شاہد زبیری
ملک میں اندنوں جو سیاسی منظرنامہ ابھر رہا ہے اور جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں ، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مدعے تو غائب ہوتے جا رہے ہیں لیکن آئے دن کوئی نہ کو ئی سیاسی دھماکہ ہو رہا ہے نت نئے ایشوز سامنے آرہے ہیں ابھی ہنڈن برگ کے اڈانی معاملہ کا طوفان تھماہے اور نہ بی بی سی کی گجرات فساد 2002کی رپورٹ کی دھول پوری طرح بیٹھی ہے اور نہ ہی راہل گاندھی کے دیارِ غیر میں دئے گئے بیان کی گونج کم ہوئی اور نہ راہل گاندھی کی رکنیت پر اٹھا شور شرابہ کم ہوا ۔ رام نومی پر ملک کی مخلتف صوبوں میں بھڑکے فرقہ وارانہ تشددکے بعدگذشتہ روز اوڈیشہ کے سمبل پور میں ہنومان جینتی پر بھڑکنے والا تشد د ہو یا دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال کی دہلی شراب معاملہ میں سی بی آئی کے دفتر میں آج16اپریل کو ہو نے والی پیشی سے ابھی سیاسی پارہ گرم تھاکہ جمّوں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے پلوامہ پر دئے گئے دھماکہ خیز انٹرویو میں سیاسی پارہ کی تپش بڑھا دی ہے انٹرویومیں ست پال ملک نے پلوامہ میں 40جوانوں کی شہادت کیلئے وزیرِ اعظم نریندر مودی ،قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور سابق وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کو سوالوں کے گھیرے میںکھڑا کردیا ہے اور تواور اس انٹرویومیں ست پال ملک نے کرپشن کے سوال پر وزیرِ اعظم کیساتھ سنگھ پریوارکو بھی گھسیٹ لیا ہے اور سنگھ کے ایک بڑے لیڈر رام مادھو جو جمّوں کشمیر بی جے پی کے پارٹی امور کے انچارج بھی رہ چکے ہیں ان پر الزام لگا یا ہیکہ انہوں نے گورنر ستیہ پال ملک کو ایک کارپوریٹ گھرانہ کا کام کرا نے کیلئے اربوں روپے کی رشوت کی پیش کش کی تھی جس کوگورنر نے ٹھکرا دیا تھا ۔سنگھ پر کرپشن کے الزامات نے سنگھ کے” راشٹرواد”پر بھی سوال کھڑاکردیا ہے۔
بات پہلے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال کی ،اروند کیجریوال کی بابت سب جا نتے ہیں کہ سیاست میں وہ منموہن سنگھ سرکار کے مبیّنہ کرپشن کیخلاف انّا ہزارے کی تحریک کے پیداوار ہیںاس تحریک کو سنگھ کی بھر پور پشت پناہی حاصل تھی۔ کیجریوا ل کرپشن کی سیاہ کھوٹھری میں اپنی قمیص کو سب سے زیادہ سفید بتا کر آپ پارٹی بنا کر میدانِ سیاست میں اترے تھے اور دیکھتے دیکھتے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ بن بیٹھے اور کانگریس جیسی منجھی ہوئی سیاسی پارٹی کے ہاتھ سے اقتدار چھین لیا،پنجاب میں یہی کہانی دہرا ئی کانگریس کو یہاں بھی اقتدار سے بیدخل کردیا ۔اروند کیجریوال کی پارٹی کو گرچہ قومی پارٹی کا درجہ مل گیا ہے لیکن کرپشن کے معاملہ میں ان کی قمیص سب سے سفید نہیں رہی پہلے کرپشن کیس میں دہلی کے وزیرِ صحت ستیندر جین اور پھر کیجریوال کا دایاں ہاتھ مانے جا نے نائب وزیر منیش سسودیا جیل رسید کئے گئے اب تلوار خود کیجریوال کے سر پر لٹک گئی ہے ۔ شراب معاملہ میں اب اروند کیجریوال پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں اور گذشتہ روز سی بی آئی نے ان کو نوٹس بھیجکر 16اپریل کو اپنے آفس میں طلب کر لیا یہ سطور لکھے جا نے تک اروند کیجریوال نوٹس کے مطابق سی بی آئی کے سوالوں کا سامنا کررہے ہوں گے لیکن بین السطور کہانی کا پلاٹ کچھ دوسرا نظر آتا ہے۔اروند کیجریوال نے اپنے او پر لگے الزامات کی صفائی پر کہا کہ انہوں نے دہلی اسمبلی میں وزیرِ اعظم اور ان کی سرکار کی بابت زبان کھولنے کی جو ہمّت دکھائی یہ اس کا شاخسانہ ہے انہوں نے اپنی خود ستائی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر کیجریوال ایماندار نہیں تو ملک میں کوئی دوسرا لیڈرایماندار نہیں ہو سکتا ان کی اس تعلّی سے پرے سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہیکہ ہر چند کہ کیجریوال” بی جے کی بی ٹیم ـ” کے الزامات کی تردید کیلئے اکثر وزیرِ اعظم اور ان کی سرکار پر سوال کھڑے کرتے رہے ہیں اس مرتبہ وہ کچھ زیادہ ہی جرائت کر بیٹھے اور بی جے مخالف محاذ کی تائید میں کھل کر آگئے اور نتیش کمار کی ہاں میں ہاں کر بیٹھے موجودہ حکمرانوں کو باقی تو سب کچھ گوارہ ہو سکتا ہے لیکن ان کے پائیہ اقتدار کو ہلانے کی جرائت کرنے والوں کیساتھ کوئی رعائت نہیں ہے ۔ بی جے پی سرکار کو چیلنج کر نے والوں کی حمایت کرنے والوں بھی نہیںبخشا جا ئیگا اس لئے سیاسی حلقے کیجریوال کیخلاف سرکاری طوطا کہے جا نے وا لی سی بی آئی کی کارروائی کو اسی کا شاخسانہ مان رہے اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کیا کیجریوال بھی جیل کی ہوا کھا سکتے ہیں یہ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا اپوزیشن جماعتوں میں ابھی تک صرف بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار ای ڈی اور سی بی آئی کے سرکاری عذاب سے بچے ہو ئے ہیں ورنہ وزیرِ اعظم یا بی جے پی سرکار اور سنگھ پریوار کیخلاف لب کشائی کی ہمّت دکھانے والے زیادہ تر لیڈران پر سرکار شکنجہ کس چکی ہے ۔چرچہ کہ راہل گاندھی ،ستیندر جین ،منش سسودیہ اور کیجریوال کے بعد مودی سرکار کا نزلہ اپنے ہمدمِ دیرینہ بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار پر کبھی بھی گر سکتا ہے وہ ان اندنوں بی جے پی مخالف اتحاد کا سُرکچھ زیادہ اونچی آواز بلند کررہے ہیں ان کی فائل کبھی بھی اوپر آسکتی ہے اور ان پر بھی شکنجہ کسا جا سکتا ہے ۔ جب نتیش کمار بی جے پی کے بغیر بہار کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور بہار کے سیاہ سفید کے مالک تھے بتا یا جا تا ہیکہ اس زمانہ میں سجن یا سرجن نام کی ایک غیر سرکاری این جی اوپر وہ کچھ زیادہ مہربان تھے اس کے کھاتوں سے سرکاری فنڈکے استعمال کو لیکر نتیش کمار پر سنگین الزامات ہیں اس کے بعد نتیش کمار نے جب بی جے پی کے اشتراک سے بہار میں سرکار بنائی اور تیجسوی یادو کو اقتدار سے دور رکھا تو دروغ بر گردنِ راوی کہ نتیش کمار کیخلاف بی جے پی نے یہ کام اسی فائل کوہتھیار بنا کر کیا تھااور اپنے ساتھ اشتراک کیلئے ان کو مجبور کیا تھا اب جبکہ نتیش کمار نے پالا بدل لیا ہے اور آر جے ڈی کیساتھ ملکر سرکار بچالی ہے اور،نتیش کمار بی جے پی کیخلاف اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کیلئے کوشاں ہیں اوراپوزیشن لیڈروں بشمول راہل گاندھی ،کانگریس کے صدرملکارجن کھڑگے سے لیکر کیجریوال ،ممتا ،بی آر ایس رائو ،اسٹالن ،شرد پنوار اور اودت ٹھاکرے کو ایک چھتری کے نیچے لانے کیلئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں بی جے پی سرکار کا اگلا نشانہ وہ ہو سکتے ہیں ، شاید اسی ڈر سے ممتا ،اکھلیش ،بی ایس رائو تو اپوزیشن اتحاد کی آواز بلند کر کے اچانک خاموش ہو گئے ہیں،مایاوتی نے تو اس راہ میں قدم رکھا ہی نہیں وہ تو سڑک پر تنہا اپنا ہاتھی دوڑا رہی ہیں ۔ایسی صورت میں بی جے پی مخالف اپوزیشن اتحاد کی کھچڑی کو پکنے میں کتنی دیر لگے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
ادھر سارے ہنگا موں کے درمیان جمّوں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے یو ٹیوب چینل دی وائر کیلئے معروف انگریزی جر نلسٹ کرن تھاپر کو دئے گئے انٹر ویو میں پلوامہ حملہ میں شہید 40جوانوں کی شہادت کو لیکر وزیرِ اعظم نریندر مودی ،سابق وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کو سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کر دیا ، اسی کیساتھ کرپشن کے سوال پر سنگھ پریوار کی ساکھ کو بھی مشکوک کر دیا اورـ”سنگھ کے راشٹر وادـ” پر بھی سوال کھڑا کردیا ہے اور سنگھ کی سفید قمیص کو داغدار کر دیا ہے۔اس سے پہلے بھی ست پال ملک پلوامہ اور سنگھ کے لیڈ رپر اپنے الزامات کو الگ الگ طریقہ سے دہراتے رہے ہیں لیکن تازہ انٹرویو میں ستیہ پال ملک نے مربوط طریقہ سے نہ صر ف ان الزامات کا اعائدہ کیا بلکہ کچھ انکشافات بھی کئے ہیں اور کہا کہ سی آر پی ایف کے جوانوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لیجا نے کیلئے وزارتِ داخلہ سے 5طیّارے مانگے تھے جو نہیں دئے گئے اگر طیّاروں کے ذریعہ جوانوں کو لیجا یا جاتا تو یہ درد ناک حادثہ نہ ہوتا ۔انٹرویو میں ستیہ پال ملک نے وزیرِ اعظم مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال پر الزام لگا یا کہ ان دونوں شخصیات نے ان کو چپ رہنے کی سختی سے تاکید کی تھی ۔یہ الزامات کتنے سچ ہیں کتنے جھوٹ یہ تو تحقیقات سے ہی پتہ چل سکتا ہے لیکن کیا اس سیاسی تناظر میں اتنے اہم ایشوز کو لیکر اپو زیشن جماعتیں، مضبوط اپوزیشن کا کوئی کرادار نبھا سکتی ہیں اور کیا ان ایشوز کی بنیاد پر اپوزیشن اتحاد 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے وجود میں آسکتا ہے اس وقت بڑا سوال یہ ہے۔