ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
مودی حکومت نے جو نئی اگنی پتھ اسکیم کا اعلان کیا ہے، اس کے خلاف پورے ملک میں عوامی تحریک شروع ہوگئی ہے۔ یہ تحریک روزگار کے متلاشی نوجوانوں کی ہے۔ یہ کسانوں اور مسلمانوں کی تحریکوں سے مختلف ہے۔ وہ تحریکیں ملک کے عوام کے کچھ طبقات تک ہی محدود تھیں۔ یہ ذات، مذہب، زبان اور کاروبار سے اوپر اٹھ کر ہے۔ اس میں سبھی ذاتوں، مذاہب، زبانوں، علاقوں اور کاروبار کے نوجوان شامل ہے۔ اس کے کوئی یقینی لیڈر بھی نہیں ہیں، جنہیں سمجھا بجھاکر خاموش کروایا جاسکے۔ یہ تحریک بے ساختہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بے ساختہ تحریک کے بھڑکنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو اس کے بارے میں غلط فہمی ہوگئی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ 75فیصد بھرتی شدہ نوجوانوں کو اگر 4سال میں ہٹا دیا گیا تو کہیں کے نہیں رہیں گے۔ نہ تو نئی نوکری انہیں آسانی سے ملے گی اور نہ ہی انہیں پنشن وغیرہ ملنے والی ہے۔ اس خدشہ کا ذکر میں نے پرسوں اپنے مضمون میں کیا تھا۔ اس تعلق سے ہی پورے ملک میں تحریک بھڑک اٹھی ہے۔ ریلیں رک گئی ہیں، سڑکیں بند ہوگئی ہیں اور آتشزنی بھی ہورہی ہے۔ بہت سے نوجوان زخمی اور گرفتار بھی ہوگئے ہیں۔ ایک جوان نے خودکشی بھی کرلی ہے۔ یہ تحریک گزشتہ سبھی تحریکوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، کیوں کہ تحریک کررہے لوگوں میں زیادہ تر وہ ہی نوجوان ہیں، جن کے رشتہ دار، دوست یا پڑوسی پہلے سے ہندوستانی فوج میں ہیں۔ اس تحریک سے وہ فوجی بھی مستثنیٰ نہیں رہ سکتے۔ حکومت نے اس اگنی پتھ اسکیم کو تھوڑا ٹھنڈا کرنے کے لیے بھرتی کی عمر ساڑھے سترہ سال سے 21 سال تک جو رکھی تھی، اسے اب 23تک بڑھا دیا ہے۔ یہ راحت ضرور ہے لیکن اس کا ایک برا نتیجہ یہ بھی ہے کہ چار سال بعد یعنی 27سال کی عمر میں بے روزگار ہونا پہلے سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ فوج سے 4سال بعد ہٹنے والے 75فیصد نوجوانوں کو حکومت تقریباً 12-12لاکھ روپے دے گی اور سرکاری ملازمتوں میں انہیں ترجیح بھی دی جائے گی لیکن اصل سوال یہ ہے کہ مودی حکومت نے اس معاملہ میں بھی کیا وہی غلطی نہیں کردی، جو وہ گزشتہ 8سال میں ایک کے بعد ایک کرتی جارہی ہے؟ 2014میں حکومت بنتے ہی اس نے تحویل اراضی آرڈی ننس جاری کیا، اچانک نوٹ بندی کا اعلان کردیا، زرعی قوانین بنادیے اور پڑوسی ممالک کے معاملہ میں کئی مرتبہ گچا کھاگئی- اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ نوکرشاہوں کی رہنمائی میں ملک کے مفاد میں بہت سے قدم اٹھانے کی جسارت تو کرتی ہے لیکن ان اقدامات کا جن پر اصلی اثر ہونا ہے، انہیں وہ بالکل بھی گھاس نہیں ڈالتی ہے۔ وہ یہ بھول رہی ہے کہ وہ ایک جمہوری حکومت ہے۔ وہ کسی بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے کہ اس نے جو بھی ہانک لگائی تو سارے درباریوں نے کہہ دیا ’جی حضور‘!
(مصنف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]