ترکی کیا فن لینڈ اور سویڈن کی راہ روک پائے گا؟

0

صبیح احمد

روس یوکرین جنگ کے سبب خطہ میں ایک اور تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تنازع دراصل جنگ کی وجہ سے خطہ میں نئی صف بندی کا نتیجہ ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ نے جو اب تک کسی بھی خیمے کا حصہ نہیں تھے، اب ناٹو میں شمولیت کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ سویڈن نے یوکرین پر روسی حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یوروپ کو ایک نئے خطرے کا سامنا ہے۔ ادھر روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے شدید ردعمل میں خبردار کیا ہے کہ ان ممالک کا غیر جانبداری کاراستہ چھوڑنا غلطی ہو گی۔ پوتن نے کہا ہے کہ فن لینڈ اور سویڈن کی ناٹو اتحاد میں شمولیت سے روس کی سلامتی کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن فوجی انفراسٹرکچر کو وسعت دینے پر روس کا جواب آ سکتا ہے۔ ترکی جو ناٹو کا واحد مسلم اکثریتی رکن ملک ہے، سویڈن اور فن لینڈ کی اتحاد میں شمولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر ابھرا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے سویڈن اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت کو روکنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔ ترکی کو شکایت ہے کہ مذکورہ دونوں ممالک کرد جنگجوؤں کو اپنے یہاں پناہ دیتے ہیں۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ ناٹو کا ممبر بننے کے لیے اس کے موجودہ تمام ممبران کی رضامندی ضروری ہے۔
ترک صدر نے کسی طرح کے حیل حوالے کے بغیر سویڈن اور فن لینڈ کو دہشت گردوں کی نرسریاں قرار دیتے ہوئے ان کی ناٹو میں شمولیت کی سخت مخالفت کی ہے۔ اردگان نے اپنی ناراضگی واضح لفظوں میں یہ کہتے ہوئے ظاہر کی ہے کہ دونوں ملکوں (سویڈن اور فن لینڈ) نے دہشت گرد تنظیموں کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں اور’ہم ان پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں۔‘ ترکی اسکینڈینیویا کی ان ریاستوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ کرد ورکر پارٹی جسے ترکی دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے، اور 2016 میں ترکی میں مبینہ طور پر بغاوت کرانے والے فتح گولن کے ممبران کو اپنے یہاں پناہ دیتا ہے۔ ترکی کو ایسے ان تمام ممالک کی ناٹو میں شمولیت پر بھی اعتراض ہے جنہوں نے ترکی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ سویڈن نے 2019 میں ترکی کی شام میں اپنی فوجیں بھیجنے کی وجہ سے ترکی کو اسلحہ بیچنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سرد جنگ کے زمانے سے اب تک غیر جانبدار رہنے والے یہ دونوں ملک آخر ناٹو میں شمولیت کے لیے کیوں بے چین ہیں؟
فن لینڈ کی روس کے ساتھ 1,300 کلومیٹر (810 میل) سرحد ہے۔ وہ اب تک اپنے مشرقی پڑوسی ملک روس کی مخالفت سے بچنے کے لیے ناٹو اتحاد سے دور رہا ہے۔ سویڈن کی جانب سے ناٹو میں شمولیت کی درخواست دینے کا اعلان فن لینڈ کی جانب سے اتحاد میں شمولیت کے باقاعدہ اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ سویڈن دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبدار رہا تھا اور وہ 2 صدیوں تک عسکری اتحاد میں شمولیت سے بچتا رہا ہے۔ حالانکہ سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی ناٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی حامی ہے جسے عوامی حمایت اور ملک کی حزب اختلاف کی اہم جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن وہ ملک میں جوہری ہتھیار رکھنے یا ناٹو کے اڈے قائم کرنے کے مخالف ہیں۔ وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے اس حوالے سے وضاحت پیش کی ہے کہ کسی اتحاد میں عسکری طور پر شامل نہ ہونا سویڈن کے لیے اچھا تھا لیکن مستقبل میں یہ ہمارے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ان کی دلیل ہے کہ اگر سویڈن بالٹک خطہ کا وہ واحد ملک ہوا جو ناٹو کا رکن نہیں ہے تو اسے ’خطرناک حالت‘ میں چھوڑ دیا جائے گا۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) کی تشکیل 1949 میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔ دراصل یہ اتحاد امریکہ اور کناڈا کے علاوہ 10 یوروپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔ جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یوروپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔ حالانکہ اس وقت محاذ آرائی سے کامیابی کے ساتھ بچ کر نکل لیا گیا تھا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحاد کی تشکیل کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کرا یا تھا۔ بہرحال 1949 میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کناڈا، ناروے، بلجیم، ڈنمارک، نیدرلینڈس، پرتگال، آئس لینڈ اور لکژمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔ 1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔ مونٹینیگرو جون 2017 میں اس کا حصہ بننے والا آخری ملک تھا۔ ناٹو کے قیام کا بنیادی مقصد ’شمالی اٹلانٹک کے علاقے میں استحکام اور بہبود‘ کو فروغ دے کر اپنے رکن ممالک کی ’آزادی ، مشترکہ ورثے اور تہذیب کی حفاظت‘ کرنا ہے۔ ناٹو معاہدہ کے تحت ایک رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ان سب کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا، اور یہ کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ اس تنظیم نے سوویت یونین اور کمیونزم کو اس سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا تھا لیکن اس کی تشکیل کے بعد سے ناٹو کی سرحدیں ماسکو کے 1000 کلومیٹر قریب ہو گئی ہیں اور اب یہ تنظیم مشرقی یوروپ میں 1989 کے انقلابات اور سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد سابق سوویت یونین میں شامل ممالک کو اپنا رکن گردانتی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمہ اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مغرب نے ماسکو کی فکر چھوڑ دی ہے۔ آج اگر فن لینڈ اور سویڈن ناٹو کی رکنیت کا اعلان کر رہے ہیں تو اس کی اصل وجہ بھی روس ہی ہے جس نے یوکرین پر حملہ کر کے خطہ کے لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ خطہ کے دیگر ملکوں کو اس بات کا خطرہ ستا رہا ہے کہ اگر آج یوکرین روسی جارحیت کا شکار ہے تو وہ دن دور نہیں جب ان کی بھی باری آ سکتی ہے۔ سیکورٹی کے لحاظ سے اسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے یہ دونوں ممالک ناٹو کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بہرحال فن لینڈ اور سویڈن کو اتحاد کا حصہ بننے کے لیے ناٹو کے موجودہ تمام 30 ممبران کی حمایت کی ضرورت ہے لیکن ایک ملک یعنی ترکی اس کی حمایت نہیں کر رہا ہے۔ ترک صدر اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں، لیکن امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن کو یقین ہے کہ ترکی کے اعتراضات کے باوجود سویڈن اور فن لینڈ کو ناٹو میں شامل کر لیا جائے گا۔ امریکہ جو سویڈن اور فن لینڈ کو ناٹو اتحاد کا حصہ بننے کی ترغیب دیتا رہا ہے، اس موقع پر ان کو مایوس نہیں کرنا چاہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS