وزارت قانون و انصاف میں تبدیلی

0

اگلے عام انتخاب میں گنتی کے مہینے رہ گئے ہیں لیکن ان مہینوں کو بھی اپنے لیے بارآور اور وسیلہ کامیابی بنانے میں کوشاں مرکز کی مودی حکومت تبادلے، ترقی اور تقرری کے دائوآزما رہی ہے۔ ہاری ہوئی ریاست کے پولیس سربراہ کو سی بی آئی کا ڈائریکٹر نامزد کیاجارہاہے تو کابینہ میں بھی ردوبدل کرکے ’ناکام وزیر‘ کی جگہ ’ کام کا آدمی‘لایا جا رہا ہے۔ کرن رجیجو سے وزارت قانون و انصاف کی ذمہ داری لے کر راجستھان سے تعلق رکھنے والے ارجن رام میگھوال کو دے دی گئی ہے۔ میگھوال کے کاندھوں پر وزارت ثقافت کا بارہے لیکن انہیں وزارت قانون و انصاف کاآزادانہ چارج بھی سونپ دیاگیا ہے جب کہ کرن رجیجو کو ارضیاتی سائنس کی وزارت دی گئی ہے۔اس تبدیلی کو کرن رجیجو اپنے لیے باعث افتخار سمجھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی رہنمائی میں وزیر قانون کے طور پر کام کرنا ان کیلئے اعزاز کی بات تھی۔اب وہ ارضیاتی سائنس کی وزارت میں بھی اسی جوش و جذبے سے کام کریں گے جیسا کہ ایک بی جے پی کے کارکن کو کرنا چاہیے۔کرن رجیجونے بہ مشکل اس وزارت میں دو سال گزارے ہوں گے، انہیں2021میں وزیرقانون بنایاگیا تھا لیکن اچانک مسند قانون سے اتار کر انہیں فرش کھودنے کی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔ اس سے قبل وزارت قانون روی شنکر پرساد کے پاس تھی، انہیں بھی اسی طرح اس وزارت سے اچانک رخصتی کا پروانہ تھمادیاگیا۔
کابینہ میںتبدیلی کایہ فیصلہ وزیراعظم مودی کا حق ہے اور اس میں کوئی اعتراض والی بات بھی نہیں ہے۔وزیراعظم کی حیثیت سے وہ جب جسے چاہیں اپنی کابینہ میں شامل کرلیں، نکال باہر کریں یا وزارتوں میں تبدیلی لائیں،یہ ان کا حق ہے جسے قانونی طور پر بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔لیکن جب کسی وزارت میں بار بار اوراچانک تبدیلی کی جانے لگے تو اس کے عوامل تلاش کرنا معیوب نہیں ٹھہرتا۔
وزارت قانون کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے، چار برسوں میں دوبار وزیر بدلے گئے۔اس لیے یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ آیا جنہیں اس وزارت کی ذمہ داری دی جاتی رہی ہے، وہ اس کے اہل نہیںتھے یا پھر ان سے حکومت اورپارٹی کی وابستہ توقعات اور امیدیں پوری نہیں ہورہی تھیں۔ جہاں تک روی شنکر پرساد کا معاملہ ہے وہ ایک نامور قانون داں اور سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر شہرت رکھتے ہیں،قانون کی اچھی سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ اس کے اشکالات اور ابہام سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کا طویل تجربہ بھی ہے لیکن وہ وزیر قانون کے طور پر وزیراعظم مودی کے معیار پر پورے نہیں اترپائے اور دو برسوں بعد ہی انہیں رخصت کردیاگیا۔کرن رجیجو بھی قانون کی تعلیم سے بہرہ ور ہیں،بڑے چائو سے مودی حکومت نے انہیں وزارت قانون و انصاف کی ذمہ داری تھی لیکن یہ حکومتی منصوبے پر عمل درآمد سے زیادہ عدلیہ سے تصادم کی راہ پرچلنے لگے۔حکومت اور عدلیہ کے باہمی احترام و اعتماد کا لحاظ کئی بغیر اختلافی مسائل پر ان کے بیانات نے ملک کے عدالتی نظام کو چوپال کاموضوع بنادیاتھا۔ججوں کی تقرری کے معاملے میں کالجیم کے اختیار کو ختم کرنے کی مہم چھیڑ رکھی تھی۔ ان کے بیانات کی وجہ سے کئی بار ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے۔ سبکدوش جج حضرات پر ہندوستان مخالف گروہ کا حصہ بننے تک کے الزامات انہوں نے لگادیے۔ان کے اس بیان کے بعد سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹس کے 300 سے زائد سینئر وکلا نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سبکدوش ججوں کو دھمکیاں دے کر وزیر قانون شہریوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تنقید کی آواز کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اسی دوارن سپریم کورٹ سے کچھ ایسے فیصلے بھی ہوئے جن کی وجہ سے مرکزی حکومت بیک فٹ پر چلی گئی۔ ان میں الیکشن کمشنر کی تقرری کے نظام میں سپریم کورٹ کی جانب سے بڑی تبدیلی کا حکم جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن پر حکومتی دبائو کا راستہ ہی بند ہوگیا۔حال کے دنوں میں کرناٹک میں 4فیصد مسلم ریزرویشن کو ختم کرکے اسے وہاں کی لنگایت اور کلنگا برداریوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ پر سپریم کورٹ کی جانب سے عمل درآمد پر روک، مرکزی حکومت کی خواہشوں کے خلاف دہلی میں لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور مہاراشٹر میں ادھو ٹھاکرے حکومت کو گرانے میں گورنر کے کردار پر سپریم کورٹ کا تبصرہ ایسے واقعات ہیں جو کرن رجیجو کے دور وزارت میںہی ہوئے اوران کی وجہ سے مرکزکی مودی حکومت کے کئی منصوبے ناکام ہوگئے۔
عدلیہ سے کھلی محاذآرائی میں الجھ کرکرن رجیجونے حکومتی منصوبوں کو پس پشت ڈال دیاتھا، جس کاحکومت کو نقصان ہوا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں اس وزارت سے رخصت کردیا گیا۔ اب دیکھنا ہے کہ عام انتخابات سے فقط 12مہینوں کی دوری پر کھڑی حکومت دستار پوش ارجن رام میگھوال کووزارت قانون و انصاف کی ذمہ داری دے کر اپنی مقصد برآری میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS