عبدالماجد نظامی
نکہت زرین ترکی کے شہر استنبول میں تھائی لینڈ کی اولمپئن باکسر جتپونگ جُتاماس کو5-0سے شکست دے کر جس وقت گولڈ میڈل جیت رہی تھیں، اس وقت انہیں یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے درج کروا رہی ہیں۔ باکسنگ کی دنیا میں ہندوستان کا نام آئندہ جب بھی لیا جائے گا اور ان باکمال خواتین کی فہرست تیار کی جائے گی جنہوں نے اس ملک کو عالمی سطح پر عزت اور وقار سے سرفراز کیا تو وہ فہرست نکہت زرین کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔ نظام آباد سے تعلق رکھنے والی پچیس سالہ نکہت زرین نے باکسنگ کی دنیا میں اس بلندی کو چھو لیا ہے جہاں تک پہنچنا اکثریت کے لیے بس ایک خواب ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن جس مضبوط قوت ارادی اور مقصدیت کے ساتھ انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا تھا، اس کی بناء پر آج انہیں ہندوستان کی محض ان پانچ خواتین کی فہرست میں شامل ہونے کا امتیاز حاصل ہوگیا ہے جنہوں نے عالمی باکسنگ چمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیت کر اپنے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ نکہت زرین کے لیے یہ سفر بہت مشکل اور چیلنجوں سے پُر تھا لیکن انہوں نے ان چیلنجز کو کبھی اپنے راستہ اور حصول مقصد میں رکاوٹ نہیں بننے دیا بلکہ مشکل راستہ چن کر منزل تک پہنچنے کی جو ضدی فطرت انہیں بچپن سے حاصل ہوئی تھی، اس کی وجہ سے ہی اس بلندی کو سر کرنے میں بھی انہیں مدد ملی۔ نکہت کو اپنی زندگی میں چیلنجز کو قبول کرنے کا پہلا سبق خود ان کے والد محمد جمیل سے ملا جو خود کھیل کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ باکسنگ سے قبل بھی ان کا رجحان اسپورٹس میں تھا اور اتھلیٹیکس سے وابستہ تھیں۔ چونکہ ٹریننگ کے لیے باضابطہ طور پر کوئی نظم نہیں تھا اور نہ ہی کوچ مہیا ہوتے تھے، اس لیے وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ کلکٹر گراؤنڈ جایا کرتی تھیں جہاں کئی قسم کے مقابلہ جاتی کھیلوں کی ٹریننگ چلتی رہتی تھی۔ نکہت زرین کہتی ہیں کہ اس میدان پر انہوں نے دیکھا کہ ہر کھیل میں لڑکیاں حصہ لیتی ہیں لیکن باکسنگ میں لڑکیاں ندارد ہیں۔ حساس طبیعت والی نکہت زرین نے اپنے والد سے یہ پوچھا کہ آخر کیا بات ہے کہ ہر کھیل میں لڑکیاں نظر آرہی ہیں لیکن باکسنگ رنگ میں کوئی لڑکی داخل نہیں ہورہی ہے؟ کیا صرف لڑکے ہی باکسنگ کرسکتے ہیں؟ ان کے والد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’نہیں بیٹا، لڑکیاں بھی باکسنگ کر سکتی ہیں۔ لیکن لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں میں باکسنگ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اپنی بچیوں کو باکسنگ کے لیے نہیں بھیجتے ہیں۔‘‘نکہت کے ذہن و دماغ پر اس جواب کا گہرا اثر پڑا۔ ان کے والد کا یہ جواب ان کے سامنے ایک چیلنج بن کر کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے دل ہی دل میں سوچنا شروع کیا کہ آخر ایسی کیا بات ہے کہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں اتنی طاقتور نہیں ہوتیں کہ باکسنگ جیسے کھیل کو اپنے کریئر کا حصہ بنا سکیں؟ اور اسی وجہ سے انہوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ باکسنگ کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ بچپن سے ہی مجھے خطروں سے کھیلنے کا شوق تھا، اس لیے میں نے اس کھیل کو بھی ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرلیا جبکہ انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ مستقبل اپنے آغوش میں ان کے لیے کیا کچھ رکھے ہوئے ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمت کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی، اس لیے نکہت زرین کی محنت ضائع نہیں ہوئی۔ عالمی سطح پر ملک کا جھنڈا لہرانے کا پہلا موقع بھی اتفاق سے انہیں ترکی میں ہی نصیب ہوا تھا جب انہوں نے 2011میں جونیئر سطح پر گولڈ کا خطاب اپنے نام کیا تھا۔ جیت کا وہ لمحہ ان کے لیے بطور خاص اس لیے اہم ہے کیونکہ اس اسٹیج پر ساری دنیا انہیں کھڑی ہوکر شاباشی دے رہی تھی اور ہندوستان کا قومی نغمہ بج رہا تھا۔ ایسا لمحہ کسی بھی ہندوستانی کے لیے یادگار رہ سکتا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے ملک کو اس کے اچھے کارناموں کی وجہ سے یاد کیا جائے۔ اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے کئی خطاب جیتے جن میں گولڈ میڈلس شامل ہیں لیکن 2022یہ عالمی گولڈ میڈل وہ پہلا خطاب ہے جس نے نکہت زرین کا مقام طے کرنے میں بڑا کردار نبھایا ہے۔ اب تک وہ میری کوم جیسی عالمی باکسنگ چمپئن کی شہرت و بلندی کے سایہ سے باہر نہیں نکل پائی تھیں لیکن اب معاملہ کی نوعیت بدل گئی ہے۔ میری کوم کو اپنا آئیڈیل ماننے والی نکہت زرین کے لیے یہ سفر اس لحاظ سے بھی آسان نہیں رہا ہے کہ2016 میں ٹوکیو اولمپک کے لیے جب ٹرائل چل رہا تھا اور نکہت نے یہ درخواست کی تھی کہ52کلو کے زمرہ میں کوالیفائی کرنے کے لیے انہیں بھی اپنی قسمت آزمانے کا موقع دیا جائے، میری کوم کے ساتھ مقابلہ ہو تو اسی میری کوم نے اس بات کو انا کا ایسا مسئلہ بنادیا تھا کہ کوالیفائنگ ٹرائل کے بعد، جس میں میری کوم کامیاب رہی تھیں، غصہ کے مارے ہاتھ تک نہیں ملایا تھا اور میڈیا سے گفتگو کے دوران نکہت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کون ہے؟ میں تو اسے جانتی تک نہیں۔ نکہت زرین کو اس بات کا سخت ملال ہوا تھا لیکن انہوں نے اپنی ذہنی و اخلاقی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا تھا۔ انہیں شاید اندازہ تھا کہ جس بڑے مقصد کی خاطر وہ شب و روز عرق ریزی کر رہی ہیں، اس کے لیے ایسی مشکلات کا سامنا کرنا لازمی حصہ ہوگا۔ ایسے مسائل ان کی زندگی میں کوئی پہلی بار رونما نہیں ہو رہے تھے۔ ابتدائی مرحلہ میں نکہت زرین کی والدہ خود سماج کے بنائے ہوئے فکری ہالہ کی بناء پر اس بات سے پریشان رہتی تھیں کہ اگر اس کھیل میں چہرہ کا حسن بگڑ گیا تو شادی کے رشتے کہاں سے ملیں گے؟ نکہت نے اس موقع پر بھی اپنی ماں کو جو جواب دیا تھا، اس سے ان کی فکری قوت اور عزم و حوصلہ کی بلندی کا ثبوت ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ جب وہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گی تو دولہوں کی قطار لگ جائے گی۔ ان کی والدہ کے ذہن میں پیدا ہونے والا یہ خدشہ کوئی معمولی نہیں تھا۔ اس فکر نے نہ جانے کتنی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیا ہے اور کتنی ہی تمناؤں کی قربانیاں آج بھی ہندوستان کے طول و عرض میں دی جاتی ہیں۔ نکہت زرین کی زندگی ان تمام لڑکیوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے جو اپنی زندگی میں کچھ بڑا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں لیکن سماج کے بُنے ہوئے دقیانوسی جال سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہ رکھنے کی وجہ سے گمنامی کے دلدل میں دھنس کر ختم ہوجاتی ہیں۔ انہیں نکہت زرین سے یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ جب ان کی زندگی میں بھی کوئی میری کوم انہیں نیچا دکھانے یا بے حیثیت ثابت کرنے کی کوشش کرے اور نفسیاتی اعتبار سے انہیں شکست دینا چاہے تو اس سے انتقام لینے کے بجائے اپنے مقصد کی خاطر جوش عمل میں مزید اضافہ کرلیں تاکہ ایک ایسا وقت آئے جب ان کے حریف یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ انہیں ان پر فخر ہے جیسا کہ میری کوم نے ٹوئٹ کرکے نکہت زرین کے تئیں اپنے اس جذبہ کا اظہار کیا۔ آج نکہت زرین وہ مضبوط آواز ہیں جس نے پردہ کے مسئلہ پر بھی اپنی فکری پختگی کا ثبوت دیا ہے اور اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ اس مسئلہ کو عورتوں کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جسے جو لباس پسند ہو اسے وہ پہننے کا حق دیا جانا چاہیے۔ یہ بیان کرناٹک حجاب معاملہ کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ نکہت زرین نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس ملک میں اگر مسلم اقلیت کو دستوری حقوق فراہم کیے جائیں اور مساوات کا سلوک ان کے ساتھ روا رکھا جائے تو مسلم کمیونٹی اس ملک کے دیگر تمام طبقات کی طرح ویسے ہی اس ملک کو بلندی پر پہنچانے کا ہنر رکھتی ہے جیسا کہ ماضی میں بے شمار مسلم ہیروز نے اپنے کارناموں سے دنیا کے نقشہ پر ہندوستان کو امتیازی مقام دلوایا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سُلی ڈیلس جیسی ذلیل حرکت سے مسلم بچیوں اور عورتوں کے وقار کو مجروح نہ کیا جائے اور نہ ہی پردہ کو مسئلہ بناکر انہیں تعلیم و ترقی سے روکا جائے۔ ملک کے حق میں یہی مفید ہوگا کہ انہیں پوری آزادی کے ساتھ اپنی تمناؤں کو پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس ملک میں نکہت زرین جیسی مثالیں گھر گھر میں دیکھنے کو ملیں گی اور صحیح معنوں میں ہندوستان وشو گرو بن جائے گا ورنہ صرف آرزوؤں سے منزل کبھی طے نہیں ہوتی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]