ہمالیائی کہساروں میں باندھ بنانے کی جنونی ریس

0

سی پی راجیندرن
(مترجم: محمد صغیر حسین)

کمیونسٹ  یوتھ لیگ کی مرکزی کمیٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے چودھویں پنجسالہ منصوبے(2021-25) کے تحت، تبت کے میڈوگ کاؤنٹی (Medog County) میں دریائے یارلنگ زینگبو (Yarlung Zangbo) پر ایک ہزار ہائیڈرو پاور کا اسٹیشن بنانے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ توقع ہے کہ مجوزہ ہائیڈروپاور پیدا کرنے والا اسٹیشن 300KWhبجلی ہر سال پیدا کرے گا۔ چین کا ہدف یہ ہے کہ 2030سے قبل کاربن اخراج کے نقطۂ عروج پر پہنچنے کے بعد 2060 سے قبل کاربن کو کالعدم کرنا ہے۔ چینی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ پروجیکٹ ملک کے اس ہدف کی تکمیل میں ممد و معاون ہوگا۔
میڈوگ کاؤنٹی، اروناچل پردیش سے دور نہیں ہے۔ چنانچہ جیسے ہی چینی پروجیکٹ کی خبر پھیلی، ہندوستان ہمسروں نے سرحد کے اس پار ہمالیہ کی آغوش میں باندھ بنانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اطلاعات کے مطابق ہندوستان ایک مشرقی ریاست میں دس گیگاواٹ کے ایک عظیم ہائیڈرو پاور منصوبے پر غور کررہا ہے۔
شامت اعمال
تو بڑا کہ میں بڑا کی اس جنونی مقابلہ آرائی میں دونوں ملکوں نے یہ بھلا دیا ہے کہ ایسے دیوقامت باندھ کس قدر نامناسب اور نامطلوب ہیں بالخصوص ایسے مقامات پر جو علم الارض کے زاویۂ نگاہ سے خطرات کی زد پر ہیں۔ یہ صحیح وقت ہے کہ ہندوستان اور چین آپس میں مل بیٹھیں اور بڑے زلزلوں کی زد میں واقع علاقوں میں ایسی کج روی کے نتائج بد پر غور و خوض کریں۔
گزشتہ بیس سالوں سے چین اور ہندوستان، دونوں اس ماحولیاتی طور پر نازک اور زلزلے کی زد پر واقع علاقے میں ہائیڈرو الیکٹرک باندھ بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کررہے ہیں۔ برہم پترا کی معاون ندیوں پر اروناچل پردیش میں دوہائیڈرو پاور منصوبے زیرغور ہیں: پہلا بائی کوم اور ٹینگا ندیوں پر 600MWکا کمینگ پروجیکٹ اور دوسرا 2000میگاواٹ کا سُبانسری لوور ہائیڈرو الیکٹرسٹی پروجیکٹ۔ سرحد کے دوسری جانب چین نے اپنے 55پروجیکٹوں میں سے 11پورے کرلیے ہیں۔ یہ سب کے سب تبتی خطے میں واقع ہیں۔ ان منصوبوں کو جنونی رفتار سے مکمل کرنے میں دونوں ممالک اپنی معاشی استعداد کے تخمینے میں خوش فہمی کے شکار ہیں اور دونوں ہی اس ٹھوس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہیں کہ یہ خطہ شدید زلزلوں کی زد پر ہے۔
سوئِ اتفاق ہے کہ ہمالیائی خطے میں کثیرآبادی والا علاقہ جہاں زمین کھسکنے اورگلیشیر کٹنے کے سبب سیلاب آجانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، وہی منطقہ ہے جو شدید زلزلے والا شمار کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی میں آنے والے بڑے زلزلوں (جن کی شدت آٹھ سے زیادہ رہی ہو) میں سے 15%زلزلے ہمالیائی خطے میں آئے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں، ہمالیہ کے شمال مشرقی گوشے نے 7شدت کے کئی بڑے زلزلے جھیلے ہیں جو ہمالیہ کے دیگر خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
میک موہن لائن کے بالکل قریب جنوب میں، 1950میں آنے والا زلزلہ 8.6شدت کا تھا۔ یہ حادثہ اتنا بڑا، خوفناک اور لرزہ خیز تھا جس کی مثال براعظم کی تاریخ میں نہیں ملتی جس نے تبت اور آسام کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ اس زلزلے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے، زمین کھسکنے کے بے شمار واقعات رونما ہوئے، ارضی سطح میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں واقع ہوئیں اور شگاف مزید بڑھ گئے۔ اس کے نتیجے میں ہمالیائی خطے اور بالائی آسام کی وادی میں پانی اور کیچڑ اُبلنے لگا جس نے دریاؤں کو گدلا کردیا۔ بعد میں باندھ ٹوٹنے کی وجہ سے نیچے کی جانب اچانک سیلاب آگئے جنہوں نے ڈرینیج سسٹم کو کیچڑ سے بری طرح بھردیا۔ زلزلے سے ایک بہت بڑا علاقہ متاثر ہوا جس میں ہندوستان کے کچھ حصے، تبت، سابقہ مشرقی پاکستان اور میانمار شامل تھے۔ یہ سانحہ ہم سب کو خبردار کرنے کے لے کافی ہے کہ ہائیڈرو پاور کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد کرنے کے پس منظر میں اگر ویسا ہی کوئی زلزلہ آگیا تو ہمالیائی منطقے کے شمال مشرقی حصے میں کیا تباہیاں آسکتی ہیں۔
ایک تازہ مثال پر بھی نظر ڈالیے۔ وسط نیپال میں، 2015میں جو زبردست زلزلہ آیا تھا، اُس کی شدت 7.6تھی جس نے ہائیڈرو پاور سیکٹرمیں بہت بڑا نقصان پہنچایا۔ زلزلے کے نتیجے میں، نیپال کی ہائیڈروپاور صلاحیت 20%ضائع ہوگئی۔ 270میگاواٹ کے کم وبیش 30پروجیکٹس جو زیادہ تر کھڑی وادیوں میں واقع تھے، برباد ہوگئے۔ نقصان کا موٹا تخمینہ 200ملین ڈالر کا تھا۔ Wolfgang Schwanghartو دیگراں کا ایک مطالعہ جیوفزیکل ریسرچ لیٹرز (Geophysical Research Letters) میں 2018میں شائع ہوا۔ اس مطالعہ نے جن تلخ حقائق کا انکشاف کیا وہ حیران کن تھا۔ اس مطالعے میں کہا گیا تھا کہ نیپال کے ہائیڈرو پاورپروجیکٹس کی تباہی زلزلوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔زلزلوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر زمین کھسکنے کے واقعات رونما ہوئے جس نے سارے منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔
آئندہ زلزلوں کے سبب پروجیکٹ کے مقامات پر وسیع پیمانے پر زمین کھسکنے اور پہاڑی تودے گرنے کا شدید خطرہ ہے جس کے نتیجے میں باندھوں میں کثرت سے گاد جمع ہوجائے گی اور اس طرح باندھوں کے پانی کی گنجائش اور اُن کی بقا کم ہوجائے گی۔ زلزلے نہ بھی آئیں، تو بھی جنگلوں کی کٹائی اور سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے ملائم چٹانوں سے بنی ڈھالوں کے کھسکنے کا خطرہ تو برقرار رہتا ہے۔ باندھ بنانے کا عمل ان تخریبات کی رفتار کو تیزتر کردے گا۔ باندھوں سے گاد نکالنے کا عمل نہ صرف مالی طور پر آسان نہیں ہے بلکہ تکنالوجی کے اعتبار سے بھی مشکل ہے۔ ان اسباب کے تناظر میں، ہمالیہ کے شمال مشرقی حصے میں جہاں گہری گھاٹیاں ہیں، وہاں بڑے بڑے باندھ بنانا انتہائی نامناسب ہے۔ علاوہ ازیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ باندھوں میں ذخیرئہ آب کا بار، مستقبل قریب و بعید میں زمین کی پرتوں کو کس طرح متاثر کرے گا اور پھر زلزلوں کی میکانزم اور تعدد میں کیا تبدیلیاں رونما ہوںگی۔
خطروں کی زد میں
ہمالیائی خطہ ایک بین الاقوامی سلسلۂ کہسار ہے اور ایشیائی آب و ہوا کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ یہ متعدد ایشیائی ندیوں کے نظام اور گلیشیروں کا منبع و مصدر ہے جو عالمی اضافۂ حرارت کے سبب انحطاط اور خاتمے کے خطروں سے دوچار ہیں۔ دریاؤں کا یہ نظام اربوں افراد کو پانی فراہم کرتا ہے۔ ہندوستان اور چین دونوں کا شمارنیوکلیائی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ ان دونوں کے مابین نزاع اور تکرار سے کاروان انسانی کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہلکی پھلکی عسکری جھڑپوں نے دونوں جانب مزید انفرااسٹرکچرل ترقیات کے مطالبات کو تیزتر کردیا ہے۔ ان میں ہر موسم کی شدت کو جھیلنے والی سڑکوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان تعمیرات سے نہ صرف علاقائی حیاتی تنوع خطرے میں ہے بلکہ مقامی آبادی کی روزی روٹی کے ضیاع کا خوف بھی لاحق ہے۔
ہمالیائی ماحولیات کے ماہر، مہاراج کے پنڈت نے نیچر(Nature) نامی ایک مجلے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں ہمالیائی کہساروں میں جنگلات کی کٹائی اور استعمال اراضی میں تبدیلی کی رفتار تیز ترین رہی ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے ذریعہ بالائی ہمالیہ کو قدرتی محفوظ علاقہ قرار دے دینا چاہیے۔ وہ مزید مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرآب (head Water) اور بہاؤ رُخ (down stream) ملکوں کو شامل کرتے ہوئے ایک ہمالیائی ندی کمیشن کی تشکیل کے امکانات پر بھی غورکرنا چاہیے۔
زلزلوں کی آماجگاہ والے علاقوںمیں باندھ کی تعمیر کی اس جنونی ہوڑ کو تیاگ کر اس خطے کے دو عظیم کھلاڑیوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ عزم مصمم کرنا چاہیے کہ وہ عکسری صف آرائی کو الوداع کہہ کر ’’دنیا کی چھت‘‘ کو ایک قدرتی محفوظ علاقہ بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کریں گے۔ یہی نسل انسانی کی فلاح اور بقا و سلامتی کا راستہ ہے۔ ماحولیات کی قیمت پر کاربن سے مکمل طور پر احتراز، فائدے کا نہیں خسارے کا سودا ہے۔
(صاحب مضمون نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز، بنگالورو میں ملحق پروفیسر ہیں)
(بشکریہ: دی ہندو)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS