی، ایسے تمام موضوعات، مسائل اور سوال اپوزیشن کے اتحاد میں سامنے آئیں گے اور ان کے تشفی بخش حل پر ہی سمجھوتہ ممکن ہو سکے گا۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ چناؤ سے قبل جو اتحاد بنے، وہ الیکشن کے بعد بھی برقرار رہ سکے گا یا نہیں اور کچھ دن بعد حکومت سازی میں کون کدھر جائے گا، یہ یقینی طور سے نہیں کہا جا سکتا۔
علاقائی پارٹیوں کے سامنے ایک مسئلہ مسلم ووٹوں کا ہے اس لیے کہ چاہے اکھلیش یادو اور مایاوتی ہوں، چاہے ممتابنرجی یا چندر شیکھر راؤ ہوں، ان سب کے وجود کا انحصار ان کے اپنی ذاتوں کے ووٹوں سے زیادہ مسلم ووٹوں پر ہے۔ کرناٹک میں جنتا دل ایس کا وجود ہی خطرہ میں پڑ گیا ہے کیونکہ90فیصد مسلم ووٹروں نے کانگریس کو ووٹ دیا، کوئی بھی علاقائی پارٹی جنتا دل ایس جیسی در گت نہیں چاہے گی۔ ادھر سیاسی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور عوامی خیال یہی ہے کہ پارلیمانی الیکشن میں مسلم ووٹر تھوک بھاؤ میں کانگریس کی طرف جائے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ علاقائی پارٹیاں خود حکومت بنا نہیں سکتی ہیں اور حکومت سازی میں کسی نہ کسی بہانہ اگر بی جے پی کی طرف چلی گئیں تو بی جے پی پھر حکومت بنالے گی۔لیکن کانگریس کے لیے بھی مسلمانوں کے علاوہ دوسری ذاتوں کو اپنی طرف لانا بھی مشکل کام ہے حالانکہ اس نے سوشل انجینئرنگ کی طرف توجہ دی ہے اور سماجی انصاف کو اپنا انتخابی موضوع ہی نہیں بنایا بلکہ اپنے اپنے چار میں سے تین وزرائے اعلیٰ پسماندہ طبقوں میں سے بنا کر اس جانب ایک اچھا پیغام دیا ہے، دوسرے ایک دلت ملکارجن کھڑگے اس کے قومی صدر ہیں۔ اس طرح کانگریس دلتوں، پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں پر مشتمل ایک اندر دھنکی اتحاد بنانے میں لگی ہے۔ اپنی اس کوشش میں وہ کتنا کامیاب ہوتی ہے، یہ پارلیمانی چناؤ کے نتیجوں سے ہی پتہ چلے گا لیکن آغاز اچھا ہو تو اچھے انجام کی امید تو کی ہی جا سکتی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نریندرمودی آج بھی ایک مقبول لیڈر ہیں اور پارلیمانی الیکشن میں ان کے سامنے اپوزیشن کا چہرہ کون ہوگا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل گاندھی بہت قدآور نیتا بن کر ابھرے ہیں جو مودی کوزبردست چیلنج دے سکتے ہیں، بی جے پی شروع سے ہی انہیں اپنا سب سے بڑا اور طاقتور حریف سمجھتی رہی ہے اور ان کی کردار کشی میں، انہیں نااہل، غیر سنجیدہ ثابت کرنے میں کھربوں روپیہ بہا دیا لیکن راہل گاندھی چٹان کی طرح ڈٹے رہے اور بھارت جوڑو یاترا کے بعد تو لوگ بھی کہنے لگے کہ راہل اب پپو نہیں پاپا بن گئے ہیں۔آر ایس ایس کا تھنک ٹینک خطرہ کو بھانپ گیا اور راہل کو ریس سے الگ کرنے کی سازش شروع کر دی، وہ جس طرح مقدموں میں پھنسے ہیں اور عدالتوں کا جو رویہ ہے، اس کے دیکھتے ہوئے ہم جیسے بہت سے لوگ یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ شاید پارلیمانی انتخاب تک راہل کو گجرات ہائی کورٹ میں ہی الجھائے رکھا جائے گا۔ دوسری ریاستوں میں بھی ان پر مقدمے ہیں، وہاں سے بھی انہیں سزا ہو سکتی ہے تاکہ وہ الیکشن ہی نہ لڑ سکیں، اس طرح مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ختم ہو جائے گا لیکن اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے۔اگر کانگریس نے ملکارجن کھڑگے کو آگے کردیا تو کہانی بالکل پلٹ جائے گی، ملک کے 22فیصد دلتوں کو آزادی کے بعد پہلی بار اپنی برادری کے کسی شخص کو وزیراعظم بنانے کا موقع ملے گا جو مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک کی سیاست کو ہی زیر و زبر کر دے گا۔ فطری طور سے پسماندہ طبقوں کی بھی ہمدردی اور اپنا پن کھڑگے جی کے ساتھ ہوگا اور دلتوں سمیت اپنے بڑے ووٹ بینک کو ناراض کرنے کا جوکھم کوئی علاقائی لیڈربھی نہیں اٹھائے گا، ان کو عمومی قبولیت مل جائے گی دیگر سبھی ناموں پر علاقائی لیڈران اپنے اپنے دعوے اور اعتراض پیش کر سکتے ہیں۔یہ الیکشن کا سال ہے اور پورا سال اسی سوچ اور تجزیہ میں گزرے گا کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS