1980 کی دہائی کی عالمی تحریکیں اور یوگو سلاویہ

0

میخائل گوربا چوف کے زمانے میں سوویت یونین کے زوال اور 14آزاد ریاستوں میں منتشر ہونے کے بعد کمیونسٹ بلاک کے کئی ملکوں میں اس طرح کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی ان ملکوں میں اس زمانے کے مشہور عالمی لیڈر جوزف پروز ٹیٹو کی قیادت والا یوگو سلاویہ بھی تھا۔ ٹیٹو کی موت کے بعد یوگو سلاویہ میں مختلف نسلوں اور عقائد کے عوام نے خود مختاری کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا جن کو ٹیٹو نے اپنے خاص طور طریقوں سے ’متحد‘ کیا تھا۔ خیال رہے کہ سوویت یونین اور اس کے حلیف ملکوں کے بکھرنے کے پیچھے 1980 کی دہائی کا اقتصادی بحران تھا جس نے زور زبردستی اور طاقت کی بنیاد پر متحد کیے گئے ممالک کے نظام کی چولیں ہلادیں۔ بہرکیف یوگو سلاویہ کا پورا نام Socialist Federal Republic of Yogslavia تھا جو 6علاقوں پر مشتمل تھا۔یہ 6ملکوں کی جمہوریت تھی جو بوسنیا اور ہنرگیونیا،کروشیا، میسیڈونیا، مونٹیگروں، سربیا اور سلوینیا تھے۔ بعد میں سیریا دو اور خطے ووجوڈینیا اور کوسوو تھے۔ خیال رہے اس وقت کے عالمی سطح پر معرض وجود میں آنے والی انقلابی تحریکوں نے یوروپ و ایشیا کا نقشہ بدل دیا تھا اور پچھلے دنوں مسلم ملکوں میں جو جمہوری تحریکیں پیدا ہوئیں 1990کی دہائی کے انقلاب کے کسی احد تک عکس تھیں۔یہ ممالک اس زمانے میں پیدا ہونے والی بے چینی کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔ و جرمنیوں کے درمیان کی دیوار کا منہدم ہونا اور جرمنی کا اتحاد تاریخ کے اہم ترین ادوار تھے۔اب روس کے صدر ولادیمیر پتن فیڈریشن کو متحد کرکے اور دیگر کمیونسٹ ملکوں کو متحد کرنے اور اپنے ساتھ لانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور وہ جس طریقہ اور منصوبہ بندی سے چل رہے ہیں، اس میں وہ ابھی تک کافی کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔ گزشتہ صفحات میںقارئین کی توجہ یوکرین (یوکرین بھی سوویت یونین کاحصہ تھا) کے علاقے کریمیا کے تاتار مسلمانوں کی طرف دلائی گئی تھی۔ 2014میں روس نے طاقت کے زور پر کریمیا پر قبضہ کرلیا تھا اور اس انتہائی حساس اور فوجی وعسکری اہمیت کے حامل جزیرہ نما کریمیا پر بالادستی حاصل کرنے کے بعد روس نے اب یوکرین پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ان صفحات میں یہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ کس طرح روس قزاخستان میں حکمراں گروہ کی فوج کے ذریعہ مدد کرکے جمہوری تحریکوں کو کچلنے میں مدد کررہا ہے۔ روس نے یہی وطیرہ بیلاروس میں اختیار کیا۔روس اب یوگو سلاویہ کی منتشر فیڈریشن کو متحدکرنے کی غرض سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ناٹو اور دیگر ممالک روس کی پشت پناہی والی سربیائی جارحیت کو کس طرح روکتے ہیں۔یوگو سلاویہ سے ٹوٹ کر آزاد وخود مختار ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد مسلم عقائد والے افراد کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی یوروپ کے کئی خطوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے، ان میں سلاوک مسلم، بوسنیا، ہرزگوینا، البانیہ، کوسوو، مونٹیگرو، بلغاریہ، سربیا اور شمالی میسیڈونیا شامل ہیں۔
1992کے بعد تقریباً 3سال تک بوسنیا میں خانہ جنگی چلی اور ٹیٹو کے زمانے میں جو علاقے یوگو سلاویہ کے تحت متحد ہوگئے تھے بکھرنے لگے اور بوسنیا کی نسل پرست سرکار نے کروشیائی اور بوسنیائی لوگوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا اور اس کے بعد امریکہ کی قیادت میں ناٹو نے فوجی کارروائی کرکے اس قتل عام کو روکا۔ آج سربیائی فوج اپنی طاقت کو بڑھا کر 1990کی دہائی کے واقعات کو دہرانے اور یوگو سلاویہ کو متحد کرنے کی کوشش میں ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS