عبیداللّٰہ ناصر
کرناٹک اسمبلی الیکشن میں پھر بی جے پی پوری بیباکی سے مذہب کو استعمال کر کے انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا رہی ہے اور الیکشن کمیشن گونگا، بہرا اور اندھا بنا بیٹھا ہے۔ الیکشن کمیشن کی یہ جانب داری جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔کرناٹک کے اس الیکشن میں کوئی پارٹی جیتے یا ہارے لیکن سب سے زیادہ بدنامی الیکشن کمیشن کے حصہ میں آئی ہے اور اصل شکست اسی کی ہوئی ہے۔
کرناٹک اسمبلی کے انتخاب کے لیے مہم تادم تحریرشباب پر ہے اور تینوں پارٹیوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے، یہاں تک کہ بر سر اقتدار بی جے پی نے بجرنگ بلی تک کو انتخابی میدان میں اتار دیا ہے ۔ ویسے تو یہاں روایتی سہ فریقی مقابلہ ہے کیونکہ میدان میں بر سر اقتدار بی جے پی، کانگریس اور جنتا دل سیکولر جس کا مخفف جے ڈی ایس تینوں پوری طاقت سے ڈٹے ہیں لیکن پورے ملک کی نگاہیں کانگریس اور بی جے پی کی کارکردگی پر لگی ہیں کیونکہ اس سال ہونے والے مختلف ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن اگلے سال ہونے والے پارلیمانی الیکشن پر اثر انداز ہوں گے۔ کرناٹک میں بی جے پی اور کانگریس دونوں مکمل اکثریت حاصل کرنے کے لیے موت و زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں جبکہ جے ڈی ایس اپنی پوری طاقت لگا کر معلق اسمبلی تشکیل کرانا چاہتا ہے جس سے اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو رہتے ہیں کیونکہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ایک دوسرے کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے اس کے لیڈر کماراسوامی کو بطور وزیراعلیٰ قبول کرلیتے ہیں۔گزشتہ بارمعلق اسمبلی تشکیل ہوئی تھی اور کانگریس نے ماسٹر اسٹروک کرتے ہوئے کماراسوامی کو وزیراعلیٰ بنوا کر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا تھالیکن چند مہینوں بعد ہی بی جے پی نے ’’سپر ماسٹر اسٹروک‘‘کرتے ہوئے جے ڈی ایس کے ممبران اسمبلی کو خرید کر وہ سرکار پلٹ دی تھی اور تقریباً ساڑھے تین سال تک ایسی سرکار چلائی جسے آج کرناٹک کی تاریخ کی سب سے بد عنوان اور سب سے فرقہ پرست سرکار کہا جاتا ہے۔ اس درمیان اسے بار بار وزیراعلی بدلنا پڑا جس میں حالت یہ ہوگئی کہ ہر وزیر من مانی کرنے لگا اور وزیراعلیٰ بھی مبینہ طور سے بس کمائی میں لگے رہے یہاں تک کہ پے ٹی ایم کی جگہ ’’پے سی ایم‘‘اور’’مسٹر چالیس پرسنٹ‘‘ کہے جانے لگے۔دھیان رہے کہ چالیس فیصد تک کمیشن لیے جانے کا الزام کسی سیاسی پارٹی نے نہیں بلکہ سرکاری ٹھیکہ داروں کی تنظیم نے لگایا تھا۔
کرناٹک اسمبلی الیکشن کو لے کر اب تک جتنے بھی جائزے آئے ہیں اور وہاں کے لوگوں سے گفتگو کے ذریعہ جو قیاس اور اندازے لگائے جا رہے ہیں، ان کے مطابق برسراقتدار بی جے پی وہاں اس بار بدترین شکست سے دوچار ہونے جارہی ہے اور کانگریس مکمل اکثریت کے ساتھ وہاں سرکار بنا سکتی ہے۔ بی جے پی کی سرکار نہ صرف سب سے زیادہ بدعنوان ہے بلکہ پارٹی بھی وہاں بری طرح منقسم ہے او سینئر لیڈروں میں سر پھٹول جاری ہے، یہاں تک کہ اس کے ایک سابق وزیراعلیٰ جگدیش شیٹر اور کئی سابق وزرا اور ممبران پارلیمنٹ نیز سینئر لیڈران پارٹی چھوڑ کرکا نگریس میں شامل ہوچکے ہیں۔کانگریس میں بھی اندرونی اختلافات رہے ہیں۔ پارٹی کے صدر ڈی کے شیوکما ر اور سابق وزیراعلیٰ سدا رمیا کے اختلافات جگ ظاہر ہیں۔ پارٹی کے کل ہند صدر ملکا رجن کھڑگے کا بھی اپنا ایک گروپ تھا لیکن ان کے ملکی سیاست میں آنے اور پھر کل ہند صدر منتخب ہونے کے بعد کرناٹک کی ریاستی سیاست میں ان کا گروپ خاموش ہو گیا ہے۔ڈی کے شیو کمار فطری طور سے وزیراعلیٰ کی ریس میں شامل ہیں لیکن انہیں احساس ہوگیا ہے کہ عوام میں سدا رمیا زیادہ مقبول ہیں، ایک حالیہ جائزہ کے مطابق ان کی مقبولیت چالیس فیصد ہے جبکہ شیو کمار کی مقبولیت دو ہندسوں میں بھی نہیں ہے حالانکہ پارٹی کے لیے ان کی خدمات سدا رمیا سے کہیں زیادہ ہیں۔ سدا رمیا کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ اتنے دنوں وزیراعلیٰ رہنے کے بعد بھی ان پر بد عنوانی کا کوئی الزام نہیں لگ پایا ہے، ان کی برادری کے ووٹ بھی ریاست میں تقریباً 17 فیصد ہیں اور وہ اپنی سیکولر سیاست کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی خاصا مقبول ہیں، اس لیے شیو کمار نے جمہوری اور آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کے بعد منتخب ممبران اسمبلی اور پارٹی کی اعلیٰ کمان جو فیصلہ کرے گی وہ انہیں قبول ہوگا۔جنتا دل ایس چونکہ علاقائی پارٹی ہے اور ہر علاقائی پارٹی اپنے بانی، صدر یا اس کے اہل خاندان کی مرہون منت ہوتی ہے، اس لیے اس کے لیڈروں کے ارمان اعلیٰ ترین عہدہ تک پہنچنے کے ہوتے ہی نہیں، اس لیے وہ قومی پارٹیوں کی طرح زیادہ آپسی اختلافات کا شکار نہیں ہوتی ہے۔
کرناٹک اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے لیے کانگریس ساڑھے تین سال پہلے حکومت گنوانے کے بعد سے ہی پوری طرح سرگرم ہو گئی تھی مگر گزشتہ ایک برس سے تو اس نے پوری طاقت جھونک رکھی ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران یہاں سب سے زیادہ وقت دیا تھا۔ ریاستی سطح پر بھی سدا رمیا اور شیو کمار فطری طور سے وزیراعلیٰ کی دوڑ میں شامل تھے بلکہ ہیں لیکن دونوں کے اختلاف کبھی پارٹی مخالف سرگرمیوں تک نہیں پہنچے اور پارٹی کو برسراقتدار لانے کے لیے دونوں ٹیم ورک کرتے رہے۔ ملکارجن کھڑگے کے کل ہند صدر بننے کا کرناٹک کے عوام خاص کر یہاں کے دلت طبقہ میں اچھا پیغام گیا۔ انتخابی مہم میں کانگریس نے پوری طاقت جھونک رکھی ہے۔ شاید یہ پہلا الیکشن ہے جس میں راہل گاندھی، پرینکا گاندھی ہی نہیں خود سونیا گاندھی بھی میدان میں ڈٹی ہوئی ہیں۔ ملکارجن کھڑگے کے لیے تو یہ ان کی صدارت کا امتحان ہی ہے، اسی لیے اچھی اور حوصلہ افزا رپورٹوں کے باوجود بھی کانگریس اس بار وہاں کوئی چانس نہیں لے رہی ہے۔ راہل اور پرینکا کے جلسوں اور روڈ شو میں عوام کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر کانگریسیوں کے حوصلوں کو اور بڑھا رہا ہے۔دوسری جانب بی جے پی بھی پوری طاقت سے ہاری ہوئی بازی پلٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کے پاس ایک ہی رام بان ہے اور وہ ہے الیکشن کو فرقہ وارانہ بنانا اورکرناٹک میں وہ یہ کھیل پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کھیل رہی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کے معاملہ میں الیکشن کمیشن گونگا، بہرا اور اندھا ہو جاتا ہے اور وہ جس طریقے سے چاہے انتخابی اصولوں اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی دھجیاں اڑا سکتی ہے، اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔کانگریس نے انتخابی مہم شروع ہونے کے بعد ہی امت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کے بیانوں کو لے کر ایک شکایتی میمورنڈم چیف الیکشن کمشنر کو دیا تھا جو تادم تحریر ٹھنڈے بستے میں پڑا ہوا ہے۔کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں پی ایف آئی اور بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی بات کہی جسے بی جے پی نے بجرنگ بلی پر پابندی لگانا بتا کر عوام میں کانگریس کو ہندو مخالف بتانے کی مہم شروع کر دی اور یہ کام خود وزیراعظم نریندر مودی کر رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے ہر انتخابی جلسہ میں ’جے بجرنگ بلی‘ کے نعرے لگواتے ہیں اورعوام کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ بجرنگ بلی کی جے بول کر ای وی ایم کا بٹن دبائیں۔ یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی اتنی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر پورا چناؤ بھی رد ہو سکتا ہے اور مودی جی کو انتخابی مہم سے بھی روکا جا سکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔الیکشن کمیشن کی ایسی جانب داری کی بنا پر سپریم کورٹ نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کمشنروں کے انتخاب کو جمہوری بنانے کی ہدایت دی ہے اور الیکشن کو غیر جانبدرانہ بنانے کے لیے سیشن جیسے الیکشن کمشنر کو یاد کیا ہے۔آج بھی پرانے لوگ کہتے ہیں کہ اگر سیشن الیکشن کمشنر ہوتے تو اب تک بی جے پی کے نہ جانے کتنے لیڈروں کی دوردشا کر چکے ہوتے۔ کرناٹک کے الیکشن میں صرف بی جے پی ہی بے لباس نہیں ہوئی ہے، سب سے زیادہ بے لباسی الیکشن کمیشن کے حصہ میں آئی ہے، اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔الیکشن کمیشن کا یہ رویہ جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔کبھی ہندوستان کا الیکشن کمیشن دنیا کے کئی ایسے ملکوں میں الیکشن کروانے کے لیے بلوایا جاتا تھا جہاں جمہوریت نئی نئی آئی تھی، آج وہی الیکشن کمیشن اپنے ہی ملک میں جانب داری کی مثال بن گیا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]