عبدالسلام عاصم
پاکستان کے مردان میں گزشتہ اتوار کو ایک شخص کو جو مقامی مولوی بتایا جاتا ہے، توہینِ مذہب کے الزام میں ایک بھیڑ نے قتل کر دیا۔ ہر چند کے ایسے واقعات بر صغیر میں اب چونکانے والی خبر نہیں رہے پھر بھی افسوس ہوا اور اس بات کا صدمہ بھی کہ بظاہر نفرت کی کاشت کرنے والا خود بھی زد میں آنے سے نہیں بچ سکا۔ میڈیا نے اس واقعہ کی اطلاع تو دی لیکن خبر کو نظر بنانے والوں نے اس اہم پہلو کا احاطہ نہیں کیا کہ جس بھیڑ نے پولیس تک کو بے بس کر کے اس بھیانک واردات کو انتہائی بے رحمی سے انجام دیا، اُس بھیڑ کے تقریباً ہر فرد کا تعلق بظاہر اعتدال پسند مذہبی گھرانوں سے تھا۔
عصری زندگی کی نمائندگی کرنے والے معاشرے میں حسبِ توفیق ہم سب کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ عام گھروں کے رہنے والوں میں بباطن ایسا کون سا جذبے قابو ہو جاتا ہے جو پلک جھپکتے منظرنامہ کو ایکدم سے لہو لہان کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس حوالے سے اگر حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ بر صغیر کے بیش تر اعتدال پسند گھرانے اِدھر چند دہائیوں سے بیرونِ خانہ انتہا پسند تیار کرنے کے کارخانوں کی وجہ سے سخت مخدوش حالات سے دوچار ہیں۔ یہ کار خانے شناخت سے محروم نہیں لیکن محدود مفادات کی سیاسی، سماجی، تہذیبی یہاں تک کہ مذہبی تجارت کرنے والے عناصر ان کارخانوں کی خاموش طریقے سے سخت پردہ داری کرتے ہیں۔ نام نہاد مہذب معاشروں میں ان کارخانوں سے روبوٹک طور پر تیارشدہ مال کے استعمال کی ایک ایسی لہر دوڑی ہوئی ہے کہ اللہ کی پناہ۔
کیا ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ درس گاہوں میں درسی کتاب پڑھنے والے بچے جو کچھ پڑھتے ہیں فطری طور پر وہ انہی کو درست سمجھتے ہیں۔ ان درسی کتب میں بے شمار باتیں ایسی ہوتی ہیں جو معصوم ذہن کو معصوم نہیں رہنے دیتیں۔ اس طرح کیا ہم بچوں کے دماغ میں اُن کی عمر کے تقاضوں سے سِوا باتیں اور (ادعائیت پر مبنی) ایسی معلومات نہیں ٹھونس رہے ہیں جو صحیح ہوں یا غلط، بچوں کی فکری بنت کی بنیاد ہی ٹیڑھی کر رہے ہوتے ہیں۔ مختلف عمر کے طالب علموں کیلئے درسی کتابیں لکھنے یا مرتب کرنے کا اختیار صرف ان مصنفوں کو دیا جانا چاہیے جو بچوں کے عمر کے تقاضوں سے صحتمند طور پر آگاہ ہوں۔
ہرچند کہ بہت دیر ہوچکی ہے لیکن اب بھی اگر انسانی رشتوں کے احترام کو مقدم سماجی ذمہ داری سمجھنے والے عملی طور پر بیدار ہو جائیں تو حکومت وقت کو اعتماد میں لے کر ایک ایسا نصاب تعلیم تیار کیا جا سکتا ہے جو بچوں کے بے جا ذہنی استحصال کرنے کی راہ مسدود کرسکے۔ بدقسمتی سے ہند و پاک میں یکطرفہ نصابات کی وکالت کرنے والے ہی حکومت کا خانگی اور مجلسی حصہ ہیں۔ اُنہیں اِس سے کوئی غرض نہیں کہ قوم کے بچے بڑے ہو کر سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تہذیبی نمائندگی کی اجتماعی ذمہ داری کا کیا حشر کریں گے۔ بر صغیر کی موجودہ بے ہنگم قیادتیں ہماری ہی پرورش کا نتیجہ ہیں،جن سے ہم نجات کی دعائیں مانگنے پر تو مجبور ہیں لیکن اعمال بدلنے کو تیار نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم نئی نسل پر مسلط کردہ غیر انسانی اقدار کا پردہ فاش کر کے اُن کی دنیا اور اپنی عاقبت سنوارنے کو اولین ترجیح دیں۔
سردست تو بیشتر ورناکلر اخبارات اور کچھ انگریزی اخبارات کاسارا کاروبار انہی کارخانوں کے تیار شدہ مال سے بھرے بازاروں کی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے پر منحصر ہے۔ دعویٰ، الزام، واردات اور مذمت کے اس کاروبار میں شہادت پر مبنی لین دین کی جیسے اب کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ سارا دھندہ ادعائیت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ ایسے میں یہ بتانا اور سمجھانا بڑی تیزی سے مشکل سے ناممکن ہوتا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں جہاں نہ صرف عقائد اور نظریاتی سوچ زیادہ ہوں بلکہ وہاں افرادی قوت کا غلبہ کسی ایک کے پاس ہو وہاں ’’حقیقی علم‘‘ کی کمی سروں کی گنتی کے حساب سے مضبوط اور کمزور دونوں حلقوں / فرقوں کو کس قدر گمراہ کر سکتی ہے۔ بر صغیر کے معاشرے میں رواداری بس ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی حد تک اپنی شناخت رکھتی ہے۔ ایسی رواداری اتنی کمزور ہوتی ہے کہ کسی بھی ٹھیس سے ٹوٹ جاتی ہے۔ عدم برداشت کے رویوں کا سبب بننے والے عوامل میں مذہب، سیکولرازم اور میڈیا تینوں شامل ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ نظریاتی جنون، فرقہ پرستانہ جذبے، بے اعتمادی اور رسی کو سانپ سمجھنے والے اندیشوں سے پورا ماحول اٹ کر رہ گیا ہے۔ ’کشمیر فائلس‘ سے ’دی کیرالہ اسٹوری‘ تک واقعات کا بدترین استحصال ہی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات کو بھی جس طرح اخباری سرخیوں کے کاروبار میں خام مال کی طرح استعمال کیا جاتا ہے، اس سے اجتماعی سوچ میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔
سوال یہ ہے کہ اس سچ کو اب اور کس طریقے سے سب کے سامنے مؤثر طور پر رکھا جائے کہ مذہبی احکامات، صحائف اور شخصیات سے عدم اتفاق کو جارحانہ شکل دینے سے کبھی کوئی خوشگوار نتیجہ سامنے نہیں آسکتا۔ اس کے ہمیشہ سنگین نتائج مرتب ہوتے آئے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ عمل اور ردعمل تک محدود سوچ رکھنے والے لوگ اظہار خیال کو انسانی اقدار کا پابند بنانے کے رخ پر کوئی ایسا قدم اٹھانے کے متحمل نہیں رہ جاتے جو اتفاق کو جامد رہنے سے بچالے اور اختلاف کو تفہیم کے رخ پر متحرک کرسکے۔ ایسے ماحول میں غیر علمی باتوں پر اعتراض کرنے والے نام نہاد لبرل بھی اکثر ممکنہ نتیجے کی پروا کیے بغیر دوٹوک اظہار خیال کر بیٹھتے ہیں۔ دوسری طرف ردعمل کے محاذ پرکچھ لوگ صلواتیں سنانے کے ساتھ ہی وہ انداز بھی اختیار کر بیٹھتے ہیں کہ تشدد کا خطرہ انتہا کو چھونے لگتا ہے۔ ایسے میں سرکاری انتظامیہ پر حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے جب غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے تو ان سے بھی بعض ایسی غلطیاں سر زد ہوجاتی ہیں جن کے دور رس نتائج مرتب ہونے لگتے ہیں۔
بر صغیر میں ادھر کچھ دنوں سے متواتر ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جن سے انتہائی عالمانہ، قائدانہ اور حکیمانہ طور پر رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ حالات ابھی بھی اُس موڑ تک نہیں پہنچے کہ یہ سوال اٹھ کھڑا ہو کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اور خرابیاں جھیلی جاسکتی ہیں۔ تقریباً یومیہ بنیاد پر جو منظرنامہ مرتب ہوتا چلا جارہا ہے، وہ برقی اور غیر برقی اخبارات و رسائل کے مفاد پرستانہ ردعمل اور اس ردعمل کو کیش کرنے والے عناصر کی تاجرانہ شرارتوں سے بھر چکاہے۔
ایک طرف جہاں بدلے ہوئے ماحول میں اظہار کی آزادی کا متجاوز استعمال ہو رہا ہے، وہیں دوسری جانب اس کا نوٹس وہ عناصر زیادہ لے رہے ہیں جنہیں بس سیاسی، سماجی اور صحافتی دکانداری سے غرض ہے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی تحریروں کی وقتی واہ واہی جذباتی سطح پر ملک و قوم کو کس خسارے سے دوچار کر سکتی ہے۔ عجب نہیں کہ وہ اُس خسارے کو بھی کیش کرنے کی سوچے بیٹھے ہوں۔ ایسے میں ہونا یہ چاہیے کہ تحریر و تقریر سے پراگندہ ماحول میں سرکاری انتظامیہ کے وہ شعبے حرکت میں آئیں جو اس نوع کی ذیلی شعبہ جاتی ذمہ داریاں رکھتے ہیں اور معاملات کو کہیں ختم تو کہیں فیصل کر کے دونوں حلقوں کو ان کی حدوں کا پاس رکھنے کی سخت تلقین کریں۔
ماضی قریب کی تاریخ کے مطابق، جو فیکٹ چیک کے ساتھ گوگل پر آن ریکارڈ موجود ہے، اختلافات سے نفرت کشید کرنے کا سلسلہ ذوقطبی دنیا کے یک قطبی ہونے کی محاذ آرائی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور مذہبی انتہا پسندی کو ایک سے زیادہ حلقوں کی طرف سے بڑھاوا دینے کی تاریخ سے آگاہ ہیں ان کے لیے موجودہ تشویشناک منظر نامے کو سمجھنا دشوار نہیں۔ ہمارے ایک دوست برقی میڈیا پر ا س طرح کی بحث کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’’زندگی تو ہمیں ایک خالی برتن کی طرح ملتی ہے جس میں بہت سا رطب و یابس سماج ہماری مرضی کے بغیر ہی بھردیتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ صحت مند فکر سے کام لیتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس برتن سے کیا کیا نکالنا ضروری ہے اور اس میں ایسا کیا داخل کیا جائے کہ بے معنی اور لغو زندگی بامعنی ہوجائے۔
مذہبی جنون پر قابو پانے کیلئے مذہبی عقائد اور سائنسی علم کے مابین توازن کی سخت ضرورت ہے۔آستھا، عقائد اور حقیقی علم کے مابین ایک توازن ناگزیر ہے۔اس کیلئے ہمیں نہ تو رد تشکیل کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے، نہ ہی مطلوب توازن کیلئے ایک دوسرے کی منھ بھرائی کرنی ہے۔ انتظامی سطح پر مضبوط ارادوں کے ساتھ ہمیں بنیادی اہمیت اُس زندگی کو دینے کی ضرورت ہے جسے ہم سب جی رہے ہیں۔ حقیقی زندگی کو بہتر بنانے کی واحد صورت یہ ہے کہ انسانی وسائل سے بہتر استفادہ کیا جائے۔ اِس بحث میں پڑنے کے بجائے کہ ہم کیسے وجود میں آئے اور مرنے کے بعد ہمیں کہاں جانا ہے، ہمیں ایک اچھی زندگی گزارنے کو اہمیت دینی چاہیے۔ مذہبی اعتبار سے بھی اس سوچ پر عمل اُسی وقت ممکن ہے جب ہم یہ مان لیں کہ یہ فانی دنیا ہی بساطِ آخرت ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]