فرانس میں نسلی دنگوں کے پیچھے نوجوانوں کی ناراضگی اور عدم تحفظ کا احساس

0

عبیداللّٰہ ناصر

فرانس میں گزشتہ دنوں ایک الجیریائی مسلم نوجوان کی پولیس کی گولی سے ہوئی موت کے بعد پورے ملک میں شدید احتجاج ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے فساد میں بدل گیا۔ہوا یوں کہ ایک الجیریائی مسلم نوجوان کے پاس چیکنگ کے دوران ڈرائیونگ لائسنس نہیں نکلا جس سے اس کی جانچ کر رہے پولیس والے سے کہا سنی ہوگئی، یہ کہا سنی اتنی بڑھی کہ پولیس والے نے اپنی سروس پستول سے اسے گولی مار دی، اس پر پہلے اس شہر میں ہنگامہ ہوا جو بتدریج ملک گیر ہوگیا، حالات اتنے بگڑے کہ فرانس کے صدر کو اپنا جرمنی کا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ چند برسوں قبل امریکہ میں ایک پولیس والے نے ایک سیاہ فام امریکی کو اپنے بوٹوں تلے اتنی دیر تک اور اتنی زور سے دبائے رکھا تھا کہ اس کی موت ہو گئی تھی۔وہاں بھی پولیس کے اس ظلم کے خلاف زبردست احتجاج ہوا تھا، تقریباً ایک ہفتہ تک پورا امریکہ سراپا احتجاج بنا رہا، رنگ و نسل، مذہب جیسے تمام معاملات سے بلند ہو کر امریکیوں نے پولیس کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا تھا، یہاں تک کہ پوری امریکی پولیس فورس نے اپنے اسلحے نیچے کر کے اپنے ساتھی کی حرکت پر شرمندگی ظاہر کی تھی اور الیکشن جیتنے کے بعد صدر جو بائیڈن نے خود اس سیاہ فام امریکی کے گھر جا کر معذرت کی تھی۔ اس کے برخلاف ہم اگر اپنے ملک میں دیکھیں تو روز ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور عوام کا احتجاج اول تو ہوتا ہی نہیں اور ہوتا بھی ہے تو متاثر کا مذہب اور ذات دیکھ کر رد عمل سامنے آتا ہے۔ منتخب سربراہ جس نے آئین کی پابندی کا حلف لیا ہے، وہ پولیس کو ’ٹھونک دو‘ کے احکام دیتا ہے۔ بنا قانونی کارروائی اور عدالتی حکم کے جس کے گھر پر چاہتا ہے بلڈوزر چلوا دیتا ہے اور بدلے میں عوام جھولی بھر بھر کے اسے ووٹ دے دیتے ہیں۔انسانی اقدار میں اتنی بڑی تفریق حیرت انگیز اور شرمناک ہے۔
فرانس میں گزشتہ کئی دہائیوں سے عوامی احتجاج میں نوجوانوں کا غصہ حاوی رہا ہے جو ٹاؤن ہالوں، کمیونٹی سینٹروں، اسکولوں و دیگر عوامی املاکوں اور دکانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں، سبھی لوگ ایسی حرکتوں کی مذمت کرتے ہیں، لیکن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ مگر عوامی نمائندے، یونینیں، چرچ کے پادری، مساجد کے امام صاحبان، سماجی کارکنان و اساتذہ سبھی لاچاری قبول کرتے ہیں، اس سے ایک سیاسی سماجی اور ادارہ جاتی خلا ظاہر ہوتا ہے۔حالیہ فساد بھی ٹھیک اسی طرح ہوا ہے جیسا1981میں ہوا تھا، پیٹرن ایک جیسا ہی ہے پولیس کسی جوان کو گولی مار دیتی ہے یا وہ پولیس کی گولی سے زخمی ہو جاتا ہے اور پھر پاس پڑوس اور شہروں کے نواحی علاقوں میں دنگا شروع ہو جاتا ہے، لوگ بے قابو ہوجاتے ہیں، پڑوس اور تعلقات کا بھی لحاظ نہیں بچتا ہے۔2005میں بھی یہی ہوا تھا اور اب پھر یہی ہو رہا ہے، لیکن1981کے دنگوں نے جسے سمر آف منگویل بھی کہا جاتا ہے، سماجی تحریک کا راستہ دکھایا تھا۔ 1983میں عدم مساوات اور نسلی تفریق کے خلاف جو لانگ مارچ نکلا تھا، وہ اس سمر آف منگویل کی ہی دین تھا۔اس مارچ میں لاکھوں لوگ شامل ہوئے تھے، عالمی میڈیا نے اسے خوب اچھالا تھا، کہا جاتا ہے کہ فرانس میں پھر ویسا نہ احتجاج ہوا اور نہ ہے ویسا مارچ نکلا۔لیکن فرانس میں بھی سیاست داں ہمارے ہی سیاست دانوں کی طرح اپنے اپنے حساب اور نظریہ کے مطابق موقف لیتے ہیں، دائیں بازو والے تشدد کی مذمت کرتے ہیں، وہ پاس پڑوس اور پولیس کا شکر یہ ادا ہوئے لوگوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ بائیں بازو والے نا انصافی کی مذمت کرتے ہیں اور سماجی انصاف کا وعدہ کرتے ہیں۔2005کے فساد کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ پولیس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے تھے یعنی ایسے معاملوں میں وہاں بھی کسی نہ کسی شکل میں سیاست حاوی رہتی ہے۔
فرانس یوروپ کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ عربی النسل مسلمان آباد ہیں، دوسری جانب فرانس ہی یوروپ کا واحد ملک ہے جہاں مکمل سیکولرازم ہے۔ ویسے تو یوروپ کے سبھی ملک سیکولر ہیں ا ور سیکولر اصولوں پر پوری طرح کاربند بھی رہتے ہیں پھر بھی عیسائی مذہب کو کسی نہ کسی شکل میں فوقیت حاصل رہتی ہے جبکہ فرانس میں ایساکچھ نہیں ہے پھر بھی وہاں عربی النسل مسلمانوں کو لے کر ایک قسم کی سماجی کشیدگی پیدا ہو رہی ہے، اس میں سماجی اور مذہبی معاملوں کے علاوہ معاشی امور زیادہ اہم اور اصل محرک ہیں۔ فرانس کے شہری علاقوں میں بار بار بھڑک اٹھنے والے ان دنگوں کے پس منظر میں کچھ قابل غور اور آسانی سے سمجھ آنے والے محرکات ہیں۔ اول تو ملک کی شہری پالیسیاں اپنے مقاصد میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں شہری سہولیات میں نمایاں بہتری آئی ہے، رہائشی اپارٹمنٹ بہتر ہوئے ہیں، کمیونٹی سینٹر، اسکول، کالج، ٹرانسپورٹ سب میں بہتری آئی ہے لیکن نواحی علاقوں تک یہ بہتری ویسی نہیں پہنچ سکی ہے۔ ویسے تو نواحی علاقوں میں سبھی طرح کے لوگ آباد ہیں لیکن اکثریت عربی النسل مسلمانوں کی ہے جن کے آبا و اجداد الجیریا اور سمندر پار کے عرب افریقی ملکوں سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے، پہلی نسل کے مہاجرین بھی ہیں۔یہ زیادہ تر غریب اور سماجی طور سے غیر محفوظ ہیں۔سب سے پہلے جو لوگ ان نواح کے علاقوں کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں، ان کو وسائل فراہم کیے جاتے ہیں لیکن یہ تبھی ہوتا ہے جب دور سے لوگوں کو لا کے بسانا ہوتا ہے، اس سے حالات کچھ تو بہتر ہو رہے ہیں۔
معاشی امداد اور مقامی لیڈروں کی نیک نیتی کے باوجود یہ لوگ سماج سے خود کو مذہبی، تہذیبی اور نسلی اعتبار سے الگ تھلگ سمجھتے ہیں۔گزشتہ دنوں کے دنگوں سے یہ بات پھر ظاہر ہوگئی ہے اور یہ علیحدگی کا احساس ہی فساد کی اصل وجہ ہے کیونکہ علیحدگی کا یہ احساس نوجوانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیداکرتا ہے، اسی عدم تحفظ کے احساس سے پولیس کا ان سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے۔ دونوں جانب سے گروہ بندی ہے، پولیس ہر نوجوان کو مشکوک سمجھتی ہے اور نوجوان پولیس کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔فرانس کے مشہور سماجی کارکن، مفکر اور دانشور فرانسوں ڈ یوب کاکہنا ہے کہ جب تک ان غلط فہمیوں، نفرتوں اور نابرابری کا ازالہ نہیں ہوگا، فرانس میں نوجوانوں اور پولیس میں ٹکراؤ اور ایسے دنگے ہوتے ہی رہیں گے۔ انہوں نے فرانس کے ہر طبقہ کے لوگوں کو آپس میں اعتماد بڑھانے کے لیے کوشش کرتے رہنے کی اپیل کی ہے کیونکہ فرانس کے سماج میں مہاجرین ایک حقیقت ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS