گزشتہدنوں قومی سطح پر بی جے پی اور این ڈی اے کے خلاف محاذ کی تیاریوں کو اس وقت جھٹکا لگاجب مہاراشٹر میں شرد پوار کی این سی پی میں دو ٹکڑے ہوگئے اور مہاراشٹر کے چانکیہ کہے جانے والے شرد پوار کو ان کے ہی بھتیجے نے چاروں خانہ چت کرکے بی جے پی کے ساتھ حکومت میں حصہ داری بنالی۔ اس تبدیلی کے اثرات مہاراشٹر کے علاوہ قومی سطح پر بھی نظرآئیں گے اور اس سلسلہ میں کچھ اشارے بھی آنے شروع ہوگئے ہیں۔ 17جولائی کو ہونے والی اس میٹنگ میں جس میں اس محاذ کے کسی نام پر اتفاق کیا جائے گا اور دو درجن سے زیادہ پارٹیوں کے درمیان تال میل کا کوئی ڈھانچہ بھی وضع ہوسکتا ہے۔ یہ میٹنگ کرناٹک میں ہورہی ہے جہاں پر بی جے پی کو کراری شکست دے کر کانگریس پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ مہاراشٹر اور کرناٹک کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں اور دونوں جگہوں پر بی جے پی مخالف گروپوں کا سرگرم ہونا ظاہر ہے کہ قومی سیاست میں حکمراں محاذ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
بہرکیف کرناٹک کانگریس میں زبردست جوش وخروش ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس کا اثر ملک کی دیگر ریاستوں مثلاً مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور بہار وغیرہ میں بھی پڑے گا۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش میں جہاں پر بی جے پی کانگریس میں پھوٹ ڈال کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل کی قیادت میں پارٹی اور حکومت مستحکم پوزیشن میں ہے۔ مہاراشٹر کے علاوہ بی جے پی او راین ڈی اے کے خلاف جن ریاستوں میں زیادہ خوش وخروش ہے ان میں فی الحال بہار سب سے اوپر ہے۔
بہار میں نتیش کمار اور لالو یادو کی آر ایل ڈی نے بی جے پی کو چکما دے کر سرکار قائم کرلی ہے۔ ملک میں بی جے پی کی فرقہ وارنہ پالیسی کے خلاف قائدانہ رول ادا کرنے والے لالو پرساد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو اس الٹ پھیر میں نائب وزیراعلیٰ بن گئے ہیں۔ اپنے والد کی طرح تیجسوی یادو بی جے پی کے خلاف کافی سخت موقف رکھتے ہیں اور کافی سرگرم ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نتیش کمار کی مدبرانہ اور دور اندیشی پر مبنی سیاست کا وہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اوران کا نام قومی سطح پر کسی بھی متوقع محاذ کے لیڈر کے لیے قابل توجہ رہا ہے۔ قومی سطح پر نتیش کمار بی جے پی مخالف محاذ کو متحد کرنے میں کامیاب رہے اور وہ سوتہ دھار کا کام کررہے ہیں۔ نتیش کمار اس سے پہلے بھی اگرچہ کئی مرتبہ بی جے پی کے ساتھ آ اور جا چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان کی خود کی شخصیت اور سیکولرزم کے تئیں ان کی خلوص نیت کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ مہاراشٹر کی طرح بہار میں بھی نتیش کمار کی پارٹی میں کچھ عدم اطمینان کی خبریں آرہی تھیں۔ جبکہ کئی حلقو ں میں تیجسوی یادو او رنتیش کمار کی مبینہ اختلاف رائے کی قیاس آرائیاں لگائی جا رہی تھیں مگر تیجسوی یادو نے چند روز قبل بیان دے کر ان قیاس آرائیوں کو غلط قرار دے دیا۔ پچھلے دنوں ان دونوں ریاستو ںمیں سیاسی اتھل پتھل کے دوران 17جولائی کو بنگلور میں ہونے والے قومی محاذ کی روپ ریکھا سامنے آنے کا امکان ہے۔ خیال رہے کہ بی جے پی ریاستی اسمبلی اور لوک سبھا کی سیٹوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کررہی ہے۔ مہاراشٹر لوک سبھا سیٹوں کے اعتبار سے یوپی کے بعد ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے۔ جہاں سے 48ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس معاملہ میں تیسرا نمبر بنگال کا ہے اور چوتھے نمبر پر بہار ہے۔
2019کے انتخابات میں مغربی بنگال میں زبردست کامیابی حاصل کرکے ترنمول کانگریس نے لوک سبھا میں تیسری سب سے بڑی پارٹی کا مقام حاصل کرلیا تھا۔ حالیہ پنچایتی الیکشن میں ممتا بنرجی نے پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ ریاست کی سیاسی حالات پر بڑی زبردست پکڑ برقرار ہے۔ جبکہ مہاراشٹر اور بہار میں حالات بی جے پی کے مخالف خیمے کے لیے اس قدر پر امید نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو بہار میں حالات اس قدر بھی قابوسے باہر نہیں ہیں۔ بہار میں آر جے ڈی ، جے ڈی یو اور کانگریس اتحاد بی جے پی کے خلاف ایک سخت محاذ کھڑا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بی جے پی کس حد تک اس تین پارٹیوں کی اتحاد کو توڑ پائے گی۔ بی جے پی اپنے الگ تھلگ پڑجانے کے اندیشے کو بھانپ چکی ہے اس نے جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوامی مورچہ پارٹی سے اتحاد کرکے کسی حد تک ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
جیتن رام مانجھی کے ساتھ دلتوں اور انتہائی پسماندہ ذاتوں کا ایک بڑا طبقہ ہے اور بی جے پی کی نظر اسی ووٹ بینک پر ہے۔ اسی طرح مہاراشٹر میں مہا وکاس اگاڑی 2024میں کیا گل کھلائے گا اس کے بارے میں کہنا کچھ مشکل ہے۔ کیونکہ اس محاذ کی دو اہم پا رٹیاں شیو سینا اور این سی پی دونوںمیں ہی پھوٹ پڑچکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اپنی پارٹی کو کس حد تک اپنے ساتھ رکھنے میںکامیاب ہوں گے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ کیونکہ مہاراشٹر کے پچھلے تختہ پلٹ( جب اودھوٹھاکرے اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے۔ )میں سپریم کورٹ کے احکامات کے اثرات دکھائی دینے شروع ہوگئے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہاں اودھوٹھاکرے کی شیو سینا کو ہمدردی کا ووٹ مل جائے گا۔ اودھوٹھاکرے کافی مطمئن اور پر اعتماد ہیں۔ این سی پی میں پھوٹ کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
بہرحال مہاراشٹر میں شردپوار کا رتبہ برقرار ہے۔ کیونکہ خود بی جے پی کی قومی اور ریاستی قیادت دونوں کو یہ لگ رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا اثر ان کے خلاف جاسکتا ہے اور اس کا اثر مہاراشٹر کے حکمراں محاذ پر پڑے گا۔ جو محاذ شندے اور بی جے پی لیڈر فڑنویس کی قیادت میں کام کررہا ہے۔
کئی حلقوں میں اس بات کا قیاس لگا یا جا رہا ہے کہ ریاست کی مجموعی صورت حال کا اثر بی جے پی پر پڑے گا اور کیونکہ لوگ بی جے پی کی شیو سینا اور شرد پوار کی این سی پی میں تخریب کاری سے ناراض ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ بی جے پی محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے ان پارٹیوں میں طاقت ،اختیارات اور دولت کافائدہ اٹھاتے ہوئے انتشار پیدا کررہی ہے جس سے ریاست میں سیاسی عدم استحکام دیکھا جار ہاہے۔ جہاں تک کرناٹک کی 17 اور 18جولائی کی دوروزہ میٹنگ کا تعلق ہے اس میں یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اس کے علاوہ اس خیمہ میں دو اور پارٹیوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کئی حلقوں میں اس بات پر بھی غور ہورہا ہے کہ آئندہ کسی محاذ کے قیام میں نتیش کمار ، ممتا بنرجی اور شرد پوار کا کیا رول ہوگا اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ کانگریس پارٹی کس طرح سے اس محاذ کو اپنی خود کی پارٹی کو مضبوط بنانے میں استعمال کرپاتی ہے۔ یہ بات بہار اور اترپردیش کے تناظر میں دیکھی جارہی ہے۔ اترپردیش کا الیکشن ان معنوں میں کافی اہمیت والا ہے کیونکہ یو پی میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ82 سیٹیں ہیں اور یوگی سرکار کافی مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔ ایسے حالات میں اکھلیش یادو اور راہل گاندھی کی کانگریس پارٹی ساتھ آتے ہیں یا ان کے درمیان کوئی غیر اعلانیہ تال میل ہوگا تو کیا بی جے پی کو ہلا پائیں گے۔ خیال رہے کہ بی ایس پی نے اپوزیشن کے اتحاد سے اپنے آپ کو الگ کررکھا ہے۔
rvr
کیا این ڈی اے مخالف محاذ کامیاب ہوگا ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS