زین شمسی
اچھے دن کی ’وندے بھارت‘ بدستور مست چالوں کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری کی پٹریوں پر رواں دواں ہے۔ عوام پرسکون، خاموش اور پرامن ہیں۔ ہندوستان مسلسل اپنی گرتی ہوئی جی ڈی پی کے ساتھ وشو گرو بننے کی جانب گامزن ہے۔ سیاست اپنے اس رنگ میں رقصاں ہے کہ تالیاں اور گھنٹیاں کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ سیاست کے اس ہزار رنگ کو دیکھنے کے لئے بھارت کے لوگ اتنے بے چین تھے کہ اب ان کی دلی مرادیں پوری ہو چکی ہیں۔ انتخابات جیسے روایتی سسٹم سے اوپر اٹھ کر جس طرح سرکاریں بدلتی ہیں، اس سے یہ سمجھنے میں کسی طرح کی پریشانی نہیں ہونی چاہئے کہ عوام اب صحیح معنوں میں خود کو عوام سمجھنے لگے ہیں۔باوجود اس کے ہندوستان کی ڈیموکریسی مضبوط سے مضبوط ہو رہی ہے اور گھر گھر ترنگابھارت کے جاہ و جلال کی قسمیں کھاتادکھائی دے رہا ہے۔
سیاست کے سامنے سماج کی خود سپردگی نے یہ طے کر دیا ہے کہ جس کا کوئی نہیں اس کا تو خدا ہے یارو…ایسے بہترین حالات،شاندار ماحول اوربے انتہاشادمانی کے دور میں جو بھارت میں ہورہی ناانصافیوں اور متعصبانہ رویوں کی بات کرتا ہے وہ یقینا ملک کی مخالفت میں اپنی بھڑاس نکالتا ہے۔
کبھی اسی ہندوستان میں ’نربھیا‘ کی اجتماعی عصمت دری کے خلاف انڈیا گیٹ میں مشعلوں کی قطار نے انصاف کو اس بات پر مجبور کر دیا تھا کہ مجرمین کو پھانسی پر لٹکایا جائے اور وہ لٹکائے گئے، کیونکہ عصمت دری کرنے والے سماج کے دشمن تھے اور اس پر طرہ یہ کہ دلت اور غریب بھی تھے، لیکن اب سنسکار کا زمانہ ہے۔ اسی لئے ہر اس سنسکاری مجرمین کو جیل سے رہا کیا جا رہا ہے جنہوں نے عصمت دری بھی سنسکار کے دائرے میں کی۔ پہلے بلقیس بانو کے تمام رشتہ داروں کوختم کر دیا اس کی بچی کو بھی مار دیا، اس کے بعد اس کی عصمت دری کی گئی کیونکہ ان کے اس ہوسناک عمل کو دیکھ کر ان کے اپنے پریشان نہ ہو جائیں۔ وہ 6ماہ کی حاملہ تھی، اس لئے دھیان رکھا گیا کہ پیٹ میں پلنے والے بچے کی ماں کی موت نہ ہو سکے۔ ریپسٹ سے اس سے زیادہ سنسکار کی کوئی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ نربھیا کی عصمت لوٹنے والوں نے تو اس کی شرمگاہ میں راڈ تک داخل کر کے اپنے غیر سنسکاری ہونے کا ثبوت دیا تھا، لیکن بلقیس کے ’سنسکاری ریپسٹ‘نے تو ایسا کچھ نہیں کیا تھا، پھر انہیں تاحیات جیل میں کیوں رکھا جائے؟ سو ان کی رہائی یقینی بنائی گئی۔ ظاہر ہے کہ سنسکار سے ہی سنسار ہے۔
صرف سنسکار کہنے یا سنسکاری رہنے سے ہی کام نہیں چلتا۔سنسکار کا ٹسٹ بھی لیا جانا چاہئے تو ہماری سنسکاری حکومت نے گوا،مدھیہ پر دیش، راجستھان، جھارکھنڈ، کے ودھائکوں کا ٹسٹ لینے کا سلسلہ شروع کیا۔کچھ دن پہلے مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کے سنسکار کاٹسٹ لیا وہ فیل ہوگئے۔بہار میں سنسکار ٹسٹ لینے والے خود ہی فیل ہوگئے، لیکن وہ حکومت ہی کیا، جو فیل ہو جانے کے بعد خاموشی سے بیٹھے تو اس نے دہلی کے سسودیا کو ’شندے‘ بنانے کی کوشش کی۔6ممبران اسمبلی کے سنسکار کی قیمت 20-20کروڑ لگائی گئی اور اگر ان میں سے کوئی کسی اور کو اس ٹسٹ کے لئے تیار کرتا ہے تو اسے 25کروڑ دینے کی سفارش کی گئی۔ بس کیا تھابھارت کے سب سے غیر سنسکاری اور عوام کو بجلی، پانی، تعلیم مفت میں دے کر’مفت خور‘بنانے والے غیر معیاری سیاستداں کو غصہ آگیا اور وہ میڈیا کے پاس چلے گئے۔ دیکھئے کیا کہا جا رہا ہے کہ اگر تم سنسکاری پارٹی میں نہیں آئے تو سسودیا کی طرح ای ڈی او ر سی بی آئی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہو۔
اگر کوئی پوچھے کہ سیاست کسے کہتے ہیں تو اس کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ وہی سیاست سب سے اچھی ہوتی ہے کہ جس میں عوام کو اس طرح بے وقوف بنایا جائے کہ آخردم تک عوام اپنے آپ کو عقلمند ہی سمجھے۔ ان آنکھوں نے ایسی سیاست بھی دیکھ لی کہ جس میں عوام پہلے سے ہی سمجھ لیں کہ سیاست ان کے ساتھ کیا کرنے والی ہے اور اسے برداشت کرنے کی دلیل بھی اپنے ساتھ رکھے۔ بہار حکومت کے الٹ پھیر کے فوراً بعد ہی ملک کے تقریباً سبھی لوگ یہ جانتے تھے کہ ای ڈی اور سی بی آئی بہار کی طرف سفر کرنے کے لئے اپنا بیگ پیک کر رہی ہوگی۔ پرانے زمانے میں جب کوئی دبنگ مکھیا یا سرپنچ چناؤ ہار جاتا تھا تو اپنے لٹھیتوں کو جیتنے والے لوگوں کو سبق سکھانے کے لیے بھیج دیا کرتا تھا۔ آج چونکہ سنسکار کا زمانہ ہے تواس کا نام ای ڈی اور سی بی آئی رکھ دیا گیا ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ صرف ہماری سرکار ہی نہیں۔ سرکار سے وابستہ یا سرکار سے بلاواسطہ جڑے ہوئے لوگ بھی سنسکاری ہو چکے ہیں۔میڈیا کی سنسکاری بہوئیں اور داماد کا سنسکار دیکھئے تودل بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔کبھی تو یہ سنسکاری میڈیا والے ٹی وی اسکرین پر بھارت کا سنسکاری نرتیہ، کتھک، کچی پوڈی اور بھارت ناٹیم بھی کرنے لگتے ہیں۔ آج کے دور میں کسی بھی غیر سنسکاری شعبہ اور افراد کے خلاف ٹی وی میڈیا کا سنسکار دیکھتے ہی بنتاہے۔ذرا سا کوئی بھی سنسکار کو بھولا کہ فوراً اسے اڈانی کے حوالے کر دیا جاتاہے۔ ایک زیرو ٹی آر پی والا این ڈی ٹی وی کا غیر سنسکاری اینکر بہت دنوں سے بھارت کے وشو گرو بننے سے پریشان تھا۔ اپنے پرائم ٹائم میں کبھی بے روزگاری کا رونا روتا، تو کبھی مہنگائی کا، کبھی بدعنوانی کا اور حد تو وہ تب کر دیتا کہ جب کسی کی لنچنگ کوئی سنسکاری جماعت کرتی تو وہ اس کے سنسکار کے خلاف ہوجاتا۔ اب ایسے اینکر کو تو سبق سکھانا لازمی ہے۔اب اڈانی صاحب کی بات مانئے یا پرسون باجپئی،اجیت انجم اور دیگرغیر سنسکاری صحافیوں کی طرح یوٹیوب پر چلایئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کے انگنے آپ کا کیا کام…
سنسار کو سب سے زیادہ سنسکار کی ضرورت ہے۔ اس لئے سیاست کا کام ہے کہ وہ پورے سماج کو سنسکاری بنائے۔جو سنسکاری نہ بنے اسے فوراً سبق سکھائے۔اس کے لئے کرنی سینا، گؤ رکشک، یوا واہنی، اینٹی رومیو اسکوائڈ، جیسے سینکڑوں ’تعلیم یافتہ‘ نوجوانوں کی ٹیم آل ریڈی بنا دی گئی ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بازار کی منڈیوں میں بھی ایک ٹیم اس بات کی نگرانی کرے کہ کوئی سبزی لیتے ہوئے اگر یہ کہتا ہوا سنائی دے کہ ٹنڈا اتنا مہنگا کیوں ہے؟تو اس پر فوری کارروائی ہو تاکہ ٹنڈا کا سنسکار دائم و قائم رہے۔ حتیٰ کہ طلبا کے سرٹیفکیٹ میں بھی کنڈیشن اپلائی کی طرح اسٹار بنا کر یہ جملہ لکھ دیا جائے کہ اس سرٹیفکیٹ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ آپ کو نوکری ملے گی ہی۔کیونکہ نوکری کا سنسکار بھی بچا رہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]