ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
کیا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات جلد ہی قائم ہوں گے اور دونوں ممالک کے سفراء ایک دوسرے کی سرزمین میں نمائندگی کا فریضہ انجام دیں گے؟ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن اتنا تو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس سلسلہ میں اب قیاس آرائیوں کا دور تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اگر اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوھین کی بات مانیں تو دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاملہ تقریباً پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ بس اس کا اعلان کرنا ہی باقی ہے۔ کوھین کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ ’ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحالی کا معاملہ یوں سمجھئے کہ ہاتھ میں ہے۔ بس کچھ ہی وقت کی بات ہے‘ کہ اعلان بھی ہوجائے گا۔ یہ باتیں کوھین اسرائیل کے ایک نیوز ویب سائٹ ’وائی نٹ‘ سے گفتگو کے دوران گزشتہ جمعرات کو کہہ رہے تھے۔ خود امریکی صدر جو بائیڈن کے ادارہ کی جانب سے اس بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں صہیونی وفود کا استقبال باضابطہ طور پر کیا جائے گا اور خادمِ حرمین شریفین اسرائیلی وزیر اعظم یا صدر کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر لذیذ کھانا کھائیں گے اور ترقیاتی پروجیکٹوں پر سیر حاصل گفتگو کریں گے۔ امریکہ اگرچہ ابھی سعودی اور اسرائیل تعلقات پر گول مول باتیں کر رہا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اندرونِ خانہ پوری تیاریاں ہو چکی ہیں۔ ایلی کوھین کے انٹرویو سے ایک دن قبل یعنی بدھ کے روز جب صحافیوں نے اس سلسلہ میں امریکی ادارہ کی رائے پوچھی تو وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جون کیربی نے کہا کہ ابھی دونوں ملکوں نے اس سلسلہ میں کی جانے والی گفتگو کے فریم ورک پر کوئی واضح خطہ پیش نہیں کیا ہے۔ ابھی اس موضوع پر بہت بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی یہ طے ہوپائے گا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔ کیربی نے اس بیان میں یہ اشارہ تو دے ہی دیا ہے کہ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کے لئے مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اس معاہدہ کی کتنی ضرورت ہے۔ بائیڈن ادارہ کے دیگر افسران بھی اس معاہدہ کی اہمیت پر روشنی ڈال چکے ہیں اور بتا چکے ہیں سعودی اور اسرائیل معاہدہ بائیڈن کے لئے مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ معاہدہ بائیڈن کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ امریکی شہریوں کے لئے تیل کی بڑھتی قیمت ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور بائیڈن 2024 کے صدارتی انتخابات سے قبل اس معاہدہ کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوھین نے بھی اپنے انٹرویو میں اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ یہ معاہدہ امریکہ کے حق میں کافی اہم ہے کیونکہ بائیڈن کا ادارہ 2024 کے انتخابات سے قبل ایک سیاسی جیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کوھین نے یہ بھی بتایا کہ امریکیوں کو اپنے اقتصاد کی فکر ہے، کیونکہ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ ہوجاتا ہے تو انرجی کی قیمت میں کافی کمی واقع ہوجائے گی، جس کا سیدھا فائدہ امریکی عوام کو ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو ایسے کسی معاہدہ سے کیا فائدہ پہنچے گا؟ اس سلسلہ میں سعودی عرب کی جانب سے کوئی بیان اب تک جاری نہیں ہوا ہے۔ لیکن کوھین کا ماننا ہے کہ سعودی عرب کو اس معاہدہ میں اس لئے دلچسپی ہے کیونکہ وہ متحدہ عرب امارات کی طرح سیاحت اور تجارت کے میدان میں اسرائیلی تعلقات سے مستفید ہونا چاہتا ہے۔ صرف یہی پہلو نہیں ہے، جس کی وجہ سے سعودی عرب کو اس معاہدہ میں شدید دلچسپی ہوسکتی ہے۔ دراصل مختلف ذرائع اور ماہرین کے تبصروں سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے وہ اگر اسے طویل مدتی سیکورٹی فراہم کراتا اور اس کے ساتھ شہری نیوکلیائی معاہدہ کرتا ہے تو سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ امریکہ میں اس کے ناقدین نہیں ہیں۔ بائیڈن ادارہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کیا مراعات فراہم کرکے اس قسم کا معاہدہ کرنا امریکہ کے مفاد میں ہوگا؟ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی سوال ہے کہ ایسے کسی معاہدہ سے فلسطینیوں کا کیا فائدہ ہوگا؟ ماضی میں جب اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ایسے کسی معاہدہ کی بات ہوتی تھی تو یہ امید رکھی جاتی تھی کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں مراعات حاصل کی جائیں گی، لیکن موجودہ صورت حال میں اس کی توقع فضول ہے۔ فلسطینی لیڈران یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں اس بارے میں بالکل کوئی اچھی امید نہیں ہے۔ اسرائیل کی جو تشدد پسند سیاسی پارٹیاں اس وقت برسر اقتدار ہیں، اس کے پیش نظر فلسطینی قائدین یہ کہتے ہیں کہ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو اس سے ہماری زندگی پر کوئی مثبت فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے ٹھوس اسباب بھی موجود ہیں کہ اسرائیل نے حالیہ دنوں میں فلسطینی بستیوں کو جس بربریت کے ساتھ اجاڑا ہے اور فلسطینی زمینوں پر یہودی بستیاں بساکر مزید فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور ان کے کھیتوں سے بے دخل کیا ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ویسٹ بینک میں موجود فلسطینیوں کی زندگی کو برسوں سے اسرائیلی فوج اور صہیونی تشدد پسند جماعتوں نے جہنم زار بنا رکھا ہے۔ اس کے باوجود بائیڈن کا ادارہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ذریعہ شروع کئے گئے اس اقدام کو جس کا نام ’ابراہیمی معاہدہ‘ رکھا گیا تھا، اس کو اپنی حمایت دے رکھی ہے اور عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی بحالی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے۔
اسرائیل تو چاہتا ہی ہے کہ عرب اور اسلامی ممالک اس کے غاصبانہ قبضہ پر جواز کی مہر لگا دے تاکہ پوری دنیا کے سامنے اپنے اس پروپیگنڈہ کو مزید شدت کے ساتھ پھیلا سکے کہ اسرائیل تو امن چاہتا ہے، لیکن فلسطینی جماعتیں ہی تشدد پر آمادہ ہیں اور اس کے وجود کو قبول کرنے کے لئے راضی نہیں ہیں۔ اسرائیل کا معاہدہ اگر سعودی عرب کے ساتھ ہوجاتا ہے تو صہیونی ریاست کو کتنی خوشی ہوگی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ مہینہ جب اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے اپنے امریکی دورہ کے موقع پر صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تو ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور یہ کہا کہ وہ اس لمحہ کا انتظار کر رہے ہیں جب سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان پرامن معاہدہ کی راہ ہموار ہوگی۔ ہرزوگ نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے رسمی طور پر ابھی تک فلسطین کے مسئلہ پر اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔ اس موقف کے مطابق سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ اسرائیل ایسی فضا ہموار کرے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ صاف ہو اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلہ کو فلسطینیوں کے مطالبوں کے مطابق حل کیا جائے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کی فکر نہ تو امریکہ کو ہے اور نہ ہی سعودی عرب کو ہے۔ تھامس فریڈمین نے نیو ٹائمس میں اس موضوع پر جو اپنا کالم لکھا ہے، اس کے مطابق اگر سعودی عرب کو ناٹو طرز کی سیکورٹی اور نیوکلیائی معاہدہ مل جاتا ہے تو اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ ہوجائے گا۔ اسرائیل بھی امریکہ سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ایران سے درپیش خطرہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس کے تحفظ کے لئے بھی سیکورٹی کا انتظام کیا جائے۔ اس بارے میں ہوسکتا ہے کہ نتن یاہو کے امریکہ دورہ پر بائیڈن سے بات چیت ہو۔ جہاں تک فلسطینیوں کے تحفظ کا سوال ہے تو اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں جب فلسطینی اپنے حقوق کی لڑائی لڑیں گے تو ان کو دہشت گرد اور تشدد پسند کہہ کر مزید مظالم کا شکار بنایا جائے گا، لیکن کیا اس سے ظلم کے خلاف جنگ کا سلسلہ رک جائے گا؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں