تبت پر جن پنگ کا نیا داؤ

0

برہمدیپ الونے

بین الاقوامی سیاست میں مداخلت کو ایک تاناشاہی دخل اندازی سمجھا جاتا ہے جو ایک ملک دوسرے ملک کے معاملات کو پلٹنے کے لیے کرتا ہے۔ مداخلت کرکے کسی ملک کی خودمختاری کو دشمنانہ طریقہ سے چوٹ پہنچانا چین کی غیرملکی پالیسیوں میں شمار رہا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ اسے مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں۔ حال میں جن پنگ نے اچانک تبت کا دورہ کرکے اسی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی اس سال اپنے قیام کے 100برس منارہی ہے اس موقع پر جن پنگ نے تبت کے تاریخی اور مذہبی عقائد پر حملہ کرتے ہوئے تبت کو کمیونسٹ پارٹی کا تعاقب کرنے اور سوشلزم کے راستہ پر چلنے کی نصیحت کرڈالی۔
جن پنگ کے تبت دورہ کے اسٹرٹیجک، معاشی، ثقافتی اور مذہبی پیغام واضح نظر آرہے ہیں۔ وہ لہاسہ میں اہم درے پنگ مٹھ بھی گئے اور قدیم و مذہبی تبت کے علاقہ کے مذہبی اور ثقافتی تحفظ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ لہاسہ کو چین نے طویل عرصہ تک باہری دنیا سے بالکل کاٹ رکھا تھا اور کسی باہری شخص کو تبت اور راجدھانی لہاسہ جانے کی اجازت آسانی سے نہیں دی جاتی۔ اسی لیے اسے ریسٹرکٹیڈ سٹی(restricted city) کہا جاتا ہے۔
دراصل تبت پر قبضہ کی سات دہائی بعد بھی چین کی اس پر پکڑ اتنی مضبوط نہیں ہوپائی ہے، جتنا چینی کمیونسٹ پارٹی چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے جن پنگ انتظامیہ اب تبت میں مذہب کا کارڈ کھیلنے کی تیاری کررہا ہے۔ تبت میں بودھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، جب کہ چین کی کمیونسٹ حکومت کسی بھی مذہب کو نہیں مانتی ہے۔ اس لیے یہاں کے لوگوں میں اپنی پکڑ بنانے کے لیے جن پنگ اپنا بے لوث چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ تبت کو چین نے 1951میں اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد تبت کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا دلائی لامہ نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ ہندوستان میں پناہ لے لی تھی۔ تب سے وہ ہندوستان میں ہی رہتے ہیں اور تبت کو خودمختاری دینے کے لیے چین کی حکومت پر دباؤ بناتے رہے ہیں۔ دلائی لامہ کے اثر کو تبت کے لوگوں میں کم کرنے کے لیے چینی حکومت مسلسل کوشش کررہی ہے۔ چین تبت کی مذہبی ثقافت کو ختم کرکے اسے جنوب مغربی علاقہ میں کاروبار کا بڑا مرکز بنانے کے لیے بڑے وسیع منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ دلائی لامہ کی بڑھتی عمر کو بنیاد بنا کر چین اپنی جانب سے کسی ایسے شخص کو دلائی لامہ کے طور پر قائم کرنے کی کوشش میں ہے جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے تئیں وفادار ہو۔ امریکہ نے چین کی اس پالیسی کی مخالفت کی ہے۔ گزشتہ سال اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے نئی تبت پالیسی کو منظوری دیتے ہوئے بودھ مذہب کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کے انتخاب میں چینی مداخلت کو روکنے کی بات کہی تھی۔ اس میں تبت میں امریکی قونصل خانہ قائم کرنے اور تبت مسئلہ پر ایک بین الاقوامی گٹھ بندھن بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس سال مارچ میں بائیڈن انتظامیہ نے بھی اس امریکی عزم کو دوہرایا کہ دلائی لامہ کے جانشین کے انتخاب میں چینی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہونا چاہیے۔

اروناچل کے مغرب میں بھوٹان، شمال میں چین، شمال مشرق میں تبت اور مشرق میں میانمار ہے۔ اب ان علاقوں میں ہندوستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ ہندوستان اپنی مشرق پالیسی کے تحت سرحدی علاقوں کا جامع ترقیاتی کام کر رہا ہے۔ چین کی فکر کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جن پنگ تبت کی زمین سے دلائی لامہ، ہندوستان اور امریکہ پر دباؤ میں اضافہ کرکے چینی کمیونسٹ پارٹی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ سرحدی مسئلہ کو طویل عرصہ تک الجھا کر چین کا مخالفین پر نفسیاتی دباؤ بنانے کا طریقہ رہا ہے اور جن پنگ بھی اسے آزماتے نظر آرہے ہیں۔

تبت اسٹرٹیجک طور پر ہندوستان کے لیے بیحد اہم ہے۔ چین ہندوستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس راستہ کا استعمال نیپال سے رشتے مضبوط کرنے کے لیے کررہا ہے۔ تبت دورہ میں جن پنگ نینگچی ریلوے اسٹیشن بھی گئے۔ اسے ان کی ہندوستان پر اسٹرٹیجک دباؤ بنانے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہ علاقہ اسٹرٹیجک طور پر اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ یہاں سے کچھ دور پر ہی اروناچل پردیش کی سرحد لگتی ہے۔ جن پنگ چین کے پہلے بڑے لیڈر ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں بعد ہندوستان اور چین کی سرحد کے پاس آباد اس شہر کا دورہ کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ برطانوی حکومت میں 1914میں بنی میک موہن لائن کو خارج کرکے چین اروناچل پردیش کو اپنا حصہ بتاتا رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعدبدلتے سیاسی منظرنامہ میں برطانیہ کی جنوب ایشیا سے رخصتی کے بعد ماؤ نے اس علاقہ کو قبضہ میں لینے کی سازش کو بے حد چپکے سے انجام دیا تھا۔ ماؤ نے سب سے پہلے 1949میں تبت کو اپنا نشانہ بنایا۔ چین نے ہندوستان ملحق سرحد پر اپنی حالت مضبوط کی اور 1957میں قراقرم نیشنل ہائی وے بھی بنالیا۔ اس کے بعد چین نے سرکاری طور پر یہ اعلان بھی کردیا کہ ہندوستان اور چین سرحد پر واضح تقسیم نہیں ہوئی ہے۔ چین نے میک موہن لائن کو بھی ماننے سے انکار کردیا اوراروناچل پردیش کو جنوبی تبت بتانے لگا۔ چین اروناچل پردیش کے 90ہزار مربع کلومیٹر والے علاقہ کو جنوبی تبت کہتا ہے۔ یہ اروناچل میں ہندوستانی وزیراعظم کے دورہ پر بھی اعتراض کرتا رہا ہے۔ اس نے اپنی توسیع پسندانہ خواہشات/آرزوؤں کو تیز کرتے ہوئے اروناچل پردیش کے 6مقامات کے نام غیرقانونی طور پر بدل کر ووگ یئنلنگ،، ملاری، کائیندین گاب ری،مین کیو کا، بومو لا اور نامکا پُب ری رکھ دیے ہیں۔ چینی ماہرین اسے چین کی علاقائی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا اہم قدم بتاچکے ہیں۔
لہاسہ سے نینگچی ریلوے ٹریک نیپال سے چین کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کی نظر سے بھی بے حد اہم ہے۔ یہ ریلوے منصوبہ کل ایک ہزار 700کلومیٹر کا ہے۔ اسے سیچوآن-تبت ریلوے لائن کا اسٹرٹیجک طور پر انتہائی اہم حصہ مانا جارہا ہے۔ چین ہمیشہ سے ہی نیپال کے ساتھ خاص تعلقات کا حامی رہا ہے۔ تبت پر قبضہ کے بعد اس کی سرحدیں نیپال سے جڑگئی ہیں۔ چین کی نیپال پالیسی کی اہم بنیاد یہ تھی کہ نیپال میں باہری طاقتیں اپنا تسلط قائم نہ کرسکیں اور تبتی خودمختار علاقہ کا تحفظ ہوسکے۔ دوسرا نیپال میں ہندوستان کے اثر کو کم کیا جائے۔ اس نے نیپال میں متعدد منصوبے جارحانہ طریقہ سے شروع کرکے تبت سے سیدھی سڑک ہندوستان کے ترائی علاقوں تک جوڑی اور نیپال کی کداری سرحد تک ریلوے ٹریک بنالیا۔ اس کے ساتھ ہی چین نے نیپالی کمیونسٹ اور ماؤوادی گروپوں کو معاشی و فوجی مدد دے کر ہندوستان مخالف جذبات بھڑکانے کی سازشوں کو بھی انجام دیا۔ چین نیپال کے ان مضبوط تعلقات سے ہندوستان کی معاشی اور سکیورٹی سے متعلق تشویشات میں اضافہ فطری ہے۔نیپال کے راستہ ہندوستان میں چینی سامان کی ڈیپنگ، ماؤوادی تشدد کے ذریعہ نیپال سے آندھراپردیش اور تمل ناڈو تک ریڈ کاریڈور میں اندرونی سکیورٹی کو خطرات، پاک کی آئی ایس آئی کی نیپال میں مسلسل بڑھتی سرگرمیاں، اسمگلنگ اور دہشت گردوں کا ہندوستان میں داخلہ جیسے چیلنجز برقرار ہیں۔
ماؤ کی علاقائی اسٹرٹیجک پالیسی پانچ انگلیوں کے نظریہ پر مبنی سمجھی جاتی ہے۔ ماؤ کے مطابق چین ہاتھ ہے تو تبت ہتھیلی۔ اس تبت کی پانچ انگلیاں ہیں-نیپال، بھوٹان، لداخ، سکم اور اروناچل پردیش۔ نیپال اور ہندوستان کی سکیورٹی باہمی طور پر ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ بھوٹان کی سکیورٹی سے متعلق ہندوستان فارورڈ پالیسی پر رہا ہے اور ڈوکلام تنازع میں ہندوستان نے اس پر عمل بھی کیا۔ لداخ، سکم اور اروناچل پردیش ہندوستان کے حصے ہیں۔ چین اس حالت کو بدلنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔لداخ میں ہند-چین سرحد پر کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ گلوان وادی میں ہوئی پرتشدد جھڑپوں کے بعد بھی ابھی تک دونوں ممالک کی افواج کے مابین پیچھے ہٹنے سے متعلق کوئی متفقہ معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ اس کا اثر دونوں ممالک کے اسٹرٹیجک اور معاشی تعلقات پر بھی پڑا ہے۔ اروناچل کے مغرب میں بھوٹان، شمال میں چین، شمال مشرق میں تبت اور مشرق میں میانمار ہے۔ اب ان علاقوں میں ہندوستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ ہندوستان اپنی مشرق پالیسی کے تحت سرحدی علاقوں کا جامع ترقیاتی کام کررہا ہے۔ چین کی فکر کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جن پنگ تبت کی زمین سے دلائی لامہ، ہندوستان اور امریکہ پر دباؤ میں اضافہ کرکے چینی کمیونسٹ پارٹی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ سرحدی مسئلہ کو طویل عرصہ تک الجھا کر چین کا مخالفین پر نفسیاتی دباؤ بنانے کا طریقہ رہا ہے اور جن پنگ بھی اسے آزماتے نظر آرہے ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS