کیا ہندوستان کا آئین بدلنے کی تیاری ہے؟ : عبدالماجد نظامی

0
کیا ہندوستان کا آئین بدلنے کی تیاری ہے؟ : عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

ہندوستان کا آئین اس ملک کے عظیم لیڈران کی انتھک محنتوں، فکری وسعت اور اعلیٰ دماغی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس آئین میں بطور خاص اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ یہاں کی دینی، فکری، لسانی، سماجی اور دیگر تنوعات کے باوجود سب کو وحدت اور اتحاد و اتفاق کے دھاگے سے باندھا جائے اور مساوات کا ایسا معیار قائم کیا جائے کہ کسی کے ساتھ رنگ و نسل اور دین و مذہب وغیرہ کی بنیاد پر کوئی عصبیت نہ برتی جائے اور نہ ہی بھیدبھاؤ کا سلوک روا رکھا جائے۔ دوسال اور گیارہ مہینوں سے بھی کچھ زیادہ مدت تک اس دستور کے بنانے پر قانون ساز اسمبلی میں بحثیں چلتی رہیں جس کا آغاز 1946 میں ہی ہوچکا تھا اور بالآخر 1950 میں اس کا نفاذ عمل میں آیا۔ یہ دستور دنیا کے مفصل ترین دستوروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے اور اس میں ہر طبقہ کے ساتھ عدل کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ اس دستور کے مقدمہ میں ہی اس عزم کو پوری قوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ملک ایک سیکولر، جمہوری ریپبلک ہوگا۔ گویا جنگ آزادی کی بھٹی سے تپ کر نکلنے والے تجربہ کار دماغوں نے بہت پہلے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر اس ملک کو ترقی و اتحاد کی منزل کی طرف کامیابی کے ساتھ قدم بڑھانا ہے تو اس کو کسی ایک مذہب کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ لیکن شاید یہ تمنا ہر طبقہ کی نہیں تھی۔ اس ملک میں ایک طبقہ ہمیشہ سے ایسا موجود تھا جو اس فکر و عقیدہ میں یقین رکھتا تھا کہ یہ ملک صرف ایک خاص مذہب اور ایک خاص تہذیب کے ماننے والوں کا ہے اور یہاں کے لوگ جو اس خاص مذہب یا ثقافت سے تعلق نہیں رکھتے ہیں، ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنگ آزادی کے دوران اس طبقہ نے اپنا بڑا منفی کردار ادا کیا تھا اور آزادی کے بعد سب سے پہلا کام اس فکر سے وابستہ ایک شخص نے اس عظیم شخصیت کا خون کرکے کیا جس نے پوری عمر تقسیم اور نفرت کے نظریہ کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ یہ شخصیت مہاتما گاندھی کی تھی جن کا قتل گوڈسے نے 31جنوری1948کو کردیا تھا۔ گوڈسے کو گاندھی سے شکایت یہ تھی کہ وہ ہندو-مسلم اتحاد یعنی اس ملک کے اتحاد کی بات کرتے تھے۔ لیکن اس ملک کی خوش قسمتی تھی کہ گاندھی کی شہادت کے بعد بھی وہ روح دستور کی شکل میں برقرار رہی تھی جس کی حفاظت کی خاطر گاندھی جی کو اپنی زندگی قربان کرنی پڑی تھی، البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد بھی آر ایس ایس کے نظریہ کا یہ بنیادی عنصر بنا رہا کہ دستورِ ہند کو قبول نہیں کریں گے اور اس کو بدلنے کے لیے اس تنظیم نے اپنا منصوبہ کبھی ترک نہیں کیا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے اے جی نورانی کی کتاب ’’ساورکر‘‘ کو پڑھنا مفید ہوگا۔ ساورکر کی اس سوانح حیات میں بین الاقوامی دستور کے ماہر نورانی نے آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کے حوالہ سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح آر ایس ایس ہندوستان کے آئین سے نفرت کرتا ہے۔ مذکورہ بالا کتاب کے ساتھ اگر نورانی ہی کی دوسری کتاب’’RSS and BJP: A Division of Labour‘‘بھی پڑھ لی جائے تو قارئین کے سامنے تصویر زیادہ واضح طور پر ابھر کر سامنے آجائے گی۔ ہندوستان کے دستور کو جو خطرہ اس نظریہ سے لاحق ہے، راہل گاندھی نے بھی 2017 میں بھیم راؤ امبیڈکر کے126ویں یوم پیدائش کے موقع پر کرناٹک میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ آر ایس ایس اور بی جے پی اس ملک کے آئین کو بدلنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک کے تمام جمہوری اداروں کو کمزور کر دیا گیا ہے اور اس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یہ اس ملک کی بد نصیبی ہی کہی جا سکتی ہے کہ اس ملک پر آج اس نظریہ کے حاملین کو اقتدار حاصل ہے جو دستورِ ہند کو بدلنے میں یقین رکھتے ہیں اور اب وہ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ وقت آ چکا ہے جب دستور کو بدلا جا سکتا ہے۔ حالانکہ آر ایس ایس اور بی جے پی عوام کے سامنے لگاتار یہ کہتے رہے ہیں کہ دستور کو بدلنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے جیسا کہ خود آر ایس ایس کے سربراہ یعنی سرسنگھ چالک موہن بھاگوت جنوری 2020 کو روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں ’’بھارت کا مستقبل اور آر ایس ایس کا نظریہ‘‘ کے عنوان پر مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’’سنگھ دستورِ ہند کی اتباع کرتا ہے اور اس کا اپنا کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔‘‘ وہ یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ قوت کا ایک متبادل مرکز بننا نہیں چاہتے۔ یہ باتیں گرچہ امید دلاتی ہیں کہ شاید موہن بھاگوت سچ بول رہے ہوں، لیکن گاندھی جی نے اپنے ایک مراسلہ میں جواہر لعل نہرو کو خبردار کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس کی چال میں ہرگز نہ پڑیں۔ دراصل گاندھی جی کا ماننا تھا کہ آر ایس ایس بطور تنظیم جو کہتی ہے، اس کا عمل اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ موہن بھاگوت کی وضاحت کے باوجود ملک کے77ویں یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم کے مشیر برائے اقتصادی امور ببیک دیورائے نے Mint میں اپنا مضمون لکھ کر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اب ملک کو نئے دستور کی ضرورت ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ یہ باتیں آر ایس ایس اور بی جے پی کے آفیشیل چینل سے سامنے نہیں آئی ہیں لیکن وزیراعظم کے مشیر کی جانب سے تبدیلیٔ دستور کی وکالت نے یہ خطرہ تو پیدا کر ہی دیا ہے کہ کہیں گاندھی جی کی وہ بات درست ثابت نہ ہوجائے کہ آر ایس ایس جو کہتی ہے، اس کا عمل بالکل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اگر واقعی آئین کو بدلنے کی تیاریاں چل رہی ہیں جیسا کہ راہل گاندھی نے2017میں کہا تھا اور اب دیورائے کے آرٹیکل سے اشارہ مل رہا ہے تو پھر اس ملک کے عوام کو اس ملک کی سالمیت کی خاطر تحفظ دستور کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، ورنہ مستقبل بہت تاریک ہوجائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS