خواتین اور دستور ہند

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

حالیہ دنوں میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جس میں ایک سادھو کے لباس میں اکثریتی طبقہ کا مذہبی رہنما علی الاعلان پولیس و عوام کی موجودگی میں اقلیتی طبقے کی خواتین کو اغوا کرنے نیز ان کی عصمت دری کے لیے للکار رہاہے جب کہ وہاں موجود پولیس تماش بین کھڑی ہے اور عورتیں بچے سبھی زوردار تالیوں کے ساتھ اس پاکھنڈی مہنت کی تائید کررہے ہیں، ابھی تک وہ پاکھنڈی پولیس اور قانون کی گرفت سے آزاد ہے، سوال یہ بھی کیا جارہا ہے کہ پولیس اور کیمرے کے سامنے اس کو یہ دھمکیاں دینے کی ہمت کہاں سے مل رہی ہے، کیا دستوری ادارے اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے اور ان کے قتل عام نیز عصمت دری کے اعلان کرنے والوں کی پشت پناہی کررہے ہیں؟ ابھی تک کسی بھی بڑے ہندو مذہبی پیشوا، تنظیموں یا دستوری پوزیشن پر براجمان شخصیتوں نے اس طرح کے بیانات کی کوئی تردید نہیں کی ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد 1947میں ہمارا ملک بھارت غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوا، آزادی کے بعد ہمارے قائدین اور دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے جامع دستور کی تدوین و ترتیب تھا جو ہمارے ملک کے تمام شہریوں کے لیے ایک محفوظ و باعزت زندگی جو انسانی اقدار پر مبنی معیار زندگی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکے، خصوصاً ان طبقات کے لیے جن کا صدیوں سے استحصال ہوتارہا ہے جن میں خواتین بطور خاص قابل ذکر ہیں، خواتین کے حقوق کے تحفظ و ہمہ جہتی ترقی کو یقینی بنانا نہ صرف بہت ضروری تھا بلکہ ایک بڑا چیلنج بھی تھا، چنانچہ ایک ایسے جامع دستور کی ترتیب و تدوین عمل میں آئی جس میں نظام جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے، حکومتی اداروں کے طریق کار کے ساتھ ہی دائرۂ کار، اختیارات نیز ذمہ داریوں کا تعین، شہریوں کے لیے بنیادی شہری حقوق کے ساتھ ساتھ رہنما اصول کا باب نیز طرز حکومت کو لے کر دنیا کا سب سے ضخیم دستور تیار کیا گیا جس دستور کو آج سے تقریباً72سال پہلے26نومبر 1949 کو منظوری حاصل ہوئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے ملک میں زمانہ قدیم سے خواتین کو مردوں کے مقابل یکساں درجہ کبھی حاصل نہیں رہا ہے، مذاہب کے ساتھ ساتھ سماجی و تہذہبی بنیادوں پر بھی خواتین کے ساتھ جنس کی بنیاد پر تفریق کا سلوک ہوتا رہا ہے۔ تعلیم کا میدان ہو یا روزگار کا، خواتین کے لیے یکساں مواقع موجود نہیں تھے۔ دستور نے خواتین کو یکساں مواقع و مساوی درجہ فراہم کرنے کی غرض سے متعدد دستوری مراعات و حقوق فراہم کیے ہیں۔ دستور کی مساوی تعلیمات کی آئین کی پریمبل (تمہید) سے شروعات ہوتی ہے جو یہ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ ہم، بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف حاصل کریں گے، تمام ہی شہریوں کے لیے اظہار خیال، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی کے ساتھ تمام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ دستور کے پریمبل نے ہی یہ واضح کردیا کہ ہمارے دستور نیز دستوری حکومت میں تمام شہری چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، تمام ہی شہری دستور کی نگاہ میں یکساں اہمیت و درجہ کے حامل ہوں گے جن کے ساتھ جنس، نسل، زبان، مذہب، رنگ یا علاقہ کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔
دستور کا آرٹیکل14عمومی اصول کے طور پر تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں یکساں ہونے کا یقین دلاتا ہے، یعنی قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے نیز تمام ہی شہریوں کو قانون کا یکساں تحفظ فراہم ہوگا۔ زمانہ قدیم سے ہی عورت کو سماج میں کبھی بھی مرد کے برابر درجہ حاصل نہیں رہا تھا، دستوری برابری کے بعد عورت پر ظلم کرنا مرد کے لیے کم از کم اصولاً اب جائز نہیں رہا اور یہیں سے برابری کی وہ روح ہمارے نظام قانون میں سرایت کرتی ہے جو سماج میں عورت کے خلاف رائج جرائم کو روکنے کے لیے حرکت میں آتی ہے، مثلاً گھریلو تشدد یا جہیز جیسے جرائم کو ختم کرنے کی کوشش تاکہ مرد اور عورت دونوں ہی قانونی طور پر برابر و مستحکم ہوسکیں، کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہو بلکہ قانون کی نظر میں یکساں حیثیت ہو۔
آرٹیکل15 شہریوں کے مساوی اور برابر دستوری حیثیت کو یقینی بناتا ہے۔ آرٹیکل15(1) و(2) کے تحت حکومت یا ریاست کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر کوئی تفریق یا بھیدبھاؤ نہیں کرے گی۔ آرٹیکل15(3) حکومت کے اوپر ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود نیز ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسپیشل تجویز تیار کرے۔ آرٹیکل15(4) کے تحت حکومت کو یہ دستوری ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ سماجی و تعلیمی میدان میں پسماندہ و پچھڑے طبقات کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مخصوص تجویزات تیار کرے۔
آرٹیکل15میں پیش کی گئیں دستوری تجاویز کی روشنی میں خواتین کے تحفظ اور ان کے ساتھ ہونے والے بھید بھاؤ و تفریق کو ختم کرکے، ان کی فلاح و بہبود کی غرض سے کئی اہم قوانین تیار کیے گئے۔
آرٹیکل16تمام شہریوں کو یہ دستوری حق فراہم کرتا ہے کہ حکومت ان کو روزگار کے مواقع نیز حکومتی اداروں میں تقرری کے یکساں مواقع فراہم کرے گا۔
آرٹیکل39کے مطابق حکومت کو مرد و خواتین کے یکساں حقوق کو یقینی بنانے کی سمت میں پالیسی بنانے کا حکم دیا، نیز مرد و خواتین کو یکساں کام کے لیے یکساں اجرت کو یقینی بنانے کی رہنمائی کی۔
آرٹیکل42حکومت کو یہ حکم دیتا ہے کہ میٹرنیٹی ریلیف و منصفانہ پالیسی کو یقینی بنائے، یہ اسکیم خواتین کو نہ صرف معاشی تعاون کی غرض سے ضروری تھی بلکہ ان کو معاشی تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے روزگار کو بھی قائم و باقی رکھنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے ۔
آرٹیکل51Aتمام شہریوں کو بطور بنیادی فریضہ کے یہ رہنمائی کرتا ہے کہ خواتین کے تئیں عزت و احترام کا رویہ اپنائیں نیز ہتک آمیز رویہ سے گریز کریں۔
آرٹیکل243کے تحت پنچایت و میونسپلٹی کی ایک تہائی سیٹوں کو خواتین کے لیے مختص کرنے کا حکم دیتا ہے، نیز پنچایت و میونسپلٹی کی تمام نوکریوں میں ایک تہائی یعنی33 فیصد نوکریاں بھی خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی۔
دستور ساز اسمبلی نے دستور کی ترتیب و ترمیم کے دوران خواتین کے تئیں سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے خواتین کی فلاح و بہبود نیز ان کے ہمہ جہتی ارتقا کے لیے ہر طرح کی تجاویز کو دستور میں شامل کیا نیز جنسی مساوات کے اصول کو ہمارے دستور کی تمہید، بنیادی حقوق، بنیادی فرائض کے ساتھ ساتھ ڈائکرکٹیو پرنسپلس میں بھی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ دستور صرف خواتین کو مساوی درجہ ہی فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ حکومتوں کو اس بات کا بھی مکلف بناتا ہے کہ وہ خواتین کی فلاح و بہبود نیز ان کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار کے ساتھ زندگی گزارنے میں مدد کریں۔ ہمارے ملک میں خواتین کی فلاح و بہبود کی غرض سے نہ صرف پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے ٹھوس قدم اٹھائے بلکہ ان کی سماجی، سیاسی، معاشی و تعلیمی ارتقا کی غرض سے فلاحی پالیسیوں، پلان اور پروگرام بھی بنائے جن کا مقصد خواتین کو ماضی کی منجدھار سے نکال کر سماج میں ان کو مضبوطی بخشی جاسکے تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا پورا پورا تعاون کرسکیں۔ ہمارے ملک میں اگر دستور کی ان تمام تجاویز اور شقات کے بعد متعدد قوانین اور عدالتوں کے سخت رہنما اصول و ضوابط کے بعد بھی اگر خواتین کی صورت حال میں خاطر خواہ کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم، ہمارا سماج اور سماج کا بکھرا ہوا تانا بانا ہے جو سماج میں ظلم و ستم ہوتا ہوا دیکھتا ہے لیکن اس کو روکنے نیز سماج میں سماجی برائیوں اور مسائل کے روک تھام کے لیے اپنی اخلاقی و دستوری ذمہ داری ادا کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھیں کہ دستور میں تحریر کردہ حقوق و مراعات صرف لکھ دینے سے حاصل نہیں ہوسکتے بلکہ دستور ہم سے یہ امید کرتا ہے کہ ہم اپنے سماج کو ایسا سماج بنائیں جو دستور میں بتائے گئے شہریوں کے حقوق و مراعات کے احترام و تحفظ کو اپنی دستوری، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری سمجھیں، تبھی ممکن ہوگا کہ ہمارے ملک و سماج میں خواتین کو بھی عزت و تحفظ فراہم ہوسکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS