کلیم الحفیظ
خواتین سماج کا نصف حصہ ہیں،کسی بھی سماج اور قوم کی ترقی اور خوشحالی میں خواتین کا اہم رول ہے لیکن خواتین کے تعلق سے ہمیشہ بے توجہی برتی گئی ہے۔برصغیر کی امت مسلمہ نے بھی اس سلسلے میں کوئی خاص رول ادا نہیں کیا بلکہ موجودہ زمانے میں تودنیا نے خواتین کی پسماندگی کی ذمہ داری امت مسلمہ اور اسلام پر ڈال دی ہے۔قطع نظر اس سے کہ دنیا کے الزامات کتنے سچے اور کتنے جھوٹے ہیں ہمیں اپنے سماج اور معاشرے کا جائزہ لینا ہی چاہیے اور نصف انسانیت کو مفید تر بنانے کی منصوبہ بندی کرنی ہی چاہیے۔ اسلام نے خواتین کو معاشرے میں جو مقام دیا ہے اور تعمیر انسانیت میں اس کا جو بنیادی کردار طے کیا ہے، اس کے مقابلے پر آج نہ کسی آسمانی دین اور نہ آج کی تہذیب نے عورت کوکوئی مقام دیا ہے۔لیکن برا ہو جہالت کا کہ خود اسلام کے علمبردار ہی عورت کے مقام بلند کو بھول گئے۔ کاش مسلمان خواتین کے تعلق سے ہی اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں تو باقی خواتین کے لیے بھی اسلام کے دامن رحمت میں آنے کا راستہ ہموار ہوجائے۔
عورت کے جتنے بھی روپ ہیں وہ قابل احترام ہیں۔ منکوحہ ہونے کی صورت میں اس کے شوہر پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں، وہ اسے گھر کی ملکہ بنادیتے ہیں۔ماں ہونے کی صورت میں تو بہشت اس کے قدموں میں سماجاتی ہے۔بیٹی ہونے کی صورت میں والدین کے لیے جنت کا سرٹیفکیٹ ہوتی ہے۔بہن ہونے کی شکل میں بھائی کے لیے ایک ایسا دلار ہوتی ہے جسے بھائی بہن ہی سمجھ سکتے ہیں اور اس دلار کی کمی کی تکلیف کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو بہن جیسی انمول نعمت سے محروم ہیں۔اسلام نے عورت کو زندہ رہنے،تعلیم حاصل کرنے،اپنی پسند کی شادی کرنے،کاروبار کرنے،سرکاری خدمات میں حسب حیثیت ملک کی خدمت کرنے، ضرورت پڑنے پر ہتھیار اٹھانے، اپنی اور اپنے وطن کی حفاظت کرنے تک کی آزادی سے نوازا ہے۔ اب یہ ذمہ داری سماج کے مردوں کی ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں اور وہ ذرائع وجود میں لائیں کہ عورت اپنی آزادی و اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرسکے۔
خواتین کے اندر صلاحیتیں بھی کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں ہوتیں۔ طاقت و قوت کے معاملے میں بھی اگر خواتین کو موقع ملا ہے تو انھوں نے مردوں کے شانہ بشانہ پتھر بھی اٹھائے ہیں اور جنگیں بھی لڑی ہیں۔لیکن عام طور پر جسمانی ساخت میں عورت مردوں کے مقابلے کچھ کمزورہی واقع ہوئی ہے ورنہ عقل و شعور کی جملہ صلاحیتیں مردوں کی طرح اسے بھی عطا کی گئی ہیں۔اس کا ثبوت ہر زمانے کی خواتین نے دیا ہے۔ حافظ قرآن، عالمات،معلّمات کے زمرے میں خواتین نے ہر زمانے میں مردوں کے برابر کامیابی حاصل کی ہے۔ جدید علوم کے میدان میں بھی ڈاکٹرس، انجینئرس، سائنٹسٹ یہاں تک کہ ہوائی جہاز اڑانے کے فنون میں خواتین آج بھی موجود ہیں،مگر وہ اپنی تعداد کی مناسبت سے بہت کم ہیں۔خلوص اور لگن کے باب میں تو خواتین مردوں سے کہیں آگے ہیں۔لڑکیوں کا رزلٹ لڑکوں سے اکثر بہتر ہی سامنے آیا ہے۔
خواتین کی پسماندگی کا بڑا سبب حکومتوں کی جانب سے ان کی تعداد و آبادی کے مطابق سہولیات کا فقدان ہے۔ جس تعداد میں لڑکوں کے اسکول کالج ہیں،لڑکیوں کے نہیں ہیں۔مخلوط تعلیمی اداروں میں لڑکوں کی طرف سے جو بدتمیزیاں ہوتی ہیں، اس کے سد باب کا بھی کوئی نظم نہیں ہے۔شہروں میں اگر کوئی گرلز اسکول ہے بھی تو دیہات کی لڑکیوں کو آمدورفت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔زنا بالجبر کے آئے دن ہونے والے واقعات لڑکیوں کو گھر میں قید ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔انسانی درندے نابالغ اور معصوم بچیوں تک کو نہیں چھوڑتے،عصمت دری کاخوف بچیوں کی تمنائوں کا خون کردیتا ہے،ان کی صلاحیتوں سے سماج کو محروم کردیتا ہے۔نظم و قانون کی موجودہ صورت حال میں سول ڈیفنس تک میں کام کرنے والی لڑکی کی عزت اور جان محفوظ نہیں ہے، ایسے میں عام لڑکیاں کس طرح ہمت کرسکتی ہیں۔مخلوط تعلیم کے حامیوں نے مساوات کے نام پر لڑکیوں کو لڑکوں کی ہوس کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے کوئی لائحۂ عمل نہیں بنایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف گرلز کالجوں کی تعداد کم ہوگئی اور مخلوط اداروں میں تعلیم کے بجائے شیریں و فرہاد کے کردار جنم لینے لگے۔مسلم سماج ہی نہیں ہر باعزت شہری کو سب سے پہلے اپنی بچی کی عزت کی حفاظت درکار ہے۔ہم جنس شادیوں اور لیو اِن ریلیشن شپ کو قانونی جواز فراہم ہوجانے کے باوجود ہندوستانی تہذیب نے اس بے حیائی کودھتکار دیا ہے۔
مسلم امت نے بھی بچیوں کی تعلیم کا معقول بندو بست نہیں کیا۔ہر مرد وعورت کے لیے حصول تعلیم کو فرض قرار دینے والے نبی کریمؐ کی امت میں نہ جانے کس نے یہ جہالت پیدا کردی کہ بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا چاہیے۔ امت نے لڑکوں کی تعلیم کے لیے مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کیا لیکن لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی نظم نہیں کیا۔اب کہیں جا کر کچھ ادارے وجود میں آئے لیکن ان کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ہزاروں دارالعلوم لڑکوں کے لیے قائم کیے گئے لیکن لڑکیاں مسجد کے امام اور محلہ کی ملانی تک محدود ہوکر رہ گئیں۔گائوں دیہات کا تو ذکر ہی کیا بڑے بڑے شہر مسلم لڑکیوں کے تعلیمی اداروں سے محروم ہیں۔یہ نعرہ بھی ہمیشہ لگایا جاتا رہا کہ ایک مرد کی تعلیم صرف ایک مرد کی تعلیم ہے جب کہ ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے مگر خواتین کو ہمیشہ دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا گیا۔کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ پہلے لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کیا جائے، لڑکوں کا بعد میں کرلیں گے،ہمیشہ اور ہر جگہ یہی ہوا کہ پہلے لڑکوں کی تعلیم کا انتظام کیا گیا اور لڑکیوں کو ’’پھر کبھی ‘‘ پر چھوڑ دیا گیا۔
ضرورت ہے کہ خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور انھیں سماج کے لیے مفید بنانے کے لیے سرکار بھی منصوبہ بندی کرے اور پرائیویٹ ادارے بھی۔سماجی اور مذہبی تنظیموں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اس جانب خصوصی توجہ دیں۔عورت کی صلاحیتوں سے سماج اور ملک کو مستفید کرنے کے لیے اسے تعلیم اور سازگارماحول کے ساتھ بااختیار بنانے کی بھی ضرورت ہے۔کہنے کو تو سیاسی سطح پر پنچایت اور لوکل باڈیز کے انتخابات میں خواتین کو پچاس فیصد تک ریزرویشن حاصل ہے لیکن خواتین میں تعلیم کی کمی ہونے کے سبب ان کے سیاسی اختیارات بھی مرد ہی استعمال کرتے ہیں خاص طور پر مسلم سماج کی صورت حال سو فیصد یہی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر تعلیم کے تمام شعبہ جات تک خواتین کی بآسانی اور بحفاظت رسائی ہو،غیر سرکاری این جی اوز خاص طور پر دیہات پر توجہ دیں، مذہبی تنظیمیں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا بندوبست کریں۔ باصلاحیت خواتین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کو مستفید کریں۔ ہر تعلیم یافتہ خاتون اپنے علم کے مطابق بستی اور محلہ کی لڑکیوں کو فیضیاب کرے۔تعلیم کی دلدادہ طالبات بھی عزم و ہمت سے کام لیںاور موجود ذرائع و وسائل کے ساتھ ہی آن لائن ایجوکیشن سسٹم سے فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح ہنر مند خواتین اپنے ہنر کا استعمال اپنے گھر کی خوش حالی کے لیے کرسکیں، اس کے مواقع انھیںفراہم کیے جانے چاہئیں۔ مہنگائی کے اس دور میں ہنرمند خواتین کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ جہیز، بارات، شادی اور مرنے جینے کی غیراسلامی اور فضول رسموں کو چھوڑا جائے، تاکہ اس رقم کا استعمال خواتین کی تعلیم و ترقی اور گھر کی خوش حالی پر کیا جاسکے۔معاشرے کے اجتماعی امور میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ درپیش چیلنجز کو سمجھ سکیں اور ان کے مقابلے کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔میں دیکھتا ہوں جتنی بھی سیاسی،سماجی،مذہبی تنظیمیں،جماعتیں اور سنگٹھن ہیں، ان میں خواتین کی شمولیت آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ان کی حیثیت چاول کے ساتھ کم سے کم دال کی توہو۔
[email protected]