قول وفعل کے تضاد کی بدترین مثال

0

حکومت کا کام ملک کے شہریوں کی زندگی آسان بنانا ہوتا ہے۔ حکومتی مداخلت اور دبائو سے پاک شہریوں کی زندگی ملک کیلئے اثاثہ ثابت ہوتی ہے اور ملک کی ترقی کاسفر ہموارراستوں پر جاری رہتا ہے۔ خود ہمارے وزیراعظم نریندر مودی بھی اس کے قائل ہیں۔ اکثر اپنی تقریروں میں ’ سب کا ساتھ -سب کا وکاس‘کا جادو اثر نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ ابھی چند یوم قبل ہی وزیراعظم نریندرمودی نے دبئی میں اپنی تقریر کے دوران عالمی برادری سے کہاتھا کہ ہر حکومت اپنے شہریوں کے تئیں بہت سی ذمہ داریوں کی پابند ہوتی ہے۔ آج دنیا کو ایسی حکومتوں کی ضرورت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ لوگوں کی زندگیوں میں حکومتی مداخلت کم سے کم ہو۔ وہ خود اس اصول پر عمل کرتے ہیں۔اپنی 23 برسوںکی حکومت میں ان کا سب سے بڑا اصول ’کم سے کم حکومت- زیادہ سے زیادہ گورننس‘ رہا ہے۔ان کی یہ بھی کوشش رہی ہے کہ کوئی بھی شہری سرکاری اسکیموں کے فائدے سے محروم نہ رہے، حکومت خود ان تک پہنچ جائے۔ گورننس کے اس ماڈل میں تفریق اور بدعنوانی دونوں کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ انہوںنے یہ بھی فرمایا کہ ہمیشہ ایک ایسا ماحول بنانے پر زور دیا ہے جس میں شہریوں میںتوانائی کا جذبہ پیدا ہو۔وہ حکمرانی میں عوامی جذبات کو ترجیح دینے کے قائل ہیں۔ وہ اہل وطن کی ضروریات کے بارے میں حساس ہیں اور ان کی پوری توجہ لوگوں کی ضروریات اور لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے پر مرکوز ہے۔ان فرمودات عالیہ کی روشنی میں جب وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو عملی میدان میں دیکھاجاتا ہے تو ہر طرف سخت گیر حکمرانی،آمریت، استبداد،حتیٰ کہ کھلی فرعونیت کی جھلکیاں بھی ہلکورے لیتی نظر آتی ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جس وقت دبئی میں وزیراعظم اپنے افکار عالیہ سے عالمی برادری میں علم و دانش کی روشنی تقسیم کررہے تھے، ٹھیک اسی وقت ہندوستان کے شہر رانچی میں واقع ’بھارت کی منفردشناختی اتھارٹی‘(یو آئی ڈی اے آئی) مغربی بنگال کے ہزاروں شہریوں کی زندگی میں کانٹے بونے اور انہیں عوامی خدمات اور سرکاری اسکیموں سے محروم کرنے کا کام کررہی تھی۔یو آئی ڈی اے آئی کے علاقائی دفتر رانچی نے مغربی بنگال کے ہزاروں لوگوں کو خط بھیج کر کہاہے کہ ’آپ نے آدھار قانون 2016 کی دفعہ28اے کے مطابق ہندوستان میں قیام کی شرائط کو پورا نہیں کیا ہے، اس لیے آپ کا آدھار کارڈ ڈی ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے۔‘
یادرہے کہ یو آئی ڈی اے آئی، وزارت داخلہ کے تحت شہریوں کیلئے آدھار کارڈکے نام سے شناختی کارڈ دیے جانے والا مجازادارہ ہے۔ اس آدھارکارڈ کے حاملین کو ہی مختلف طرح کی خدمات سے استفادہ کا حق ہوتا ہے۔مرکز اور ریاست کی کسی بھی سرکاری یا عوامی اسکیم یا نجی سرگرمی کیلئے شہریت کے ثبوت کے طور پر آدھار کار ڈ میں دیے 12 ہندسے کا شناختی نمبر عملی طور پر لازمی بن چکا ہے۔ یہ خط ملنے کے بعد ان ہزاروں لوگوں میں شہریت چھن جانے کا خوف توپیدا ہی ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ راشن، پانی، بجلی، گیس اور بینکنگ وغیرہ جیسی بنیادی خدمات کیسے حاصل کریں گے ؟
سیاسی حلقوں میںیہ قیاس آرائی شروع ہوگئی ہے کہ لوک سبھا انتخاب سے پہلے خاموشی سے آدھار کارڈ کومنسوخ کرنے کی مہم دراصل شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) کے نفاذ کی مشق ہے۔ مودی حکومت نے 2019 میں سی اے اے بنایا تھا۔یہ قانون پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے ہندوؤں کو ’شہریت‘ دینے سے متعلق ہے۔اس قانون کا ایک مقصد ان تینوں ممالک کے مسلمانوں کو ’درانداز‘ کے طور پر شناخت کرنا اور انہیں ملک سے باہر نکالنا ہے۔بوجوہ یہ قانون اب تک نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔ تاہم مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے وعدہ کیا ہے کہ اسے لوک سبھا انتخابات سے پہلے نافذکیا جائے گا۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی بھی اس معاملہ کو اسی پس منظر میں دیکھ رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے منصوبہ بندطریقہ سے ریاست یا ضلع انتظامیہ کو اندھیرے میں رکھ کر آدھار کو غیر فعال کر دیا ہے۔ دراصل یہ سب سی اے اے لاگو کرنے کے مقصد سے کیا گیا ہے۔ لیکن وہ ریاست میں اسے کسی بھی طرح نہیں ہونے دیں گی۔اس سلسلے میں انہوں نے مرکز کی مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے متاثرین کیلئے ریاستی حکومت کی جانب سے متبادل کارڈجاری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے تاکہ انہیں بینک اور دیگر خدمات کیلئے استعمال کیاجاسکے۔
بھلے ہی یہ قیاس آرائی ہو کہ آدھار کی منسوخی سی اے اے کے نفاذ کی کوشش ہے لیکن بغیر کسی اطلاع کے ایک ہی ریاست میں اچانک ہزاروں افراد کا ایک ساتھ آدھار کارڈ منسوخ کیا جانا سنگین حد تشویشناک اور بنگال کے لوگوں کوالجھانے اور پریشان کرنے کی نئی حکمت عملی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کے فرمودات عالیہ کے برخلاف مرکزی حکومت اوراس کے عمال مغربی بنگال کے لوگوں کا سکون غارت کرنے اور زندگی دشوار بنانے کے کام پر مامور ہیں۔اسے قول و فعل کے تضاد کی بدترین مثال کہاجاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS