نئی دہلی:’لو جہاد‘سے متعلق مدھیہ پردیش مذہبی آزادی آرڈیننس2020کو چیلنج کرنے والی عرضی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے ۔ عرضی میں ریاستی حکومت کے آڑڈیننس کو چیلنج کرتے ہوئے اسے آئین کی دفعہ 14، 19، 21 اور 25 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے ۔ یہ عرضی ایڈووکیٹ راجیش ایماندار، شاشوت آنند، دیویش سکسینا، آشوتوش منی ترپاٹھی اور انکُر آزاد کی جانب سے تیار کی گئی ہے اور ایڈووکیٹ ریکارڈ (اے او آر) الدانیش رین کی جانب سے دائر کی گئی ہے ۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ متنازع آرڈیننس شادی کی آزادی، اپنی مرضی کے مذہب کو اختیار کرنے،اس پر عمل کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی آزادی سلب کرتا ہے اور اس نے عام آدمی کی خودمختاری، قانون کی نظر میں مساوات، شخصی آزادی اور پسند اور اظہار خیال کی آزادی پر حملہ کیا ہے،ساتھ ہی یہ ہندوستان کی آئین 1950 کی دفعہ 14، 19 ،21اور 25 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی واضح اور اعلانیہ خلاف ورزی ہے ۔ عرضی گزار کا کہنا ہے،‘اسمبلی کے قانون سازی کے عمل سے قطع نظر آرڈیننس نافذ کرنے کا مدعا علیہان کا قدم نہ صرف مطلق العنانی اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین کے ساتھ دھوکہ بھی ہے’۔ عرضی میں آرڈیننس میں جبراً تبدیلی مذہب کے واقعات کے بارے میں سرکاری ایجنسیوں یا محکموں کے پاس موجود مناسب ڈیٹا کے نہ ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ غور طلب ہے کہ اترپردیش کے آرڈیننس اور اتراکھنڈ کے مذہبی آزادی ایکٹ، 2018 کو چیلنج کرنے والی عرضیاں پہلے سے ہی عدالت عظمیٰ میں زیر التواء ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS