نئی دہلی (ایجنسیاں): سپریم کورٹ نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ خواتین کو شادی کی بنیاد پر نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا۔ وہ قوانین جو خاتون ملازمین کو شادی کے حق سے محروم کرنے کی بنیاد بناتے ہیں، وہ غیر آئینی ہیں۔ یہ ایک پدرانہ قاعدہ ہے، جو انسانی وقار کو کمزور کرتا ہے اور منصفانہ سلوک کے حق کو مجروح کرتا ہے۔ عدالت نے مرکز کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ فوجی نرسنگ آفیسر کو 60 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے جسے شادی کی بنیاد پر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ درخواست گزار سالینا جان کے لیے یہ 26 سالہ قانونی جنگ کا خاتمہ ہے۔
اس معاملے میں درخواست گزار کو ملٹری نرسنگ سروسز کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور انہوں نے آرمی اسپتال، دہلی میں بطور ٹرینی شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے این ایم ایس میں لیفٹیننٹ کے طور پر کمیشن حاصل کیا تھا، تاہم بعد میں انہوں نے ایک فوجی افسر میجر ونود راگھون سے شادی کر لی۔ لیفٹیننٹ کے عہدہ پر خدمات انجام دینے کے دوران شادی کرنے کی بنا پر سالینا کو فوج سے فارغ کر دیا گیا۔ متعلقہ حکم نامہ کے ذریعہ کوئی وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنے یا سماعت یا مقدمہ کے دفاع کا موقع دیے بغیر ان کی خدمات ختم کر دی گئیں۔ اس کے علاوہ حکم نامہ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ انہیں شادی کی بنیاد پر برطرف کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انصاف کے دوہرے پیمانہ سے بدامنی اور تباہی کے راستے کھلتے ہیں: مولانا ارشد مدنی
یہ مقدمہ آرمڈ فورسز ٹریبونل، لکھنؤ میں گیا جس نے حکم کو منسوخ کر دیا اور تمام نتیجہ خیز فوائد اور بقایا تنخواہ بھی فراہم کی۔ ٹریبونل نے ان کی سروس میں بحالی کی بھی اجازت دے دی۔ اس کے خلاف مرکز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ابتدائی طور پر عدالت نے کہا کہ یہ قوانین صرف خواتین پر لاگو ہوتے ہیں اور انہیں ’صاف صوابدیدی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اصول صرف خاتون نرسنگ پر لاگو تھا۔ ایسا قاعدہ واضح طور پر صوابدیدی تھا، کیونکہ شادی کی وجہ سے عورت کی ملازمت سے برطرفی صنفی امتیاز اور عدم مساوات کا ایک سنگین معاملہ ہے۔