کرناٹک:2024کیلئے راہ دکھانے والا نتیجہ

0

یوگیندر یادو
آج کی سیاست کی نچلی سطح پر جو غریب طبقہ ہے اس کے مشکلات کا حل کانگریس کے پرانی نعرے ’غریبی ہٹائو‘ سے ممکن نہیں ہے اور نہ ان مسائل کا حل بایاں بازو کی روایتی انداز کی سیاست میں مضمر ہے۔ کرناٹک اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں 2024کا راستہ کھول دیا ہے۔ ہم اس کو آج کے زمانے کی سیاست کا ایک پیری مڈ کہہ کر پکاریں گے۔ آج ہماری جمہوریت کو درپیش مسائل کا حل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کس طریقے سے اس بحران زدہ سیاست کو نئی سمت اور نئی توانائی بخشیں گے۔ آج جب ہم کرناٹک کے انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے زیادہ تر تجزیوں میں ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ کن چار طبقات میں کانگریس کو ووٹ دیا۔ میں نے اپنے تجزیہ میں ایڈینا ڈاٹeedina.com کام سروے کے ذریعہ جاری کیے گئے اعدادوشمار سے استعمال کیا ہے۔ ان اعدادوشمار کا اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سماج کے مختلف طبقات نے کس طرح ووٹ دیے گئے۔ انڈیا ٹوڈے نے جو تجزیاتی سروے کیا تھا اس نے یہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اس تجزیہ میں بتایا گیا تھا کہ بی جے پی کو حمایت دینے والے سماج کا وہ طبقہ ہے جو اوپری سطح پر ہے او رخوشحال ہے۔
غریب ووٹروں نے جوش وخروش کے ساتھ کانگریس کو ووٹ دیا ہے۔ اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ کیا آنے والے وقت میں یہ نئی صورت حال برقرار رہے گی۔یا پرانے نظام پر ہی چلتی رہے گی۔ جہاں تک ذات پات کا تعلق ہےAhinda اہندا جو کہ( پسماندہ ایس ٹی ایس سی اور اقلتیوں پر مبنی بلاک ہے اور جس کی آبادی مجموعی آبادی کا دو تہائی ہے۔) اس نے کانگریس کی حمایت کی۔ لوک نیتی سی ایس ڈی ایس کے پولنگ کے بعد کے سروے کسی بھی الیکشن کے معتبر ترین جائزے پر مشتمل سروے ہیں۔ ان ڈاٹا نے اس رجحان کی تصدیق کی ہے کہ اس بات کا بھی واضح ثبوت نہیں ملا ہے کہ لنگایت فرقہ کے لوگوں نے کانگریس کو ووٹ دینا شروع کردیا ہے۔ لیکن یہ بات صاف ہے کہ ایس سی ایس ٹی اور مسلم ووٹروں نے اس مرتبہ کانگریس کو ووٹ دیا ہے۔ میں نے یہ بات بھی اپنے جائزے میں بتائی ہے کہ کس طرح مختلف ذات کے لوگوں نے اقتصادی بنیادوں پر مبنی طبقات کس کو کتنا ووٹ دیا ہے۔
انتخابات کے نتائج نے دو اورپہلوئوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس سے پہلے نظرانداز کیے جاتے رہے ہیں۔ دیہی اور شہری حلقوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کانگریس کو بڑے پیمانے پر جو سبقت ملی ہے ۔ یہ سبقت دیہی علاقو ں میں 10فیصد اور جبکہ شہری علاقوں میں بی جے پی کے برابر ملی ہے۔ یہ صورت حال گزشتہ سال کے تجزیہ سے بالکل مختلف ہے جبکہ شہری اور دیہی علاقو ںمیں کوئی تفریق نہیں تھی۔ اسی طریقے سے انڈیا ٹو ڈے ایکسس کے ایگزٹ پول میں بتایا گیا تھا کہ جنس کے معاملے میں کانگریس اور بی جے پی میں کافی فرق ہے۔ کانگریس کو مردوں میں 5فیصد اور عورتوں میں 11فیصد سبقت ملی۔ یہ اعدادوشمار اس سے پہلے کیے گئے تجزیات کیسے مختلف اعدادوشمار ہے۔ جہاں تک ذات ، اقتصادی حیثیت، سماجی رتبے ، جنس اور علاقے کا تعلق ہے ان سب میں ایک ہی رجحان دکھائی دیا۔ زیادہ تر امیر لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا جبکہ حاشیہ پر زندگی گزاررہے کمزور لوگوں نے کانگریس کی طرف زیادہ جھکائو دکھایا۔ مذکورہ بالات چاروں نظریوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سماجی بنیادوں پر ووٹ ڈالے گئے ہیںاور سب سے نچلی سطح پر رہنے والے کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر اپوزیشن یہی صورت حال دوسری ریاستو ںمیں دہرا سکے تو ہمارے لیے 2024میں مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کا امکان موجود ہے۔
کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل میں یہ بات بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ صورت حال کوئی نئی ہے۔ کانگریس کو ہمیشہ سے ہی عورتوں اور گائوں میں رہنے والے عوام ، دلتوں ، آدیواسیوں اور غریبوں سے کی حمایت ملتی رہی ہے۔ یہ بات ہندوستان میں ووٹ ڈالنے کے رویے کے جائزہ لینے کے بعد واضح ہوچکی ہے۔ بی جے پی سماج کے اعلیٰ ترین طبقات میں اپنی پوزیشن مستحکم کررہی ہے۔ یہ بات کوئی پرانی نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں بی جے پی کے نئے سوشل بلاک پر ایک آرٹیکل 1999 میں فرنٹ لائن میں لکھا تھا۔ یہ آرٹیکل بی جے پی کی سیاسی سماجیات اور اس کی انتخابی جیت پر مبنی تھا۔ بی جے پی کی جیت سماجی طبقات اور اعلیٰ ذاتوں میں بی جے پی کی مضبوطی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس میں کہیں نہ کہیں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سماج کے سب سے نچلے طبقے کے لوگوں کی بھی بی جے پی کو حمایت ملتی رہی ہے۔ یہی حکمت عملی بی جے پی شروع سے ہی اختیار کرتی رہی ہے۔ جنس اور شہری و دیہی عوام کے رویوں پر بی جے پی نے بڑی ریسرچ کی ہے اور بڑی مشکل اور محنت کے بعد اپنے خلاف منفی اثرات کو ختم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ بی جے پی نے کچھ او بی سی کے طبقات کو اپنے ساتھ لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بی جے پی نے او بی سی کے طبقات نچلی سطح کے ہیں یا چھوٹے چھوٹے گروپ ہیں۔ کچھ خاص ایس سی طبقات کو اپنے ساتھ ملا یا ہے، ان میں مہا دلت بھی شامل ہیں۔ کچھ قبائلی فرقے ہیں۔ مسلمانوں کے طبقات بھی ہیں مگران کی آبادی کم ہے۔
یہ طبقات بوہرہ، شیعہ اور پسماندے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سماجی طبقات میں محنت کرکے بی جے پی نے اپنی کمزوریوں پر قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔ غریبوں میں کام کرتے وقت بی جے پی نے غریب طبقات کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کا فائدہ اٹھانے والے طبقات(لا بھارتیوں) کو فوائد کی براہ راست ڈلیوری سے ٹارگیٹ کیا ہے اور اس طبقہ کو اپنا حامی بنا لیا ہے۔
لہٰذا اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو کہ سماج کے پسماندہ ترین اور سب سے نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے والے افراد ہیں اسی طبقے کو ٹارگیٹ کرکے بی جے پی کے اس سماجی حکمت عملی کا توڑ کیا جاسکے۔ ہم اس طریق انتخابات کو سماج کے سب سے نچلے طبقے کی سیاست سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ ہم سماج کے محروم طبقے کے چار پہلوئوں پر غور کررہے ہیں۔ مگر اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو سماج کا ہر طبقہ اس پسماندگی کا کہیں نہ کہیں شکار ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں سماج کے بوجھ کے نیچے دباہواہے۔ اس میں 80فیصد لوگ ایس سی ایس ٹی اور او بی سی اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن لوگوںکو ہر ماہ فری راشن ملتا ہے اس زمرے میں غریبوں کی 66فیصد آبادی کور ہوجاتی ہے۔ ان میں سے 65فیصد گائوں میں رہتی ہے۔ جبکہ 48فیصد عورتیں ہیں ۔ اسی طرح شہر میں رہنے والے اعلیٰ ذات کے ہندو مردوں کا 2فیصد ہی اس مجموعی طبقے کا حصہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ سماج کے اس طبقے کی 98فیصد آبادی ووٹر ہے۔
وہ طبقہ جو کہ ہندوستان کی جمہوریت ، آئینی اقدار اور جمہوری اداروں کے وقار کو بحال کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ سماج کے پسماندہ ترین طبقہ پر توجہ دے۔ اس تجزیہ کرتے وقت ہمیں یہ بات بھی دھیان رکھنے ہوگی کہ بقیہ تین ماڈلس کو نظرانداز کرنا ہوگا۔ یہ حکمت عملی بی جے پی کی لا بھارتی سیاست کا ایک مضبوط ورزن ہے۔ آخری مثال ہم یہ دے سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر لا بھارتی آقا اور غلام کے درمیان کا ایک رشتہ ہے۔ غریبوں کے لیے چلائی جار ہی ہے اسکیموں سے جو لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں ان کو ہم ان شہریوں کے زمروں میں شامل نہیں کرتے جن کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ سرگرم اور حقیقی مستحق کے شہری ہوں گے۔ اس اسکیم میں ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ یہ لابھارتی(فائدہ حاصل کرنے والے) نہیں ہیں بلکہ ان کو ہم ان کو خود کفیل یعنی اپنی محنت اور کوششوں سے روٹی کمانے والا طبقہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی وہ طبقہ جو کہ شہری کی اس تشریح سے بالکل الگ ہے جو محنت کرکے ایک وقار زندگی گزارنے والا ہے۔ یہ طبقہ اشیا، خدمات اور علم کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا طبقہ ہے۔
جیسا کہ میںنے اوپر کہا ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کانگریس کے پرانے نعرے غریبی ہٹائو سے حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج کے دور میں ہمیں ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو شحالی اور ترقی کی بنیاد پر کام کرے۔ مثلاً غریب ، چھوٹے کسان اور شہروں میں رہنے والے کم تنخواہ پانے والے نہیں چاہتے کہ لوگ ان کو غریب کہہ کر پکاریں۔ دوسری بات یہ کہ وہ زمانہ گیا جب آپ محض ایک نعرہ لگا کر غریبوں کو اپنے ساتھ ملا لیا کرتے تھے ۔ آج کے غریب لوگ چاہتے ہیں کہ آپ سے ٹھوس انداز سے اپنے وعدے پورے کریں۔ تیسری بات یہ کہ آپ غریبوں لوگوں کو نظرانداز کرکے اپنے مقاصدکو حاصل نہیں کرسکتے۔ آپ جو پالیسی بے زمین کسانوں کے لیے یا مزدوروں کے لیے اختیار کرسکے ہیں وہ پالیسی ایسے لوگو ںکے لیے اختیار نہیں کرتے جن کے پاس اپنی خود کی زمین ہے۔ اسی طریقے سے دیہات میں رہنے والے فنکاروں اور مزدوروں کے لیے آپ مختلف حکمت عملی اختیار کریں گے اور شہری علاقو ںمیں رہنے والے ملازمت پیشہ لوگوں کے لیے آپ کی پالیسی بالکل الگ ہونی چاہیے۔ منڈل دور کے بعد آج وقت ایسا آگیا ہے کہ ہم ذات کو اس کی اقتصادی حیثیت کے ساتھ ملا کر دیکھیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہاکہ آج کی سیاست پرانے زمانے کی بایاں بازو سیاست سے بالکل الگ ہے۔ آج کی سیاست کے مختلف پہلوئوں پر مبنی ہونی چاہیے۔ یہ سیاست فیکٹری میں کام کرنے والے منظم مزدوروں یا غریب طبقات تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے۔ یعنی یہ دائرہ روایتی انداز کے سیاسی دائرے سے مختلف ہونا چاہیے۔ نئی سیاست کی بنیاد نئے اتحاد پر نئی حکمت عملی اور نئی لفظیات پر منحصر ہونی چاہیے اور اس کی بنیاد(آدھار) ہندوستان ہونا چاہیے۔ اس حکمت عملی کی بنیاد وہ افراد نہ ہوں جو محض اسکیموں کا فیض اٹھا رہا ہوں بلکہ وہ افراد وطبقات ہو ں جو کہ کام کررہے ہوں اور خدمات دے رہے ہوں اور علم حاصل کررہے ہوں۔ 2024 کے الیکشن سے قبل ہمیں ایک قلیل مدتی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی جو کہ حالیہ حالات اور واقعات پر مبنی ہو۔ اڈانی گروپ سے متعلق انکشافات اس سیاست کے لیے ماحول بنالیا ہے اگرچہ میڈیا نے اس کو نظراندازکیا ہے۔ لیکن یہ معاملہ بالکل الگ انداز سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس کا حشر وہ نہیں ہوگا جو رائفل کے تنازع کا ہواتھا۔ اس معاملے میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ ماحول سازی کررہا ہے اور یہ معاملہ انصاف کی تمام طبقات میں تقسیم کے لیے ماحول اور فضا سازگار کررہا ہے۔ کسانوں کی تحریک نے پورے دیہی سماج کی سیاسی تال میل کی فضا کو ہموار کیا اور اس کی بنیاد ڈالی۔ شراب نوشی کے خلاف تحریک جس کا نشانہ عورتوں کو ہونے والا آلام ہیں جو سیاسی ایجنڈے کے فہرست میں اور اوپر ہیں ۔ یہ تمام حکمت عملیاں اورپالیسیاں 2024کے ایجنڈے کو طے کریں گی۔ ہماری آئینی اقدار کے تحفظ کی سیاست ضروری نہیں کہ دفاعی طرز کی سیاست ہو آج کی سیاست ہم کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم تیزی سے بدلنے والی اور سرگرم حکمت عملی اختیار کریں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS