فوزان علوی
کچھ دنوں قبل لکھنؤ میں رہنے کے دوران ایک کیب ڈرائیور پرکاش نے کہا کہ اسے اپنے بچوں کی فیس کے لیے ماہانہ 3500روپے کا انتظام کرنے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا، لیکن اس سے مجھے کیا لینا دینا؟ لیکن اس بات نے مجھے تشویش میں مبتلا کردیا کہ ہوسکتا ہے کہ اسی طرح کی پریشانی سے میرے پڑوس میں رہنے والے لوگ بھی نبردآزما ہوں۔ ہم اس سسٹم میں خوش قسمت ہیں یا تو محنت سے یا پیدائشی طور پر، لیکن بدقسمتی سے زیادہ تر لوگ بنیادی ضرورتوں کے لیے آج بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ اس طرح کے حالات پوری دنیا میں ہیں اور ہندوستان اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ جیسا کہ ڈیوڈ راک فیلر جونیئر کے ذریعہ صحیح کہا گیا ہے کہ ان کے داداجی نے کہا تھا کہ ہر حق ایک ذمہ داری، ہر موقع ایک فرض، ہر ذمہ داری ایک فرض کی ادائیگی کے بوجھ سے جڑی ہوئی ہے۔
امریکہ جیسے ملک میں جہاں خیرات پر تقریباً 500ارب امریکی ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں، وہاں کے معاشرہ میں ابھی بھی زبردست عدم توازن ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اسے ظاہر نہیں کرتے ہیں کہ اگرچہ خیرات قابل ستائش ہے، ساتھ ہی ہمیں معاشی ناانصافی کے حالات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو خیرات کو اس قدر ضروری بناتے ہیں۔ کوئی بھی اکیلے ایسا نہیں کرسکتا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جس کے پاس سبھی سوالوں کے جواب ہوں گے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ فوری پیش آمدہ مسئلہ کو دور کرنے میں لگے رہتے ہیں جو کہ بالکل ضروری ہے، اور مسئلہ کی جڑ کو دوسرے دن کے لیے ٹال دیتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ محروم طبقات میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ علاقہ بدستور پیچھے رہتا ہے، وہاں کاروباری سرگرمیاں کافی کم ہوتی ہیں اور اس سے بہت کم لوگوں کو روزگار مل پاتا ہے۔ دہائیوں سے گاؤوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی میں اسے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کچھ چیزوں پر پابندی عائد کی جاسکتی تھی۔ آج ہمیں اپنے آس پاس یا اپنے کام کرنے کی جگہوں کے آس پاس کے ترقی پذیر طبقات پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کی کامیابی کے ساتھ ساتھ ناکامی کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ ناکامی اس لیے کیوں کہ بیشتر اوقات ہم دیگر نقطہ نظر کی اہمیت، ایشوز اور اقدار کی ان کی سمجھ کو نہیں دیکھتے ہیں۔ بہت سے مراعات یافتہ گروہوں کو لگتا ہے کہ وہ ہر مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سب سے موضوع ہیں، اور یہاں ہم غلط ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کی باتیں سننی چاہئیں جو کسی تنظیم کے عام ممبر ہوتے ہوئے بھی اپنے تجربات اور علم کو سب کے سامنے رکھتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح کہا گیا ہے کہ ہم جن لوگوں کی خدمت کرنے، بااختیار بنانے اور ترقی دینے کی خواہش رکھتے ہیں، ان کے لیے حساس ہونا بہت اہم ہے۔ احساس ضروری ہے کیوں کہ یہ ہمدردی سے بالاتر ہے۔ حالات سے نبردآزما لوگوں کے نقطہ نظر کو سمجھنے سے ہی طویل مدتی حل تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کورونا وبا کے اس دور میں اترپردیش حکومت مسلسل مختلف اسکیموں کے ذریعہ لوگوں تک مدد پہنچانے میں مصروف ہے اور یہی احساس لوگوں اور معاشرہ کو بااختیار بناتا ہے، اسی سے لوگوں اور معاشرہ کی ترقی کی خواہش پوری ہوتی ہے۔
پوری دنیا میں بہت ترقی ہوئی ہے، لیکن ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سبھی کو تیزی سے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس تیز رفتاری سے چیزیں تبدیل ہورہی ہیں ہمیں اسی حساب سے سوچنے اور خود کو ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماضی کی خامیوں اور غلطیوں سے اوپر اٹھنا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ ہم آج بہتر اور مضبوط ہیں۔ ہر نامناسب صورت حال ایک موقع دیتی ہے اور ہمیں کم مواقع حاصل لوگوں کے لیے یقینی طور پر وہ سب کرنا چاہیے جو ہم کرسکتے ہیں۔ حقوق انسانی کا ہدف تبھی پورا ہوگا جب ہم سبھی اپنے انسانی فرائض کی ادائیگی کریں گے۔ جیسا کہ بائبل میں کہا گیا ہے، ’’ہم نے ان بھائی-بہنوں کے لیے جو کچھ بھی ہم کرسکتے تھے، ان کے لیے کیا۔‘‘ رحمت محض مرہم پٹی نہ ہو۔ حالاں کہ اس سے علاج ہوتا ہے اور زخم بھرتا ہے۔ مگر، سوال یہ ہے کہ کوئی کیسے اسپتال میں دم توڑ دیتا ہے۔
بطور ہندوستانی ہمیں سماجی انصاف اور معاشی آزادی کے تعلق سے کچھ حقیقی اور گہرے سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے 70سال بعد بھی ہم بہت سی سماجی علامات میں پسماندہ ہیں، پھر بھی ہم آیوشمان بھارت، جن دھن اور کئی اسکیموں پر تنقید کرتے ہیں۔ براہ راست فلاحی اسکیموں نے نہ صرف بچولیوں کی بدعنوانی کو روکا ہے، بلکہ ایک غریب شخص کی عزت نفس کو بھی بحال کیا ہے۔ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر ہمیں اپنے آس پاس کے مستحق افراد کو آیوشمان بھارت کے فائدے بتانے چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس اسکیم کے لیے ان کا اندراج ہو۔ ایک فلاحی قوم کے پاس ہمیشہ ہر شہری کا ریکارڈ ہوتا ہے، ان پر کنٹرول کرنے کے لیے نہیں بلکہ سبسڈی، گرانٹس کی مناسب اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے، لیکن اس پر بھی مزاحمت ہوتی ہے، غریبوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس مزاحمت سے آخرکار وہ ہارگئے۔ اترپردیش حکومت اس معاملہ میں منصفانہ پہل کرکے سبھی طبقوں تک اسکیموں کا فائدہ پہنچے، اس کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔
کووڈ-19 نے جہاں ایک جانب ہمارے معاشرہ میں بڑے پیمانہ پر عدم مساوات کو دِکھایا ہے وہیں مراعات یافتہ طبقہ کی بھی عکاسی کی ہے۔ ہم یقینا حکومت کی تنقید کرسکتے ہیں، لیکن تھوڑا سا محاسبہ بھی کرلیں تو مدد ملے گی۔ ہم نے راتوں رات محنت کش طبقہ کو نوکری سے بے دخل کردیا اور حقیقتاً انہیں سڑک پر لا کھڑا کیا۔ کیا اب حکومت کو ہماری اخلاقیات اور اقدار کی بھی نگرانی کرنی چاہیے اور کیا وہ اس کے لیے بھی جواب دہ ہوگی؟
اقوام متحدہ کے 17مستقل ترقیاتی اہداف کے پیش نظر اگر ہم موجودہ حکومت کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں سے 10پر فوکس کیا گیا ہے اور ان میں سے سب سے اہم اسکیم کے تحت 2کروڑ سے زائد کنبوں تک صاف پینے کا پانی پہنچانا ہے۔ پینے کا پانی، پانی سے پیدا ہونے والے امراض کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور زیادہ تر لوگ اس کی اہمیت نہیں سمجھتے ہیں۔ ہمیں نتائج کے لیے بے صبر ہونا چاہیے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ملک کے حجم اور بڑی آبادی کو بھی سمجھنا چاہیے، ان سب کے باوجود اگر ان کی مخالفت ہوتی ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ تبدیلی کی مخالفت کرنا انسانی فطرت ہے۔
اقلیتی فلاح و بہبود کی وزارت کے پاس کئی اسکیمیں ہیں لیکن اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم اسے مستحقین اور ضرورت مندوں تک پہنچائیں۔ نئی نسل کافی تخلیقی اور جوش و خروش سے بھرپور ہے اور ہم سبھی کو انہیں ایک مستحکم پلیٹ فارم مہیا کرانے میں اپنا کردار نبھانا چاہیے۔ کئی ذاتی مفادات کے سبب سماجی اور معاشی انصاف کے لیے لڑائی آسان نہیں ہے، لیکن ایک معاشرہ کے طور پر مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے لیے سب سے اہم لڑائی ہے۔ دینے کے نام پر صرف پیسہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ مہارت، وقت اور تجربہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ یہ میرا کام ہے، یہ ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ترقی کا اندازہ یہ نہیں ہے کہ جن کے پاس پہلے سے ہی زیادہ ہے ان کے لیے ہم نے یہ کیا بلکہ یہ ہے کہ جن کے پاس بہت کم ہے ان کو ہم کیا مدد فراہم کررہے ہیں۔ گاندھی جی نے ٹھیک ہی کہا ہے، ’’سب سے غریب اور سب سے کمزور کا چہرہ یاد کرو، جسے آپ نے دیکھا ہے اور خود سے پوچھو کہ جس طرح کا قدم اٹھانے پر آپ غور کررہے ہو اس سے ان کو کوئی فائدہ ہونے والا ہے۔ کیا وہ حاصل کرپائیں گے، کیا یہ انہیں اپنی زندگی اور تقدیر پر کنٹرول کا حق دے گا۔ کیا یہ بھوکے اور بھوک سے مررہے لاکھوں لوگوں کو نجات دے گا۔‘‘جیسا کہ جیکلین کینیڈی نے ٹھیک ہی کہا ہے ’’ایک آدمی تبدیلی لاسکتا ہے اور ہر آدمی کو اس سمت میں کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
[email protected]