چند روز قبل کانگریس پارٹی نے اپنی سب سے بااختیار کمیٹی سی ڈبلیو سی کی تشکیل نو کی ہے۔ پارٹی صدر ملکاارجن کھرگے نے اپنی نئی ٹیم کا جس طریقے سے اعلان کیا ہے اور اس نئی سی ڈبلیو سی میں کا نگریس کے تیور صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ پارٹی لوک سبھا انتخابات کے لئے اور اس سے قبل 5ریاستوںکے اسمبلی انتخابات کے لئے اپنی کمرکس چکی ہے۔ اس نئی ورکنگ کمیٹی میں کانگریس نے پارٹی کو ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔راہل گاندھی کے استعفیٰ کے بعد سے ہی کانگریس پارٹی کی تنظیم کئی سطح پر کمزور پڑ گئی تھی۔ پارٹی کے اندرایک غیرمطمئن گروپ معرض وجود میں آگیا تھا جس کا نام جی 23تھا۔ پارٹی کی کمزور قیادت اور تنظیم کی وجہ سے مکل واسنک، آنند شرما اور ششی تھرور وغیرہ نے مختلف سطحوں پر پارٹی کی قیادت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔کپل سبل اس صورت حال کی وجہ سے پارٹی سے علیحدہ ہوگئے اور وہ سماجوادی پارٹی کے تعاون سے راجیہ سبھا کی ممبرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ شاید پارٹی کی قیادت ہی کمزوری تھی جس کی وجہ سے اچھی سیٹیں حاصل کرنے اورحکومت بنانے کے بعد مدھیہ پردیش میںاقتدار کانگریس کے ہاتھ سے چلا گیا۔
ایک طویل عرصہ سے راجستھان میں اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ دست وگریباں دکھائی دیے۔ پارٹی نے ناراض لیڈروں کو سی ڈبلیو سی کا ممبر بناکر تمام گلے شکوے ختم کرنے کا اشارہ دیا۔ ملکاارجن کھرگے ایک جہاں دیدہ اور نبض شناس لیڈر ہیں۔ انہوں نے سینئر اور عمردراز لیڈروںکے ساتھ جواں سال لیڈران ناصرحسین، سابق وزیراعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی، گورو گگوئی اور کے سی وینوگوپال کو نمائندگی دے کر نئے خون پر بھروسہ جتایا ہے۔
سی ڈبلیو سی سے زیادہ قابل ذکر بات اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کی آپس کی پھوٹ کو ختم کرنے کا اشارہ ہے اس سے راجستھان میں نئے جوش و ولولے کے ساتھ کام کرنے کا راستہ صاف ہوا ہے۔ راجستھان کا شمار ان چند ریاستوںمیں ہوتا ہے جہاں کانگریس کو آپسی پھوٹ کا سامنا تھا اور چند ماہ قبل تک سچن پائلٹ اپنی ہی پارٹی کے وزیراعلیٰ کے خلاف برسرپیکار تھے۔ انہوں نے اشوک گہلوت کی قیادت والی سرکار کے خلاف ایک مورچہ کھولا تھا اور ایک دھرنا بھی دیا تھا،جس میں اپنی تمام شکایات کو عوام کے سامنے رکھا تھا۔ یہ مہم اس لئے بھی تکلیف دہ تھی کہ اس سے اشوک گہلوت اوربی جے پی کی ناراض لیڈر وسندھراراجے کے درمیان روابط کا راز فاش ہوا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس سرکار وسندھرا راجے کی وجہ سے ٹکی ہوئی ہے۔اگرچہ اس دھرنے نے بی جے پی کو بھی ناخوشگوار پوزیشن میں لاکھڑا کیا تھا۔کل ملاکر سچن پائلٹ کے محدود سطح کے اس دھرنے نے بی جے پی اورکانگریس دونوں کو پریشان کیا تھا۔ کانگریس کے لئے سچن پائلٹ کی ناراضگی اس لئے زیادہ تکلیف دہ تھی کیونکہ انہوںنے 2018 کے الیکشن میں پارٹی کو برسراقتدار لانے اور پارٹی کی تنظیم کو کھڑا کرنے میں بہت جفاکشی کی تھی۔ توقع کی جارہی تھی کہ 2018 میں ہی وہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز کردیے جائیںگے، مگرایسا نہیں ہوا اور اشوک گہلوت کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ اگرچہ ان کو نائب وزیراعلیٰ بنا دیا گیا تھا، مگر ان کی شکایات کم نہیں ہوئی تھیں جو مختلف مواقع پر ظاہر ہوجاتی تھیں اور دونوں اعلیٰ لیڈروںکے درمیان کئی مقامات پر عوامی سطح پر ایک دوسرے پر نکتہ چینی کی گئی تھی، جس سے پارٹی کوسبکی کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ راجستھان میں انتخابات چند ماہ دور ہیں اور پارٹی میں اگر اعلیٰ قیادت کے درمیان کے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں توپارٹی کو ایک بار پھر اپنا اقتدار دہرانے میں مدد مل سکتی ہے۔ راجستھان کے علاوہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور میزورم میں بھی اسی سال کے اواخر میں انتخابات ہونے ہیں۔ سی ڈبلیو سی کی تشکیل ان ریاستوںمیں بھی کانگریس کے امکانات کو قوت فراہم کرے گی اور امید کی جارہی ہے کہ بی جے پی کوکانگریس پارٹی کڑی ٹکر دے گی۔ مدھیہ پردیش میں جہاں پر 2018 میں کانگریس نے الیکشن توجیتا تھا، مگر بعدمیں جیوتی رادتیہ سندھیا گروپ کے بغاوت کی وجہ سے پارٹی اقتدار سے باہر چلی گئی تھی اور بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا تھا۔ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت والی سرکار کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ د گ وجے سنگھ کو سی ڈبلیوسی میں شامل کرکے کانگریس نے واضح کردیا ہے کہ تمام تر پروپیگنڈہ کے باوجود وہ پارٹی کے اہم لیڈر بنے رہیںگے۔ مدھیہ پردیش میں راجستھان کے ساتھ الیکشن ہونے ہیں اورکانگریس کو لگتا ہے کہ وہ بی جے پی کی مختلف محاذوںپر ناکامی کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ کمل ناتھ کی قیادت میں مدھیہ پردیش کانگریس پوری طاقت کے ساتھ الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ بی جے پی کس طرح کانگریس کی چیلنج کا مقابلہ کرتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے ساتھ ساتھ چھتیس گڑھ میں بھی الیکشن ہونے ہیں۔ پارٹی کولگتا ہے کہ بھوپیش بگھیل کی قبائلی طبقات اور غریب طبقات کے لئے شروع کی گئی پالیسیوں کا اثر پڑے گا اور وہاں کانگریس کا اقتدارلوٹے گا۔ بھوپیش بگھیل پارٹی کے اندرونی خلفشار کو بھی کسی حد تک ختم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کے آتے آتے وہ کس حد تک اپنی موجودہ صورت حال کو برقرار رکھیںگے۔ کانگریس کی نئی سی ڈبلیو سی میں ایک اہم نام ششی تھرور کا بھی ہے۔ ششی تھرور ملکارارجن کھرگے کے خلاف الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے اور میڈیا کے کئی حلقے ششی تھرورکو کانگریس کی ’اعلیٰ کمان‘ کے مخالف آواز سمجھ کر اچھالتے رہے ہیں۔ اگرچہ ملکاارجن کھرگے عوامی سطح کے لیڈر ہیں جو بالکل ہی نچلی سطح سے اس اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں، مگر ششی تھرورکا شمار اعلیٰ اذہان میں ہوتا ہے، جوکہ علمیت، بات کرنے کا انداز اور پرکشش شخصیت کے سبب مشہور ہیں اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ان کو شہرت حاصل ہے۔
بہرحال کانگریس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ 138سال پرانی پارٹی اپنے تمام خوش ناخوش زمینی سطح پر کام کرنے والے ورکر یا اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شرکت کرنے والے دانشوروں کو ساتھ لے کر چلنے والی جماعت ہے اور آئندہ 5ریاستوں کے الیکشن میں پارٹی نئے جوش وخروش کے ساتھ تال ٹھوک سکتی ہے۔ کانگریس اس وقت جوش میں ہے۔ راہل گاندھی نے جس طریقے سے قانونی جنگ لڑ کر اپنی پارلیمانی سیٹ بچائی ہے اس کے بعد پارٹی کی قیادت میں جوش وخروش ہے۔ بھارت جوڑویاترا کے دوسرے دور کی مہم سے پارٹی میں مزید جوش و خروش بڑھے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی اس جوش کو کس حد تک انتخابی فائدے میں تبدیل کرتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کانگریس پارٹی 2024کے الیکشن کا ایجنڈہ تقریباً طے کرچکی ہے اور اب اسی نہج پر اوراسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔
٭٭٭
ظاہری تبدیلیاں کانگریس کو مستحکم کر سکیں گی؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS