محتاط زندگی جینی ہوگی

0

پچھلے سال کورونا وبا نے چند ہزار لوگوں کو ہی متاثر کیا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کے اعلان کرنے کی مذمت ہوئی، کیونکہ روزانہ کمانے والوں کو واپس اپنے آبائی گاؤں، قصبوں، شہروں کی طرف لوٹنے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور راستے کی صعوبتوں اور حادثات نے کئی لوگوں کی جانیں لے لی تھیں مگر کورونا زیادہ نہیں پھیلا تھا۔ اس کے بعد ویکسین کی آمد نے امید بندھائی۔ حالات اتنے اچھے بن گئے کہ اکثر لوگ لاپروا ہوگئے، احتیاطی تدابیر انہوں نے ترک کردی مگر رواں سال کے مارچ میں کورونا نے دھیرے دھیرے دائرۂ اثر بڑھانا شروع کیا، اپریل میں وہ بھیانک روپ میں نظر آنے لگا۔ اس نے متاثر کرنے کی اپنی صلاحیتوں سے ہندوستان کے ہی نہیں، دنیا بھر کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ مئی کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں تو کورونا متاثرین کی تعداد 4 لاکھ سے زیادہ رہی۔ ایک سے زیادہ ریاستوں اور دلی کی حکومتوں کو لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ حکومتیں اگر ایسا نہ کرتیں تو حالات زیادہ خراب ہوجاتے، لوگوں کی جانیں زیادہ جاتیں، کیونکہ ایک طرف تو کورونا نے تہلکہ مچایا ہوا تھا اور دوسری جانب ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم کی ’حقیقت‘ سامنے آرہی تھی، حالت یہ تھی کہ کئی جگہ لوگوں کی جانیں بروقت آکسیجن مہیا نہ کرانے کی وجہ سے گئیں۔ لوگوں میں خوف یہ تھا کہ اگر وہ کورونا سے متاثر ہو گئے تو کیا ان کا علاج اسپتالوں میں ہوپائے گا اور اگر اسپتالوں میں داخل کر بھی لیے گئے تو کیا آکسیجن کی کمی ان کا دم ان کے سینے میں ہی گھونٹ ڈالے گی مگر اب پہلے کے مقابلے حالات کسی حد تک بہتر ہیں۔ کل دارالحکومت دلی میں 71,853 لوگوں کے کورونا ٹسٹ ہوئے اور 1,141 لوگ کورونا سے متاثر پائے گئے یعنی کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 2 فیصد بھی نہیں تھی، ایسا مسلسل تیسرے دن ہوا کہ کورونا متاثرین کی تعداد 2 فیصد سے کم رہی۔ ویسے رواں ماہ کی 21 تاریخ سے ہی متاثرین کی تعداد 5 فیصد سے کم رہنے لگی تھی۔ اس طرح گزشتہ 8 دنوں میں 5 فیصد سے کم کورونا متاثرین کی تعداد کا رہنا ایک بڑی خوش خبری ہے، کیونکہ ڈبلیو ایچ او کا ماننا ہے کہ اگر متاثرین کی تعداد مسلسل دو ہفتے تک 5 فیصد سے کم رہتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات کنٹرول میں ہیں۔ دلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے حالات کے مدنظر ہی پیر سے بتدریج اَن لاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا یہ سوچنا بجا ہے کہ ایسا نہ ہو، لوگ کووِڈ-19 سے بچ جائیں مگر مفلسی سے مر جائیں۔
سماج کے خوش حال طبقے کے وہ لوگ جنہوں نے دولت جمع کر رکھی ہے، حالات کی تبدیلی ان پر زیادہ اثر نہیں ڈالتی مگر ان لوگوں کے لیے حالات کی ذرا سی تبدیلی بھی مہلک ثابت ہوتی ہے جنہیں جینے کے لیے روز کمانا پڑتا ہے، جنہیں چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرنے کے لیے روز امتحان کے دور سے گزرنا پڑتا ہے لیکن یہ بات نہ حکومتوں کو نظرانداز کرنا چاہیے اور نہ ہی عام لوگوں کو کہ کورونا کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، تیسری لہر کے آنے کی بات کہی جا رہی ہے اور حکومتوں کی اب تک کی ’شاندار کارکردگی‘ کے بعد یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی ہے کہ ہمارے لیڈران عام لوگوں کے تحفظ کے لیے کتنا کام کرتے ہیں۔ ہمارا ہیلتھ کیئر سسٹم اب تک زیادہ کامیاب نہیں رہا ہے، اس عالمی وبا کے دور میں اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی کمی محسوس کی گئی ہے تو ایسا نہیں ہوگا کہ مہینے چند مہینے میں اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوجائے گا۔ اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کرنا تو بڑی حد تک ممکن ہے، آکسیجن کے پلانٹس لگانا بھی بڑی حد تک ممکن ہے مگر ڈاکٹروں کی تعداد میں اچانک اضافہ آسان نہیں۔ حالات کا اندازہ بلیک فنگس کی دوا کی قلت پر دلی ہائی کورٹ کے اس تبصرے سے ہوتا ہے کہ ’ہم اس جہنم میں جی رہے ہیں۔ ہر کوئی جہنم میں جی رہا ہے۔‘ اس لیے دلی اور دیگر ریاستوں میں اَن لاک کا مطلب کھلی چھوٹ نہیں سمجھنا چاہیے، ہر آدمی کی زندگی اس کے گھر کے لوگوں کے لیے قیمتی ہے، چنانچہ اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے خود ہی احتیاطی تدابیر کرنی چاہیے، ایک بار حالات کے شکنجے میں آجانے کے بعد سسٹم یا سرکار کو کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سرکاروں نے اب تک کے حالات سے کیا سیکھا ہے، نئے حالات کے لیے خود کو کتنا تیار کریں گی، ہیلتھ کیئر سسٹم کو کتنا بہتر بنائیں گی، یہ کہنا مشکل ہے، البتہ عام لوگوں نے اب تک کے حالات سے اگر کچھ سیکھا نہیں تو پھر حالات سے دوچار ہونے کے لیے وہ پوری طرح کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ بات اگر طے سی ہے کہ کورونا ابھی نہیں جا رہا ہے تو پھر ہمیں جلد از جلد کورونا کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھلینا چاہیے تاکہکورونا کی وجہ سے جان نہ جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS