عالمی جنگ یا سرد جنگ؟

0

تیزی کے رتھ پر سوار ہندوستانی شیئر بازار کے لیے گزشتہ ہفتہ نئے سال کا دوسرا سب سے خراب ہفتہ ثابت ہوا ہے۔ ایک وقت میں تو بازار میں گراوٹ 4,000اعداد و شمار تک بھی درج ہوئی۔ لیکن اس معاملہ میں ہندوستانی بازار ہی کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ایشیا سمیت پوری دنیا کے بازار میں فروخت کا زبردست دباؤ دیکھا جارہا ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو کی شرح سود میں اضافہ کیے جانے کے اندازہ کے ساتھ ہی روس-یوکرین کشیدگی کے کسی بڑے تنازع میں بدلنے کے خدشات سے ہندوستان سے لے کر تائیوان اور جنوبی کوریا تک کے غیرملکی سرمایہ کاروں میں بھگدڑ مچی ہے۔ سرمایہ کاروں کو اس بات کا بھی ڈر ستا رہا ہے کہ اگر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑی، تو اس کی چنگاری صرف انہی دونوں ممالک تک محدود نہیں رہنے والی بلکہ اس کی آنچ سے یوروپ بھی جلے گا۔ ایسا کوئی بھی ٹکراؤ امریکہ اور روس کو بھی آمنے سامنے لاسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا تیسری عالمی جنگ۔
لیکن کیا روس-یوکرین کا تنازع دنیا کو واقعی تیسری عالمی جنگ کی دہلیز تک لاسکتا ہے؟ یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ روسی فوجیوں کی موجودگی اور جواب میں ناٹو اتحادی کا یوکرین کی راجدھانی کیو کی سیکورٹی کو مضبوط کرنا اس امکان کی بھلے تصدیق نہ کرتا ہو، لیکن ایسے کسی خدشہ کو خارج بھی نہیں کرتا۔ دونوں طرف سے ہورہی بیان بازی بھی کسی ممکنہ تنازع کو ٹالنے کی امید نہیں پیدا کررہی ہے۔ روس کی جارحیت سے یوکرین کو بچانے کے لیے ناٹو اتحاد اپنے فوجیوں کی واپسی کے لیے تیار نہیں ہے، تو روس خطہ میں امن کو مغرب کی جانب سے مل رہے مبینہ چیلنج کو لے کر حملہ آور بنا ہوا ہے۔
تاریخ کا برا تجربہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ارادوں کو مزید خطرناک بنا رہا ہے۔ دراصل موجودہ تنازع کی جڑیں تین دہائی پرانی ہیں جس میں گزشتہ سات سال میں نفرت کا کافی کھاد-پانی ڈالا گیا ہے۔ سال 1991میں سوویت یونین کی تحلیل کے وقت وجود میں آیا یوکرین اپنے آغاز سے ہی جغرافیائی اورسیاسی چکرویو سے آزاد نہیں ہوپایا ہے۔ آزاد ملک بنتے ہی یوکرین کی سیاست میں ایک گروپ نے بڑی تیزی سے مغرب سے اپنی نزدیکی بڑھائی، تو دوسرا گروپ روس پرست بنا۔ 2014میں جب روس کی جانب جھکاؤ رکھنے والے اس وقت کے صدر وِکٹر ینوکووچ کو یوروپی یونین کے ساتھ ایک معاہدہ کو نامنظور کرنے کے بعد گھریلو مخالفت کے سبب کرسی چھوڑنی پڑی،تو پوتن نے اسے ان کے اثر و روسوخ والے علاقہ میں مغرب کے دخل کے طور پر لیا۔ جواب میں روس نے فوجی طاقت کے دم پر مشرقی یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کرلیا۔ خطہ کے صنعتی دارالحکومت کہے جانے ڈان باس کو تباہ کرنے والی لڑائی میں 14ہزار سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ سیاہ سمندر(black ocean) میں اپنے کاروباری امکانات سے حوصلہ افزا امریکہ نے سیکورٹی دینے کے نام پر ناٹواتحاد کے ساتھ مل کر یوکرین کے فوجیوں کو ٹریننگ دینا شروع کردیا، لیکن اس سے وہاں امن اور استحکام آنے کے بجائے حالات بگڑتے چلے گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ اعتراض کرنے کے باوجود روس اپنی سرحد کے پاس ناٹو کی جنگی مشق سے پھر مشتعل ہے۔ پوتن صاف کرچکے ہیں کہ روسی سرحد کے پاس آکر کوئی فوج انہیں دھمکائے، یہ انہیں قطعی منظور نہیں ہوگا۔ روس صرف ناٹو فوج کے پیچھے ہٹنے پر ہی راضی نہیں ہے، بلکہ وہ مغرب سے اس بات کی قانونی گارنٹی بھی چاہتا ہے کہ یوکرین کو ناٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
اب روس اور یوکرین کے جھگڑے نے باقی دنیا کو بھی دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک طرف یوکرین کی حمایت میں امریکہ اور ناٹو اتحاد ہے، تو دوسری طرف روس کی ہی طرح جمہوریت کا مخالف چین کھل کر اس کا ساتھ نبھا رہا ہے۔ جرمنی، برطانیہ جیسے ممالک اپنی توانائی کے معاملہ میں روس پر انحصار کی وجہ سے اس تعلق سے فی الحال اپنے پتّے نہیں کھول رہے ہیں۔ ہندوستان نے بھی طویل غوروفکر کے بعد جمعہ کو جاری اپنے پہلے سرکاری بیان میں پرامن حل کی اپیل کرکے نہ تو روس کی حمایت کی ہے اور نہ ہی امریکہ یا اس کے ساتھیوں کی۔ حالاں کہ سال 2014کے معاملہ پر اس وقت کی حکومت نے یوکرین اور کریمیا میں منطقی مفاد وابستہ ہونے کی دلیل دے کر روس کی حمایت کی تھی جس پر پوتن نے ہندوستان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ درمیان کا راستہ اپنانے کی مجبوری ہندوستان کے اپنے منطقی مفاد سے وابستہ ہے۔ ظاہری طور پر آج کے حالات 2014سے کافی مختلف ہیں اور ہندوستان کے سامنے اب صرف روس ہی نہیں، امریکہ کے ساتھ بھی تال میل بیٹھانے کا چیلنج ہے۔ فوجی اور کاروباری وجوہات کے ساتھ ہی اس میں جغرافیائی سیاسی مساوات قائم کرنے کی ناگزیریت بھی شامل ہے۔
روس پر کسی طرح کی پابندی سے تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اچھال ہندوستان کا سردرد بڑھائے گا، لیکن ہندوستان کی تشویشات اس سے کہیں زیادہ اور بڑی ہیں۔ ہندوستان اپنی فوجی ضرورتوں کا 60فیصد سے زیادہ سامان روس سے خریدتا ہے۔ اب امریکہ بھی ہمارا اہم فوجی شراکت دار بن چکا ہے۔ امریکی جاسوسی طیارے جہاں ہمارے لیے چینی سرحد کی نگرانی کے لیے ضروری ہیں، وہیں کئی خفیہ معلومات کے لیے امریکی فوجی پلیٹ فارم بھی ہمارے کام آتے ہیں۔ وہیں چینی سرحد پر تعینات 50ہزار سے زیادہ جوانوں کے گرم کپڑوں کی سپلائی ہمارے یوروپی فوجی شراکت داروں سے ہوتی ہے۔ ایسے میں فی الحال ہندوستان کے لیے گروہ بندی سے عدم دلچسپی میں ہی سمجھداری نظرآتی ہے۔ ہاں، آنے والے وقت میں روس کا رُخ ہندوستان کو لے کر کیا رہتا ہے، یہ ضرور دیکھنے والی بات ہوگی۔
اُدھر روس کو بھی ہندوستان کا ساتھ تو چاہیے، لیکن شاید اس بار وہ چین کے ساتھ کے لیے ہندوستانی مفادات کو نظرانداز کرسکتا ہے۔روس کے پاس اس کی وجہ بھی ہے۔ اگر آگے چل کر کشیدگی کسی فوجی مداخلت میں بدلتی ہے تو اس بات کے بہت امکانات ہیں کہ امریکہ کی قیادت میں کئی مغربی ممالک اور بین الاقوامی ادارے روس پر پابندی عائد کرسکتے ہیں اور بحران کے اس دور میں چین اس کا ’کھیون ہار‘ بن سکتا ہے۔
ویسے بھی چین اور روس کے تعلقات اس وقت گزشتہ سات دہائی کے سب سے سنہرے دور سے گزر رہے ہیں۔ حال ہی میں جن پنگ اپنے روسی ہم منصب پوتن کو چین کا سب سے اچھا دوست بتاچکے ہیں۔ دفاعی شعبہ میں ہی نہیں، دونوں ملک ڈپلومیٹک اور معاشی طور پر بھی نزدیک آرہے ہیں۔ چین کو ہتھیار اور ایندھن سپلائی کرنے کے ساتھ ہی روس نے وہاں توانائی کے شعبہ میں بھی کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ وہیں چین روس کا اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ لبرل جمہوری نظریہ کے خلاف جارحانہ رُخ اور توسیع پسندانہ سوچ نے بھی چین اور روس کو قریب لادیا ہے۔ آج چین کی ہی طرح روس بھی کیلی ننگراد، ٹرانس نسٹریا، جارجیا، آرمینیا، چیچنیا جیسے ممالک میں اپنی فوجیں تعینات کیے بیٹھا ہے۔ یوکرین معاملہ میں بھی روس کی حمایت میں ناٹو اتحاد پر نشانہ لگانے والا پہلا ملک چین ہی تھا۔ علاقائی سیکورٹی کی گارنٹی کے لیے فوجی اتحاد کی توسیع پر سوال اٹھاکر چین نے ایک طرف یوکرین کے ناٹو میں شامل ہونے کے مطالبہ کو علاقائی سیکورٹی کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے روس کو خوش کیا، وہیں اسی بہانے ’کواڈ‘ کی اخلاقیات پر سوال اٹھاکر ہندوستان اور امریکہ کو گھیرنے کے اپنے مفاد کی تکمیل بھی کی ہے۔
اس سب کے درمیان امریکی صدر جو بائیڈن کا فروری میں یوکرین پر روسی کارروائی کے ’واضح امکان‘ والا بیان دو لحاظ سے خطرناک کہا جاسکتا ہے۔ پہلا خطرہ تو اس بیان کے سچ ثابت ہونے کا ہی ہے۔ دوسرا اگر یہ بیان امکان ہی بن کر رہ جاتا ہے تو بھی اس میں پوشیدہ عدم اعتماد دنیا کے لیے واضح طور پر ایک برا اشارہ ہے۔حالیہ بین الاقوامی کشیدگی کے درمیان مسلسل فوجی اور معاشی طاقت میں اضافہ کررہے روس اور چین کے بیچ جس طرح تال میل بڑھ رہا ہے، وہ پھر سے ایک نئی سردجنگ کی بنیادی رکھتا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں کیا یہ کہنا جلدبازی تو نہیں ہوگی کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کے غیریقینی خدشہ اور تباہی کے ناپسندیدہ خوف میں جینے کے لیے مجبور ہونے جارہی ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS