کیا مسلمانوں کو ایک کمیونی کیشن انقلاب کی ضرورت ہے؟

0

عمیر انس

جمہوریت
بنیادی طور پر ایک مکالماتی عمل ہے جہاں پارٹیاں، افراد اور طبقات اپنے مفادات اور ضرورتوں کو رائے عامہ کے سامنے اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ اس کے لیے سازگار ماحول اور ہمدردی پیدا ہو، اس تعریف کے مطابق مسلمان اپنے مسائل کو عوام کے سامنے جیسے پیش کرتے ہیں اور جو رد عمل ان کو موصول ہوتا ہے، اس کی بنیاد پر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ایک سنگین کمیونی کیشن بحران سے گزر رہے ہیں اور اس بحران کے کئی پہلو ہیں۔ مسلمان خود اپنے مسائل کو بہتر سے بہتر طریقے سے عوامی زبان میں منتقل کرنے کی انفرادی صلاحیت، تنظیمی قابلیت، میڈیا کے ادارے نہیں رکھتے، دوسری جانب ملک کا میڈیا کچھ اس طرح ہمیشہ سے رہا ہے جہاں مسلمانوں کے اہم مسائل تو چھوڑ دیں، عید اور بقرعید کی انسانی خوشیوں پر بھی اسکرین یا اخباری صفحات پر مناسب جگہ نہیں ملتی، لیکن اس کے بر خلاف ان کے خلاف بد ترین قسم کی میڈیا مہم جاری ہے جو انہیں اس ملک کا سیاسی بکرا یا سیاسی فٹ بال یا سیاسی ویلن بنا کر پیش کرتا ہے،تومسلمان ایک نارمل سیاسی و سماجی مکالمہ تو چھوڑیں وہ ایک ایسے طوفان کی زد میں ہیں جہاں انہیں اپنے بنیادی حقوق کے لیے بھیک مانگنے کی نوبت درپیش ہے۔ مثال کے طور پر ایک سیاستداں یہ کہتا ہے کہ پرینکا گاندھی کو انہوں نے نماز پڑھتے دیکھا، اس بیان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ پرینکا گاندھی یا تو مسلمان ہیں یا انہیں مسلمانوں سے زیادہ لگاؤ ہے، لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ایک ایسا عوامی ذہن پیدا ہوچکا ہے جہاں ایسا بیان دینے سے آپ کو زیادہ ووٹ، زیادہ سیاسی فائدہ ملنے کے امکانات ہیں، ورنہ کوئی بھی مہذب اور سچا جمہوریت پسند سیاستداں اپنے عوام کے درمیان نفرت اور انتہا پسندی کا سیاسی استعمال کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ آپ یقین کریں کہ یہ جو ہر روز مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگانے، ان کو پاکستان بھیجنے یا ان کا قتل عام کرنے جیسے بیانات میڈیا میں آتے ہیں، کسی بھی مہذب ملک میں اس کی اجازت نہیں ہوتی ہے، لیکن ملک عزیز میں ان بیانات سے ووٹ دینے اور نہ دینے کا ذہن بنتا ہے اور یہ بات سیاست دانوں کو خوب اچھی طرح سے معلوم ہے، اس لیے سچ مچ میںقتل عام شاید کبھی نہ ہو لیکن قتل عام کی دھمکی محض سے ایک طبقے میں احساس برتری اور متحد ہوکر ووٹ دینے کا خیال ضرور بنتا ہوگا ورنہ ایسے بیانات پر پولیس اور عدلیہ کو فوری حرکت میں آجانا چاہیے تھا۔ یہ چند بیانات اس بات کی مثال ہیں کہ مسلمان اس ملک میں کمیونی کیشن کے ایک بہت سنگین بحران سے گزر رہے ہیں اور اس سنگین بحران میں محفوظ رہنے کے لیے اور اپنے جائز مطالبات پر عوامی ہمدردی کے مستحق بننے کے دستوری حق سے کوسوں دور ہیں اور محروم ہیں۔ ظاہر ہے کہ عدالتوں کے سامنے کسی طبقے کے بنیادی حقوق کی پامالی کی اس تعریف کے مطابق تو قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی لیکن کسی بھی تحقیق سے یہ ثابت کرنا آسان ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بھی عوامی ہمدردی ختم ہو چکی ہے بلکہ ان کے لیے موجود حکومتی اسکیموں کو ختم کرنے سے اکثریتی طبقے کی خوشی اور خوشنودی حاصل ہونے کے امکانات زیادہ روشن ہیں اور اسی لیے متعدد اسکیمیں جن سے غریب مسلمانوں کو معمولی معمولی فائدے ہوتے تھے، انہیں پوری تحقیر کے ساتھ ختم کر دیا گیا اور اس ختم کرنے پر جشن منایا گیا۔
اب آپ پوچھیں اور دیکھیں کہ کیا مسلم عوام اس قسم کے خطرناک میڈیا ماحول میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے کتنا سازگار ماحول پاتے ہیں؟ ہر دو طرف مسائل ہیں، خود مسلمانوں کی میڈیا کے ذریعہ رائے عامہ میں رسائی زیادہ سے زیادہ چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی، ایک ایسے وقت میں جہاں ٹی آر پی کی آگ میں انسانی اور سماجی قدروں کو بھی جھونکا جا رہا ہے، مسلمانوں کا محض چند لاکھ آڈینس تک مطمئن رہنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کے اپنے روایتی جلسے جلوس میں شرکت بھی بہت محدود ہے، اس کے مقابلے میں ہندو دھرم گروؤں کے ست سنگ میں کروڑوں انسان شریک ہو رہے ہیں، اگرچہ ان کا مقصد مذہبی ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ اس ہزاروں غیرسیاسی مذہبی رہنماؤں نے ایسے ست سنگ کے نظام کے ذریعہ ایک نئی سیاسی بیداری اور شعور کو جنم دیا ہے، مسلمان صوفیاء جو کسی زمانے میں لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں کو فتح کرتے تھے اور ان کی روحانی گفتگو سے ان کے دل انسانی قدروں کی تربیت پاتے تھے، آج سرے سے غائب ہیں۔ پہلے چند ایک مسلمان کہیں نہ کہیں ہندو آبادیوں کے درمیان بھی رہتے تھے اور وہاں فرقہ وارانہ مفاہمت اور غلط فہمیوں کے ازالے کا ذریعہ ہوتے تھے لیکن آہستہ آہستہ نئی شہری منصوبہ بندی ایسی ہوئی کی مسلمان سلم میں رہ گیا اور نئی شہری ترقی میں اور وہاں کی بلند بالا عمارتوں میں مسلمان غائب ہوگئے۔ ہندوستاں کا نیا مڈل کلاس مسلمانوں کے بغیر ہے، یہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہندو اور مسلمان آبادیوں میں آپسی تعلقات، سماجی مکالمہ اور روز مرہ زندگی میں ایک دوسرے سے رابطے کے مواقع گلوبلائزیشن کے دور میں بڑھنے کے بجائے محدود ہورہے ہیں، لہٰذا میڈیا کا پورا ماحول ایسا ہی ہے جیسے مسلمان نام کی اقلیت اس ملک میں پائی ہی نہیں جاتی اور مسلمان مسائل پر گفتگو کی ضرورت صرف اور صرف اسی وقت ہے جب پاکستان کا، دہشت گردی کا یا قومی سلامتی پر خطرات کا تذکرہ کیا جائے، نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا کی بحث میں مسلمان چور اور پاکٹ مار ہر حال میں آئی ایس آئی ایجنٹ یا اسلامی دہشت گردی کا تربیت یافتہ ہے لیکن باقی خطرناک مجرموں کو اس نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بیس کروڑ مسلمانوں کو محض قومی سلامتی کا مرکزی مشکوک میں تبدیل کر دینے کی سیاست کیا میڈیا کی ناانصافی کے بغیر نا ممکن تھی، مسلمان پہلے اس نا انصافی کو ہلکے پھلکے رد عمل کے طور پر لیتے رہے لیکن آج ان کو اس کے نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ یہ بات انہیں سمجھنی ہوگی کہ مسلمانوں کو اس ملک میں ایک عام شہری کی طرح دیکھا جانا ان کا بنیادی حق ہے اور ان کے مسائل کو باقی سبھی شہریوں کے مسائل کی طرح ہمدردی اور اپنائیت سے دیکھے جانے کا حق ہے، اس حق کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو محض قانونی اور سیاسی لڑائی ہی نہیں بلکہ میڈیا کی جنگ میں بھی حصہ لینا ہوگا، امپاورمنٹ اور مساوی شہری حقوق کی اس جدوجہد میں کمیونی کیشن کے اس بحران کو انتہائی سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔

اس انقلابی جدوجہد کے چار بنیادی طریقے ہیں، سب سے آسان اور سب سے ضروری یہ ہے کہ سبھی ادارے، مدرسے، جماعتیں، تنظیمیں اپنے اپنے رسمی میڈیا سیل قائم کریں اور اس میں زیادہ سے زیادہ تربیت یافتہ نوجوانوں کو کام دیں، ہر ادارے کا کم سے کم ایک رسمی یوٹیوب چینل ہو جس کی بنیادی آڈینس برادران وطن ہوں جس میں انہیں اس بات سے مطمئن کریں کہ ان کا ادارہ کیوں ملک کے لیے بہتر اور ضروری ہے اور کیوں میڈیا کی زہر افشانی غیر منصفانہ ہے، البتہ سبھی اداروں اور شخصیات کو سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا میں محض چند ہزار افراد تک پہنچ جانا کافی نہیں ہے، جب تک آپ لاکھوں افراد کی رائے کو متاثر کرنے کی پوزیشن میں نہ آجائیں آپ کو اپنی کوشش کا معیار بہتر کرتے رہنا ہوگا۔ ذرا شمار کرلیں کہ کتنے سوشل میڈیا مسلمانوں کے ہیں جن کی پہنچ لاکھوں میں ہے؟ اداروں کی تو یہ رسمی ضرورت ہے جسے وہ چاہیں یا نہ چاہیں انہیں میڈیا میں رائے عامہ کے مقابلے میں شامل ہونا ہی پڑے گا، لیکن خود افراد کو اپنے ذاتی حوصلوں کو پرواز دینے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر رویش کمار جیسے درجنوں صحافی حکومت کو فکرمند کرسکتے ہیں تو مسلمانوں کے درمیان ایسے صحافی کیوں نہیں پیدا ہوسکتے؟ اگر مسلمان اگلے چند مہینوں میں دس بیس کروڑ افراد تک پہنچنے کے لائق نہیں ہوئے تو انہیں ایک طویل سیاسی آزمائش کے لیے تیار رہنا چاہیے، بلکہ میرا واضح موقف ہے کہ آپ کی میڈیا کی لڑائی دوسرے کیوں لڑیں؟ لڑنے والوں کا بیحد شکریہ لیکن ہمیں کون سی معذوری لاحق ہے کہ ہمارے نوجوان اسی خوش اسلوبی، اسی دلچسپی اور اسی مہارت سے دس بیس لاکھ انسانوں تک نہیں پہنچ سکتے، اگر ایک ہزار سال قبل خواجہ معین الدین چشتیؒ کی مجلس میں ہزاروں غیر مسلمین دوائے دل پاتے تھے تو آج کیوں نہیں؟ میں اس کالم کے ذریعے مولانا محمود مدنی صاحب اور سید سعادت اللہ حسینی صاحب کو دعوت دوں گا کہ وہ ضرور انگریزی، آسامی، گجراتی، بنگلہ، اور ہندی میں طاقتور سوشل میڈیا سیل قائم کریں، لیکن موجودہ زہر آلود میڈیا صرف صحافتی مہارت سے نہیں بلکہ قانونی مداخلت کا بھی ضرورتمند ہے۔چونکہ مسلمان بے یار و مددگار ہیں تو قانون شکنی کرنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ جو چاہیں ان کی قانونی گرفت نہیں ہوسکتی۔مسلمان بھی سوچتے ہیں کہ مقدمے بازی کا کیا فائدہ۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ مسلسل قانونی مداخلت بھی شہری حقوق کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ نہ جانے کتنی بار مسلم تنظیموں، شخصیت، مدارس اور اداروں کا نام لے کر غیرمصدقہ افواہیں پھیلائیں جاتی ہیں جو اگرچہ قانونی طور پر غلط ثابت ہوتی ہیں لیکن وہ دو چار فیصد ووٹ کو مرکوز کرنے کا کام کر جاتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سبھی ادارے اور شخصیات میڈیا میں نفرت اور شہری حقوق کی پامالی کرنے والی خبروں کی قانونی طور پر گرفت ضرور کروائی کریں، دو چار سال بعد ہی سہی لیکن تصحیح ضرور ہوگی۔ اس معاملے میںمغربی میڈیا زیادہ حساس ہیں کیونکہ وہاں قانون اپنے شہریوں کا تحفظ سختی سے کرتا ہے۔جہاں تک میرا مشاہدہ ہے تو بیشتر مسلم ادارے اور نمایاں شخصیات اپنے خلاف ہونے والی میڈیا کی ہرزہ سرائی کا ریکارڈ تک نہیں رکھتے، کارروائی اور رد عمل تو دور کی بات ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ میڈیا ڈاکیومنٹیشن ایک مستقل ضرورت ہے، اس کی مثال آلٹ نیوز نے ثابت کی ہے کہ کسی بھی طرح کی فرضی خبر ہو اس کا رد اس کے پاس موجود ہے، ایک مسلم آلٹ نیوز تو کب کی ایک ضرورت ہے۔ اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ بعض نیک مسلمان سمجھتے ہیں کہ پروپیگنڈے کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پروپیگنڈہ ایک دن غلط ثابت ہو ہی جائے گا، لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ بات آپ سے زیادہ آپ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کو بھی معلوم ہے اور ان کا مقصد بھی نہیں کہ پروپیگنڈہ کی عمر سیکڑوں برس کی ہو، ان کا ہدف اب الگ ہے، وہ صرف اتنا ہے کہ ہر آنے والے انتخاب سے سال دو سال پہلے سے ہی سماجی تفریق اور منافرت کی شدت بڑھانے والے مواد مسلسل سپلائی ہوتے رہیں، ایک قسم کا خیالی تنازع بنا رہے۔ آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ آر ایس ایس کے احباب آپ سے ملاقات کرنے میں بیحد ملنسار ثابت ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شدت میں کوئی کمی نہیں آتی۔لہٰذا مسلم میڈیا ایکٹوزم ایک مستقل ضرورت کے تحت نہ صرف جھوٹے پروپیگنڈہ اور نفرت کو نیوٹرل کرنے والا مواد ریلیز کرے بلکہ مسلمانوں کی خوبیوں اور خدمات کے حوالے سے ان کے لیے جذبہ محبت پیدا کرنے والے مواد بھی فراہم کرے، ظاہر ہے کہ یہ دونوں ضرورتیں سیاسی بھی ہیں، سماجی بھی اور آپ کے شہری حقوق کے تحفظ کی بنیادی ضرورت بھی۔یہ کام جہاں ملکی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہر مدرسے کی سطح پر ہو، علاقائی زبانوں میں ہو، مقامی تنظیموں کی سطح پر ہو اور پھر ریاستی اور ملکی سطح پر ان سب کے درمیان ایک تعاون بھی ہواور یہ کام برادران وطن کریں، ان کا احسان سر آنکھوں پر لیکن یہ کام مسلمانوں کی بنیادی ضرورت ہے ان کی نہیں۔ اگر ہمیں اروندھتی رائے، اپوروانند، اجیت سہی، اجیت انجم جیسے بیدار دل حضرات پسند ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسے افراد آپ کی صفوں میں بھی ہوں اور ان کو وہی پذیرائی حاصل ہو جو آپ انہیں دیتے ہیں!
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS