دینی مدارس میں عصری تعلیم ،وقت کی ضرورت

0

ایس ایم عارف حسین
آج کے معاشرتی اور سیاسی حالات میں بالخصوص مسلمانوں کو ’’عصری تعلیم‘‘ کے ساتھ ’’دینی تعلیم‘‘یعنی قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ ’’ اور دینی تعلیم‘‘کے ساتھ ’’عصری تعلیم‘‘ یعنی ریاستی- قومی و بین الاقوامی زبانوں کے ساتھ کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنا شدید ضروری ہے تاکہ ایک جانب اپنے مذہب سے مکمل واقفیت حاصل ہوتو دوسری جانب ریاست و ملک کے قانون اور سیاسی ناجائز دباو کو محسوس کیا جاسکے اور اس سے بچنے کیلیے قانونی دائیرہ میں رہے کر آواز اٹھائی جاسکے۔
یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ موجودہ نسل صرف “عصری تعلیم” میں غرق ہونیکی وجہ سے دنیاوی دولت و شہرت تو حاصل کر رہی ہے پر جب مذہب کی بنیادی تعلیم کی جہاں ضرورت پیش آتی ہے جیسے نماز- روزہ- زکوٰۃ و حج اور نجی زندگی کے مسائل جیسے ماں- باپ و دیگر رشتہ داروں اور بزرگوں کے ساتھ برتاو- زندگی کا اہم عمل نکاح و حقوق العباد کا معاملہ درپیش آتا ہے تب زمانہ کے مولوی و مفتی حضرات کے پیچھے دوڑنا پڑتا ہے اور اگر یہ حضرات کسی معاملہ میں شرعی اعتبار سے غلط رہنمائی کریں جیسا موجودہ دور میں ہورہا ہے تب دنیا و آخرت برباد ہوکر رہے جاتی ہے۔
اسی طرح ’ دینی تعلیم‘ حاصل کرنے والی نسل مدرسہ کے معلم – مسجد کی امامت تک محدود ہوکر رہے جارہی ہے چونکہ یہ عصری تعلیم سے نا بلد ہوتے ہیں۔ جب دنیاوی مسئلوں جیسے کسی سرکاری دفتر- پولیس یا قانونی کاروائی کی خدا نخواستہ ضرورت پیش آے تب ایک معمولی درخواست تحریر کروانے کے لیے موٹی رقم لے کر ادھر ادھر جھانکنا پڑتا ہے۔
لہٰذا موجودہ وقت ملت اسلامیہ کے ’دینی‘و ’عصری تعلیمی‘ اداروں کے صدور و معتمدین کو دبے الفاظ میں للکار رہاہے کہ ملت کی نسل کی سنجیدہ فکر کرتے ہوے ’زبان اول‘ کے طور پر مادری زبان: اردو – مذہبی کتاب کی زبان :عربی – صوبائی زبان: تلگو- قومی زبان : ہندی و بین الاقوامی زبان :انگریزی کے ساتھ ساتھ دور جدید کی سائنیس و طب – کمپیوٹر و دیگر ٹیکنالوجی کی تعلیم کو بالترتیب اپنے نصاب میں لازمی طور پر شامل کریں تاکہ ایک جانب وقت کا ایک حافظ قرآن- مولوی و مفتی اپنے روزگار کو حاصل کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہے تو دوسری جانب ایک ڈگری کا تعلیم یافتہ- ڈاکٹر – وکیل و انجینئر جب بھی اس کی نجی و معاشرتی زندگی میں بنیادی مذہبی رہنمائی کی ضرورت پیش آے تب اپنے طور پر صحیح و غلط میں- جائزو ناجائز اور حلال و حرام میں فرق محسوس کر سکے تاکہ دنیاوی و آخرت کی زندگی میں سکون و کامیابی حاصل کرسکے جو اس کے وجود کا عین الٰہی مقصد ہے۔
’ اندھیرے یوں ہی نہیں جاتے صرف سونچ لینے سے ‘
چراغ خود نہیں جلتا جلانا پڑتا ہے‘
قوی امید کہ ذمہ داران ملت مذکورہ امور پر سنجیدہ غور کرتے ہوے نئے تعلیمی سال سے ’دینی کے ساتھ عصری‘ اور عصری کے ساتھ دینی تعلیم کو رائج کرنے کی طرف عملی اقدامات کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم ملت اسلامیہ کے تمام ذمہ داروں کو عملی اقدامات کرنیکی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS