مولانا ندیم احمد انصاری
اعتکاف رمضان المبارک کی ایک خاص عبادت ہے، جو مَردوں کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی مشروع ہوئی ہے البتہ دونوں کے صنفی امتیاز کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے لیے چند ہدایات مختلف ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت نبی کریمؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اٹھا لیا۔ آپ کے بعد آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں(بخاری، مسلم)۔عورت کو اعتکاف کرنے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لے کر ہی اعتکاف کرنا چاہیے۔عورت نے گھر میں جو جگہ اعتکاف کے لیے مخصوص کی ہے اس جگہ سے بلا عذر نکل جائے تو ٹھیک اسی طرح ان کا بھی اعتکاف فاسد ہوجائے گا جس طرح مَرد کا مسجد کی شرعی حدود سے بلا وجہ نکلنے سے ۔ نیز نذر ماننے کی وجہ سے بھی اعتکاف واجب ہوجاتا ہے ، اگر اعتکاف کی نذر کسی خاتون نے مانی ہو تو اس پر بھی اعتکاف واجب ہوگا ، اور اسی طرح گھر کے ایک حصے میں اعتکاف کرنا ہوگا(کتاب الفتاویٰ)۔
عورت نے گھر میں جو جگہ اعتکاف کے لیے مخصوص کی ہے اس جگہ سے بلا عذر نکل جائے تو ٹھیک اسی طرح ان کا بھی اعتکاف فاسد ہوجائے گا جس طرح مَرد کا مسجد کی شرعی حدود سے بلا وجہ نکلنے سے ۔ نیز نذر ماننے کی وجہ سے بھی اعتکاف واجب ہوجاتا ہے ، اگر اعتکاف کی نذر کسی خاتون نے مانی ہو تو اس پر بھی اعتکاف واجب ہوگا ، اور اسی طرح گھر کے ایک حصے میں اعتکاف کرنا ہوگا۔
عورت کے اعتکاف کاطریقہ یہ ہے کہ گھرمیں جس جگہ نمازپڑھتی ہواس جگہ یاکسی اورجگہ کواعتکاف کے لیے مخصوص کرلے اورسوائے ضروری حاجات(پیشاب،پاخانہ،غسلِ جنابت)کے علاوہ اپنی جگہ سے باہرنہ نکلے ، جب حاجت کے لیے نکلے توحاجت پوری کرنے کے بعدفوراًاپنی جگہ واپس آجائے ۔دورانِ اعتکاف قرآن مجیدکی تلاوت،ذکروتسبیحات ونوافل وغیرہ جیسے مشاغل میں مصروف رہے ، بلاضرورت بات چیت سے احتراز کرے ۔ کھانا،پینا،سونااعتکاف کی جگہ ہی میں کرے ۔ ضروری حاجات کے علاوہ نکلنے سے اعتکاف فاسد ہوجاتاہے ۔اعتکاف کی حالت میں عورت اپنے گھروالوں کے لیے اپنے اعتکاف کی جگہ سے نکل کر سحری وغیرہ نہیں پکاسکتی اور نہ ہی باہرنکل کرگھروالوں کے ساتھ سحری وافطاری کرسکتی ہے ، البتہ گھر میں اگر اور کوئی نہ ہو جو کھانا پکاسکے تو ضرورت کی وجہ سے اپنے اعتکاف کی جگہ میں ہی کھانا پکاسکتی ہے ۔ بات چیت ہروقت کی جاسکتی ہے مگراعتکاف کی جگہ میں رہتے ہوئے اور بلاضرورت تفصیلی بات چیت سے احترازکرتے ہوئے اہم گفتگوکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے(نجم الفتاویٰ)۔
اگر پورا کمرہ نماز کے لیے مختص ہے تو اس میں اعتکاف درست ہے اور اگر کمرہ نماز کے لیے مختص نہیں ہے تو پہلے پورے کمرے کو نماز کے لیے (نیت کرکے) مختص کریں، تب اس میں اعتکاف درست ہوگا(نجم الفتاویٰ ملخصا)۔اعتکاف کے لیے جگہ متعین کرنے کے بعد تغیر و تبدل جائز نہیں ہے ۔ اندر ہو یا باہر ہو بہتر یہ ہے کہ بر آمدہ وغیرہ کا تعین کیا جائے یا پنکھے وغیرہ کا انتظام کر لیا جائے (کہ بعد میں تکلیف نہ ہو)۔(خیر الفتاویٰ)۔خلاصہ یہ کہ عورتوں کے لیے بھی اعتکاف مسنون ہے جس طرح مَردوں کے لیے مسنون ہے ، البتہ اعتکاف کے سلسلے میں مسجد کا جو حق ہے ، وہ خواتین کے اعتکاف سے ادا نہیں ہوسکے گا ۔
اس لیے کہ وہ گھر میں اعتکاف کریں گی۔ عورتوں کے لیے مسجد گوشے کے میں بھی اعتکاف کرنا مکروہ ہے ۔ خواتین کے حق میں بہتر یہ ہے کہ گھر میں نماز کے لیے جس جگہ کو مخصوص کر رکھا ہو اسی میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہر جائے ، اگر مخصوص نہ کیا ہو تو اب کسی خاص حصے کومخصوص کر لے (الدرالمختار علی ھامش رد المحتار)۔ رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں اگر مرد کے بجائے صرف عورت اعتکاف میں بیٹھتی ہے خواہ ایک ہو یا چند اور(مسجد میں کوئی بھی)مرد معتکف نہ ہو تو عورت کا اعتکاف صحیح ہوجائے گالیکن اس کے اعتکاف سے مَردوں کے ذمہ سے اعتکاف کی سنیت ادا نہ ہوگی ، بلکہ ان کے اوپر اعتکاف کی ذمہ دار ی باقی رہے گی(فتاویٰ محمودیہ )۔
uuu