وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے اپنی موجودہ مدت کار کے آخری خطاب میں بھلے ہی اہل وطن کو کوئی خوش کن خبر نہیں دی لیکن بدعنوانی، اقرباپروری، خاندان پرستی اور خوشنودی کی سیاست پر خوب گرجے برسے، دوران تقریر ان کے منہ سے جھاگ اور کف تو نہیں نکلے تاہم ان کے دہن مبارک سے نکلنے والے الفاظ سیل تند روبن کر بدعنوانی کے خس و خاشاک بہالے جانے کی نوید ضرور سنارہے تھے۔مگر چرخ کج رفتار نے صیادکو اپنے ہی دام میں لاپھنسایا۔
ممکن ہے اپنی تقریر سے پہلے انہوںنے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل(سی اے جی )کی وہ رپورٹ نہ دیکھی ہو جس میں ان کی حکومت کے خلاف غبن، بے قاعدگی اور بدعنوانی کے درجنوں معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم انتہائی مصروف شخصیت ہیں۔ہمہ وقت انتخابات کی سیاست اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی مجبوری نہ ہو تو پارلیمنٹ میں آنا بھی ان کیلئے ممکن نہیں ہوپاتا ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے سی اے جی کی رپورٹ دیکھی ہو جس میں ان کی ہی حکومت میں ہونے والی بدعنوانی کو آشکار کیاگیا ہے۔
منی پور میں ہونے والے انسانیت سوز واقعات پر بحث کے دوران ایوان میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل(سی اے جی) کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں مودی دور میں سنگین اور خوفناک بے ضابطگیوں، غبن اور بدعنوانی کی لہو رنگ تفصیلات درج تھیں۔بدعنوانی کے کم از کم 8 مخصوص معاملوں کی نشاندہی کی گئی ہے، ان میں سے چار سڑک ٹرانسپورٹ کی وزارت کے تحت ہیں۔ اس کے علاوہ آیوشمان بھارت (پردھان منتری جن آروگیہ اسکیم)، دیہی ترقی کی وزارت کی پنشن اسکیم، سودیش درشن اسکیم اور سرکاری تنظیم ایچ اے ایل میں بدعنوانی کا ذکر ہے۔بدعنوانی کے خلاف شمشیر برہنہ رہنے والے وزیراعظم سے توقع تو یہ تھی کہ وہ اس رپورٹ کے حوالے سے اپنے نادر خیالات کا اظہار کرتے مگر اپنی حکومت کی ان ’بد اعمالیوں‘ کو چھپاکرساری غلاظت انہوں نے اپوزیشن پر انڈیل دی۔ لیکن پختہ سیاہی میں درج ہوجانے والی بدعنوانی کوز بانی جمع خرچ کے پردہ میں نہیں چھپایاجاسکتا ہے۔
سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق بھارت مالا پروجیکٹ میں سڑک کی تعمیر کی لاگت بجٹ سے دوگنا سے 15 گنا زیادہ دکھائی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کم از کم 12 لاکھ کروڑ روپے کاہیرپھیر ہوا ہے۔’پردھان منتری جن آروگیہ اسکیم‘ میں بھی سنگین بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے۔ تقریباً ساڑھے سات لاکھ مریض ایسے ہیں جن کا فون نمبر موجود نہیں ہے۔ اسی طرح تقریباً ایک لاکھ مرنے والوں کو مریض بنا کر علاج کیلئے بھاری رقوم خرچ کی گئی ہیں۔علاج بھی ان صحت مراکز میں کیا گیا جہاں نہ انفرااسٹرکچر ہے اور نہ ہی ڈاکٹر دستیاب ہیں۔آیوشمان بھارت یعنی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا میں تو ایک حیرت انگیز تضاد بے نقاب ہوا ہے۔ سی اے جی نے انکشاف کیا ہے کہ تقریباً 7.5 لاکھ استفادہ کنندگان ایک ہی موبائل نمبر ’9999999999 ‘ سے منسلک تھے یعنی اس موبائل نمبر کی بنیاد پر 7.5 لاکھ استفادہ کنندگان کا رجسٹریشن کیاگیا۔اس کے علاوہ 1,39,300 مستفیدین فون نمبر 8888888888 اور 96,046 دوسرے لوگ 9000000000 نمبر سے جڑے ہوئے ہیں۔ سی اے جی کی رپورٹ میں پنشن اور آیوشمان بھارت میں پائے جانے والے تضادات سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر سرکاری رقم کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ ہیلتھ انشورنس اسکیم کے آڈٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈیٹا بیس میں ہی مردہ قرار دیے گئے 3,446 مریضوں کے علاج کے لیے 6.97 کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں نیشنل سوشل اسسٹنس پروگرام (این ایس اے پی)میں بھی کئی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ بزرگوں، بیواؤں اور معذور افراد کو سماجی پنشن دینے میں غفلت برتی گئی۔ مرکزی حکومت کی اس اسکیم کے تحت بی پی ایل کنبوں کے لوگوں کو سماجی پنشن دی جاتی ہے۔رپورٹس کے مطابق 26 ریاستوں میں حکومتوں نے تقریباً 2,103 مستفیدین کو ان کی موت کے بعد بھی 2 کروڑ روپے کی پنشن ادا کی ہے۔
مودی حکومت میں ہونے والی بدعنوانی کی رپورٹ دینے والا یہ وہی ادارہ ہے جس کی رپورٹ کی بنیاد پر یوپی اے کی منموہن سنگھ حکومت میں ہنگامہ مچ گیاتھا۔2جی ٹیلی کام اسپیکٹرم اور کوئلے کے کانوں کی نیلامی میں بے ضابطگی کے انکشافات کی بنیاد پر یوپی اے حکومت کے خلاف بی جے پی نے ملک گیر تحریک چھیڑی تھی اور پھر2014 کے عام انتخابات میں بدعنوانی کو ایشو بنایا تھا، اس کے بعد ہی بی جے پی اقتدار میں آئی تھی۔اب اسی سی اے جی کی رپورٹ بی جے پی کے دامن پر لگنے والے بدعنوانی کے غلیظ دھبوں پر روشنی ڈال رہی ہے۔گویا صیاد اپنے ہی دام میں آگیا ہے۔
[email protected]
آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS