ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
سعودی عرب اور ایران کے درمیان جب سے چین کی ثالثی میں 10 مارچ کو مصالحت ہوئی ہے تب سے ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید عالم اسلام کی دو بڑی اور کلیدی قوتیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر امت کے بڑے مقاصد کی تکمیل کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مثبت اثر نہ صرف مشرق وسطیٰ کے اندر دیکھنے کو ملے گا بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے اندر انتشار اور تفرقہ کی فضا قائم ہے، اس کو ختم کرنے اور آپسی اتحاد کے ذریعہ مشترک دشمنوں کے خلاف پیش قدمی کے مواقع سامنے آئیں گے۔ اس بات کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا کہ صدیوں سے جاری اس بیجا افتراق کا دور اچانک سے ختم ہو جائے گا اور خیر سگالی کی ہوائیں ہر طرف چلنے لگ جائیں گی، کیونکہ اس کے امکانات پیدا کرنے کی سنجیدہ کوششیں دونوں قیادتوں کی سطح پر بہت کم ہی کی گئی ہیں۔ البتہ اتنی بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کے امکانات معدوم بالکل نہیں ہوئے ہیں اور دونوں ہی فرقوں کے سنجیدہ فکر افراد اور دانشوران ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ آپسی ناچاقی اور سیاسی بازیگری کے اس سلسلہ کو انجام تک پہنچایا جائے اور امت کی ترقی و خوشحالی کا ایک مشترکہ پلان تیار کیا جائے۔ ماضی میں بھی اس کی کوششیں ہوئی ہیں لیکن ناکام رہ گئیں، کیونکہ دونوں جانب سے الزام تراشی اور عدم اعتماد کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں زیادہ قوت صرف ہو گئی۔ اچھی بات یہ ہے کہ مذہبی طبقوں کی جانب سے نہ سہی سیاسی پیمانہ پر اب یہ سعی دوبارہ کی جا رہی ہے کہ باہمی اختلافات کو حل کرنے کے لیے گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا جائے۔ آج کی پر شور دنیا میں اس کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے کہ مزید تشدد، جنگ اور قتل و خون سے اسلامی دنیا کو داغ دار بنائے رکھا جائے۔ یوروپ کی مذہبی جنگوں کی خوں آشام تاریخ سے ہمیں سبق لینا چاہیے کہ کس طرح انہوں نے اپنا نقصان کیا اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معصوم جانوں کی تباہی کا ذریعہ بنے۔ آخر کار جب انہیں ہوش آیا تو بات چیت سے ہی مسئلے سلجھائے گئے۔ اگرچہ ان کے مذہبی اختلافات ختم نہیں ہوئے لیکن باہم دست و گریباں رہنے کا سلسلہ ختم ہوا۔ عیسائیت میں چونکہ مذہب و سیاست کی ہم آہنگی ممکن نہیں تھی، اس لیے انہوں نے چرچ اور اسٹیٹ کے دائرے الگ الگ کر لیے تاکہ انسانیت کو مسلسل خوں ریزی سے نجات ملے۔ عیسائیت کے برعکس اسلام کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ یہاں آپسی انتشار اور خوں ریزی کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اسلامی شریعت میں مذہب و سیاست کے قابل عمل امتزاج کی گنجائش نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ یہاں انتشار کا دور ہی تب شروع ہوا جب اسلام کی واضح رہنمائی کو پس پشت ڈال کر محدود مفادات کے لیے اہل اقتدار نے کام کرنے کو ترجیح دینا ضروری سمجھ لیا۔ اسلام اپنے اول دن سے ہی شریعت کی عملی تطبیق دے کر بتایا کہ ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل کے کیا رہنما اصول ہو سکتے ہیں اور انہیں کامیابی کے ساتھ کیسے نافذ العمل بنایا جا سکتا ہے۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں سیاسی طور پر بھی اس حقیقت کو واضح کیا جا چکا ہے کہ اسلامی دنیا کو جب بھی کبھی اندرونی یا بیرونی چیلنجز کا سامنا رہا ہے تو اس کا علاج صرف اس حقیقت میں پوشیدہ رہا ہے کہ اسلام کے اصولوں کی طرف رجوع کیا جائے اور اتحاد و یگانگت اور اجتماعیت و وحدت کے راستے پر چلنے کی کوشش کی جائے۔ مرور زمانہ کی وجہ سے اگر اسلام کی اسپرٹ سے ذہن و دماغ خالی ہوگئے ہیں اور عملی کوتاہیوں نے ان کی روحانیت کو مجروح اور ان میں موجود حیوانی شرست کو بھڑکا دیے ہیں تو اس کا موثر علاج بس یہی ہے کہ اسلام کے چشمۂ صافی اور شریعت کے مصادر یعنی قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔ اس کا بھی اظہار عملی طور پر اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں ہی ہوچکا ہے۔ جب بنوامیہ نے اسلامی غیرت و حمیت کے بجائے عرب نخوت کو اپنا شعار بنا لیا تھا اور حکومت کو الہی مقاصد کے بجائے خاندانی جاگیر کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور مسلم امت مایوسی و بے بسی سے اس تماشہ دیکھ کر رنجیدہ ہوتی رہی تھی تو غیب نے خود اموی خاندان کے ایک ایسے نوجوان کو سیاست و معاشرہ میں اسلامی روح کی بحالی کے لیے تیار کر دیا جس کی توقع کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں عمر بن عبدالعزیز تھے جو فیشن میں مثال بن چکے تھے اور نوجوانوں کا ٹولہ ان کا متوالا تھا۔ لیکن جب اسلامی دنیا کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے اس ذمہ داری کو اس سنجیدگی سے نبھایا کہ فیشن کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا، مملکت کے خزانہ کو درست کیا، جو ناجائز طور پر مال و دولت پر قابض ہوگئے تھے، ان سے وہ اثاثے واپس لیے گئے اور بیت المال میں جمع کروایا اور اس کا آغاز خود اپنی اہلیہ اور افراد خاندان سے کیا۔ اپنی ذاتی زندگی میں تقشف کا ایسا مظاہرہ کیا کہ سرکاری چراغ اور دوات تک کو اپنے ذاتی کام کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھا۔ جزیہ کی رقم اکٹھا کرنے کے بجائے اسلامی رواداری کو نافذ کرنا اپنا فریضہ سمجھا جس سے اسلام کی طرف ایک دنیا راغب ہوئی۔ ان کی انہیں خدمات کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں خلیفہ راشد خامس کا درجہ انہیں عطا کیا گیا۔ یہی کردار ہندوستان کی تاریخ میں مجدد الف ثانی اور ان کے خانوادہ نے مغلیہ شہنشاہوں کی بے دینی کو ختم کرنے اور انہیں راہ حق کی طرف لانے میں ادا کیا۔ ماضی قریب کی تاریخ کو دیکھیں تو خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد جب کمال اتاترک نے عربی زبان میں قرآن اور اذان تک پر پابندی عائد کر دی تو سعید نورسی اور ان کے رفقاء و تلامذہ نے اسلام کے سوتوں کو خشک ہونے سے بچایا اور ترکی کے گاؤں گاؤں پھر کر اس نور کو زندہ رکھا جس سے امت اسلامیہ کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔ اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مندریس اور نجم الدین اربکان نے سیاسی طور پر ترکی میں ایک متبادل کھڑا کیا۔ مندریس کو سولی پر لٹکنا پڑا لیکن ان کی محنت رائیگاں نہیں گئی اور آج یہ حال ہے کہ طیب اردگان نے اسلامی ثقافت کی بحالی میں اپنا بے مثال کردار ادا کر دیا ہے۔
اب مسلم دنیا کے حالات اس بات کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ عرب- ایران دشمنی کا خاتمہ بھی ہمیشہ کے لیے کیا جائے اور مسلم دنیا کو انتشار و بد امنی سے بچایا جائے۔ ایران و سعودی عرب تعلقات جس قدر مضبوط ہوں گے اسی قدر مسلم دنیا کے مسائل میں کمی آئے گی جیساکہ دونوں کے درمیان مصالحت کے مابعد مدت میں یمن اور شام کے اندر بہتر ہوتے حالات سے اندازہ ہو رہا ہے۔ ایران نے سعودی عرب میں اپنا سفارت خانہ اور قونصلیٹ کھول دیا ہے اور تہران کے ایک شاندار ہوٹل سے سعودی عرب کے سفراء بھی اپنا کام کرنے لگے ہیں۔ ابھی سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود ایران کے دورہ پر ہیں جو گزشتہ سات برسوں میں کسی سعودی وزیر کا پہلا دورہ ہے۔ وہاں انہوں نے اپنے ہم منصب حسین عبداللہیان کے علاوہ ایرانی صدر رئیسی سے بھی ملاقات کی ہے اور دونوں ملکوں نے اس خطہ میں امن، اقتصادی ترقی اور ایک دوسرے کے معاملہ میں عدم مداخلت پر زور دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بدلتے مزاج کو دیکھ کر امریکہ نے بھی ایران کے ساتھ دوبارہ سے خفیہ طور پر بات چیت شروع کر دی ہے جس میں عمان کا توسط حاصل کیا گیا ہے تاکہ نیوکلیائی معاہدہ کو بحال کیا جا سکے، قیدیوں کی رہائی کا راستہ آسان ہو اور ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں ڈھیل دی جا سکے۔ اگر مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اپنا اتحاد قائم کر لیا اور اپنے مشترک مفادات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو سامراجی طاقتوں کی دسیسہ کاریوں کا خاتمہ اس خطہ سے یقینی طور پر ہوجائے گا اور مسئلۂ فلسطین کا حل بھی ممکن ہو سکے گا اور تبھی ایرانی صدر رئیسی کی یہ بات سچ ثابت ہوپائے گی کہ ایران اور سعودی عرب کے اتحاد سے مغربی قوتیں پریشان ہوگئی ہیں۔ اس مقصد کی تکمیل کا واحد راستہ یہ ہے کہ دونوں ممالک اسلامی اصولوں کی طرف رجوع کریں اور مومنانہ فراست سے مسائل کا حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں