این سی بی کی ساکھ

0

آئینی اداروں کے سیاسی استعمال پر ہمیشہ ہی سوال اٹھتے رہے ہیں۔سی بی آئی اور ای ڈی سے لے کر الیکشن کمیشن تک کو حکومت کاآلہ کار کہا جاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ عدالت بھی سی بی آئی کی خودمختاری پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے پنجرے میں بند طوطا قرار دے چکی ہے۔ اب اس صف میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی ) کا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔ کچھ دنوں قبل تک عام لوگ این سی بی کے نام سے بھی ناواقف تھے لیکن 2؍اکتوبر کے بعد سے ہر دوسرے آدمی کی زبان پر این سی بی کانام ہے۔کوئی اس کی کارکردگی کی ستائش کررہا ہے تو کوئی اسے مخالفین کو پریشان کرنے کیلئے حکومت کا آلہ کار بتارہاہے۔
این سی بی مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والا ایک ایسا آئینی ادارہ ہے جو انسداد منشیات سے متعلق قوانین کے نفاذکا ذمہ دار ہے۔ ان قوانین کے نفاذ میں اسے ملزمین کو گرفتار کرنے، ان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے ، ان پر مقدمہ چلانے کا مکمل اختیار ہے۔ 2اکتوبر 2021کو این سی بی نے اپنے اسی فرض کی انجام دہی کے دوران ایک بحری جہازمیں ہورہی پارٹی میں مبینہ طور پر منشیات استعمال کیے جانے کے سلسلے میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا۔ان گرفتار شدگان میں مشہور اداکار شاہ رخ خان کے صاحبزادے آرین خان بھی شامل ہیں۔اس سے قبل بھی این سی بی اس طرح کی کئی ایک گرفتاریاں کرچکی ہے لیکن آرین خان کی گرفتاری کے دو ہفتے بعدبھی انہیں ضمانت نہ ملنے اورا ن کے خلاف فرد جرم بڑھائے جانے کے بعد سے این سی بی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس پورے معاملے میں این سی بی کی کارروائی کو حزب اختلاف تعصب اور سیاسی انتقام بتارہاہے۔آرین خان کی گرفتاری کے بعداگلے دن 3اکتوبر سے ہی این سی بی پر سوالات اٹھنے لگے کیونکہ آرین خان کی گرفتاری کے بعد پتا چلا کہ اس نے نہ تو منشیات کا استعمال کیا اور نہ ہی کسی سے منشیات خریدی۔ پھر بھی اسے قید میں رکھا گیا۔ جب آرین خان کے ساتھ ایک شخص کی سیلفی وائرل ہوئی تو یہ سوال بھی اٹھنے لگے کہ این سی بی کا ملازم اس طرح ملزم کے ساتھ سیلفی کیسے لے سکتا ہے۔ بعد میں اس شخص کی شناخت کرن گوساوی کے طور پر ہوئی اور یہ بھی انکشاف ہوا کہ گوساوی این سی بی کا ملازم نہیں ہے بلکہ پرائیویٹ جاسوس کے طور پر کام کرتا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ این سی بی کی کارروائی میں کوئی باہر کا شخص کیوں شامل ہے؟ اور اسے آرین خان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ سیلفی لینے کی اجازت کس نے دی؟ این سی بی کے زونل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڑے اور ڈی ڈی جی گیانیشور سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان کے گواہ ہیں اور اس کیس میں مزید ایسے گواہوں کی مدد لی گئی ہے۔
کرن گو ساوی جنہیں این سی بی گواہ کہہ رہا تھا،ان کے خلاف جعلسازی اور دھوکہ دہی کے کم از کم 4 معاملے درج ہیں نیز اب وہ کہاں ہیں، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔اس معاملے نے اس وقت دوسری شکل لے لی جب خود کو کرن گوساوی کا محافظ بتاتے ہوئے پربھاکر سیل نام کے ایک شخص نے حلف نامہ داخل کیا۔پربھاکر کا کہنا ہے کہ 2؍اکتوبر کی صبح7.30بجے سے 3 ؍اکتوبر کی شام تک جو کچھ ہوا اس کا وہ عینی شاہد ہے۔ پربھاکر نے اپنے حلف نامہ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ این سی بی اسے بھی اپنے گواہ کرن گوساوی کی طرح غائب کردے گا یا مار ڈالے گا۔اپنے حلف نامہ میں پربھاکر نے بحری جہاز پر این سی بی کی ٹیم کے آنے سے لے کر اگلے دن تک کے تمام واقعات کی جزئیات بیان کی ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح آرین خان کو این سی بی دفتر لایاگیا اور پھر اس سے 10سادہ کاغذ پر دستخط کرائے گئے۔اس حلف نامہ کی سنگین بات 25کروڑ روپے کی لین دین کاذکرہے۔جو 18 کروڑتک پہنچی اور اس میںسے 8 کر وڑ روپے این سی بی کے زونل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڑے کو دینے کی بھی بات ہوئی۔
اس حلف نامہ کی قانونی حیثیت کیا ہے یہ تو ماہرین قانون ہی بتائیں گے لیکن اس حلف نامہ نے کئی سنگین سوال کھڑے کردیے ہیں۔ اس حلف نامہ کے بعد آرین خان کی گرفتاری استعمال منشیات کی بجائے کوئی اور ہی معاملہ محسوس ہونے لگا ہے جس میں این سی بی جیسی ایجنسی ملوث نظرآرہی ہے۔ ہرچند کہ این سی بی اس کی تردید کررہی ہے۔سمیر وانکھیڑے کا کہنا ہے کہ وہ اس کا جواب عدالت میںدیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پربھاکر سیل نے یہ الزامات کیوں لگائے اور وہ بھی عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے ؟ این سی بی کا گواہ پرائیویٹ جاسوس کرن گوساوی کہاں غائب ہوگیا۔ سمیر وانکھیڑے ممبئی پولیس سے یہ کیوں درخواست کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے کی تفتیش نہ کرے۔ایسے کئی ایک سوال ہیں جن کا جواب ملنا ضروری ہے۔ایک ایسی ایجنسی جس کا کام انسداد منشیات ہے، اس پر ایسے سنگین الزامات سے نہ صرف اس کی ساکھ خراب ہوتی ہے بلکہ یہ خدشہ بھی سر ابھارنے لگتا ہے کہ کہیں یہ آئینی تفتیشی ادارہ سیاسی انتقام کا ذریعہ تو نہیں بن رہاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS