یمن میں 2011سے چلی آرہی خانہ جنگی اگرچہ کسی حد تک موقوف ہوگئی ہے مگر وہاں پراندرونی خلفشار اور سیاسی عدم کا دور ختم ہوجائے گا اس کا امکان فی الحال معدوم دکھائی دے رہا ہے۔ اب کئی حلقوں سے 1990میں ہونے والے دوہم نواؤں کے الحاق کو ختم کرنے اورجنوبی یمن کو الگ خودمختارملک بنانے کا مطالبہ دہرایاگیاہے۔ یہ مطالبہ ایسے وقت میں آیا ہے جب 22مئی کو جنوبی اور شمالی یمن کو متحد کرنے کی 33ویں سالگرہ منائی جارہی تھی۔ سودرن ٹرانسیشنل کونسل نے (Transitional Council Southern)(ایس ٹی سی) کے جنوبی خطے کی سیکورٹی کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مبصرین کا کہناہے کہ مذکورہ بالا کونسل جنوبی یمن کو شمالی یمن سے الگ کرنے کی ابتدا اپنے اختیار سے فی الحال باہر پورے جنوبی یمن کو اپنے کنٹرول یں کرے۔ یہ مطالبہ غیرمتوقع نہیں تھا، یہ یمن میں مکمل قیام امن کے سمجھوتے سے پہلے کے مطالبات ہیں اور ان مطالبات کا مقصد مستقبل کے کسی بھی فیصلہ میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری، حقوق اور اختیارات حاصل کرنا ہے۔
یمن میں حالیہ خانہ جنگی کا خاتمہ سعودی عرب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب اس پورے خطے میں تصادم اور تشددختم کرنے کاحامی ہے اور اس نے ایران،شام کے روابط کو بحال کردیاہے، سعودی عرب پوری دنیا میں مذہب اور روحانیت کی وجہ سے قائدانہ رول ادا کرتا ہے لہٰذا تمام ممالک بین الاقوامی امور میں اس کے موقف کی تائید اورکسی حد تک پیروی بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ2011میں جب سعودی عرب نے کچھ ملکوں کے ساتھ روابط محدود کیے یا بالکل ہی منقطع کردیے تو کئی عرب ممالک نے سعودی عرب کی پیروی کی اور اب جبکہ سعودی عرب نے بین الاقوامی تعلقات میں اپنا رخ بدلا ہے، اکثر عرب ملک ایران، شام، ترکی وغیرہ سے تعلقات بحال کررہے ہیں۔ ان معنی میں عرب لیگ کا جدہ میں ہونے والا سربراہ اجلاس عالم اسلام، عالم عرب اور پوری دنیا کو پیغام دے گیا کہ ماضی کو پیچھے چھوڑکر آپ نئے دور، روشن مستقبل کی بندش میں واقعی آپ کو تمام معمولی اور غیرمعمولی دونوں نوعیت کے اختلافات کو ترک کرنے اور ختم کرنے کے لیے پہل کرنی ہوگی۔یمن میں قیام امن کی حالیہ کوششیں اور تمام فریقوں کو ساتھ لانے اور ایک متحدہ واتفاق رائے کی سرکار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بہرکیف، ایس ٹی سی کے حالیہ بیانات نے یمن کے ارباب اقتدار کو متفکر کردیا جو خانہ جنگی کے خاتمہ میں ایک خوش حال، ترقی پذیر اور بھوک وفاقہ کشی سے پاک مستقبل کی آس لگائے ہوئے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب 15مئی کو قومی چارٹرپرتمام فریقوں میں دستخط کردیتے ہیں اس فائنل چارٹر کے بعد ایس ٹی سی کے لیڈروں کایہ اصرار کہ اندرون ملک اور خطے (عرب) کے ممالک ذمہ دارانہ رول ادا کریں گے اور آخری سمجھوتے میں ان کے حقوق اور مفادات کا خیال رکھیں گے۔ یمن کی موجودہ حکومت کے لیے یہ صورت حال چیلنج ہے اور مذکورہ بالا بیان میں (عرب) ممالک کی طرف اشارہ ہے۔ سعودی عرب کی قیادت والے ان ممالک کو ’دعوت فکر‘ ہے جو عسکری،سفارتی طور پریمن میں سرگرم ہیں۔ جنوبی یمن کے نمائندے کے طور پر بات کرنے والی ایس ٹی سی کا کافی اثر ورسوخ ہے۔ ایس ٹی سی کے کنٹرول میں اردن، لہج، الدہلیہ، ابیان(جنوبی)، شبوا کے علاوہ حضرموت اور اسکوٹرا(شمال) وغیرہ کے علاقے ہیں۔ جبکہ المہرا گورنیٹ، سلطنت اومان اور وادی خضرموت کے علاقے بین الاقوامی طورپر منظورشدہ حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔
پچھلے دنوں علیحدگی پسندی پر زور ڈالنے کے لیے جنوبی یمن کے تاریخی علاقے حضرموت میں ایس ٹی سی کے اجلاس کا انعقاد اپنے آپ میں بڑا بامعنی ہے۔ یہ علاقہ حکومت کا مرکز ہے اور جنوبی یمن میں واقع ہے اور یہ سرکاراور سیاست کامرکز ہے۔ اگر مستقبل میں کبھی یہ صورت حال پیش آئے کہ جنوبی اور شمالی یمن میں تقسیم ممکن ہوئی تو حضرموت کو جنوبی یمن کے علاقے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکے گا۔ جنوبی یمن کے مذکورہ بالا ادارے ایس ٹی سی کی ایک پارلیمنٹ ہے جس کے 303 ارکان ہیں۔یہ پارلیمنٹ 2017میں بنائی گئی تھی۔ اس پارلیمنٹ کا انتظام وانصرام چلانے کے لیے ایک اسپیکر کاتقرر کیا گیاتھا جو پریزینڈنسی آف کونسل کے رکن ہیں۔ پارلیمنٹ کے اسپیکر حضرموت کے ساتھ گورنر میجرجنرل احمد سعید بن برک ہیں۔ وہ ایس ٹی سی کے نائب صدر بھی ہیں۔n
ایک اور بحران کے دہانے پر یمن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS