ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
ملک شام جہاں کے صدر بشار الاسد نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی حمایت سے اپنی حکومت کو تو بچا لیا تھا لیکن اپنے ہی ملک کے عوام پر مہلک ترین ہتھیاروں اور خطرناک کیمیاوی مادوں کو استعمال کرکے انہیں درگور کر دیا تھا اب عرب لیگ میں اس کی واپسی کے لیے راستے ہموار کیے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب بشارالاسد کے ساتھ بحالیٔ تعلقات کے مسئلہ پر بحث جاری ہے۔ اس سے قبل روس کے مشورہ اور داخلی مسائل کے دباؤ میں ترکی نے بھی بشار کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اونچی سطح تک ملاقاتوں اور میٹنگوں کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ جہاں تک عرب لیگ میں شام کی واپسی کا تعلق ہے تو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ 1945 میں تشکیل پانے والی عرب ممالک کی اس تنظیم کا صدر دفتر مصر کی راجدھانی قاہرہ میں واقع ہے اور اس میں 22 ممالک کی رکنیت ہے۔ ان ممالک کی اکثریت نے 2011 میں شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو اس وقت ختم کر لیا تھا جب بشار الاسد نے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کر کے بے شمار شامیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ بشار کے مظالم کے پیش نظر ’’عرب لیگ‘‘اور ’’تنظیم برائے تعاونِ اسلامی‘‘ (او آئی سی)، جس کا صدر دفتر سعودی عرب کا شہر جدہ ہے، نے بشار الاسد کے خلاف کارروائی کرنا ضروری سمجھا اور اس طرح 12 نومبر 2011 کو پہلے عرب لیگ نے شام کی رکنیت کو منجمد کیا اور اس کے معا بعد ’’او آئی سی‘‘نے بھی ایسا ہی اقدام کیا تھا۔ اب جبکہ اس خطہ میں حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں اور برسوں کے دشمن سارے گلے شکوے مٹاکر ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے ہیں جیسا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہوا اور مزید توقع پیدا ہو رہی ہے کہ یمن اور لیبیا کے مسائل بھی بات چیت سے حل ہو جائیں گے کیونکہ ان معاملوں پر لیڈران کے درمیان لگاتار میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں اگر شام کو دوبارہ ایک نارمل ملک کی طرح قبول کرنے کی پیش رفت ترکی سے لے کر سعودی و مصر و اردن تک میں نظر آ رہی ہے تو اس پر تعجب بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن عرب ممالک کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ امید قائم کر لینا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ یہاں چشم زدن میں حالات غیر متوقع طور پر بدل جاتے ہیں جیسا کہ سوڈان میں دیکھنے کو ملا۔ البتہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ عرب ممالک کو اب اس بات کا شدید احساس ہے کہ اگر لیبیا و شام اور لبنان و عراق و یمن تک کے مسائل کو بہت جلد سیاسی طور پر حل نہیں کیا گیا تو صورتحال کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور پھر پناہ گزینوں کے مسائل سے لے کر غذائی بحران تک کی مشکلات ان کا پیچھا دیر تک کرتی رہیں گی۔ اسی لیے عرب لیگ کی جانب سے 2011 کے بعد پہلی بار باضابطہ کوشش کی جا رہی ہے کہ شام کی رکنیت کے معاملہ کو حل کر لیا جائے اور چونکہ 19 مئی 2023 کو سعودی عرب میں لیگ کے لیڈران کی چوٹی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آئے گا، اس لیے اس سے قبل آج بروز اتوار (7 مئی) عرب لیگ کے صدر مقام قاہرہ میں لیگ کے وزراء خارجہ کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی تاکہ سوڈان کے علاوہ شام کی رکنیت کی بحالی کے سلسلہ میں بھی بحث کی جا سکے۔ عرب لیگ کاؤنسل کے حالیہ سیشن کی صدارت چونکہ مصر کے ذمہ ہے، اس لیے اس نے اتوار کو اس میٹنگ کے انعقاد کا اعلان کیا۔ اس سے قبل جمعرات کے روز اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے اپنے بیان میں اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ جلد ہی عرب لیگ کی جانب سے شام کی رکنیت کی بحالی پر غور کیا جائے گا۔ اس بیان پر ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ خود عرب لیگ کے سکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے سارے شکوک دور کر دیے اور واضح الفاظ میں یہ بیان دیا کہ یہ مسئلہ زیر بحث آنے والا ہے۔ اس سے قبل یکم مئی کو بھی اردن کی راجدھانی عمان میں اردن، مصر، عراق اور سعودی عرب کے وزراء خارجہ کی ایک میٹنگ شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کے ساتھ منعقد ہوئی تھی جہاں شام کے بحران کو حل کرنے پر غور کیا گیا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا لیگ کے تمام ممبران ممالک شام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں یا ان میں سے بعض کے اپنے تحفظات ہیں۔ اب تک جو خبریں مختلف ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً دس ایسے ممالک ہیں جو شام کے ساتھ مکمل طور پر سفارتی تعلقات کی بحالی کے حق میں ہیں۔ ان میں سے بعض تو اس حد تک پر جوش ہیں کہ وہ اس بات کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں کہ شام کو فوراً ہی لیگ میں واپس لیا جائے اور 19 مئی کو مکمل سفارتی نمائندگی کے ساتھ میٹنگ میں اس کی شمولیت کا راستہ صاف کیا جائے۔ اس کے علاوہ 8 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے شام کے سیاسی، انسانی اور سیکورٹی سے متعلق بحرانوں کا حل تلاش کرنے کی غرض سے شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو از سر نو بحال کرنے کے معاملہ پر غور کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ البتہ تین ممالک نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی یا لیگ میں ان کی واپسی کے حامی نہیں ہیں کیونکہ جن حالات کے تحت لیگ میں شام کی رکنیت کو منجمد کیا گیا تھا ابھی تک ان حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ عرب لیگ کے وہ 10 ممبر ممالک جو شام کے ساتھ مکمل طور پر سفارتی تعلقات کی بحالی کو ترجیح دیتے ہیں ان کے نام ہیں: اردن، تیونس، عمان، سوڈان، متحدہ عرب امارات، بحرین، موریتانیا، جزائر، عراق اور فلسطین۔ البتہ وہ 8 ممالک جنہوں نے اپنے موقف میں نرمی پیدا کی ہے اور تعلقات کی بحالی پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں ان کے نام ہیں: سعودی عرب، مصر، لبنان، یمن، لیبیا،صومالیہ، جیبوتی اور جزرالقمر ہیں۔ جن تین ممالک نے شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بحال نہ کرنے کا عہد کیا ہے وہ ہیں قطر، کویت اور مراکش۔ قطر نے 2012 میں شام سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور آج بھی 2011 میں شام کی رکنیت کے انجماد سے متعلق لیگ کے فیصلہ پر قائم ہے۔ قطر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہے اور عرب اجماع اور شامی عوام کے مطالبات کا احترام کرتا ہے۔ جہاں تک کویت کا شام کے ساتھ بحالیٔ تعلقات کا معاملہ ہے تو اس سلسلہ میں 2018 میں یہ افواہ پھیلی تھی کہ اس نے دمشق میں اپنے سفارت خانہ کو دوبارہ سے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن کویت نے اس خبر کی تردید کی تھی اور آج بھی اپنے اسی موقف پر قائم ہے۔ ترکی اور شام میں 6 فروری کو جو تباہ کن زلزلہ آیا تھا اس موقع پر کویت نے گرچہ شامی عوام کو اپنا تعاون پیش کیا تھا لیکن اسد نظام کے ساتھ کسی طرح کا کوئی تعلق قائم نہیں کیا تھا۔البتہ 2 مئی کو کویت کے وزیر خارجہ سالم عبداللہ جابر الصباح کو اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سے عمان میٹنگ کی معلومات جب حاصل ہوئی تھیں تو انہوں نے شام کے بحران کے حل سے متعلق کوششوں کا استقبال کیا تھا لیکن اس سے کویت کے موقف میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں ملا تھا۔ جہاں تک مراکش کا تعلق ہے تو اس نے 2012 میں شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو منقطع کر لیا تھا اور اب تک اس کے اس موقف میں تبدیلی سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔ غیر رسمی ذرائع سے جو معلومات میڈیا میں آئی ہیں ان کے مطابق مراکش موجودہ حالات میں شام کے ساتھ استواریٔ تعلقات کا حامی نظر نہیں آتا ہے۔
شام کے لیے امید کی کرن سعودی عرب اور مصر جیسے دو بڑے ممالک کے موقف میں تبدیلی سے پیدا ہو رہی ہے۔ سعودی عرب نے 2011 میں دمشق سے اپنے سفیر کو بلا لیا تھا اور مارچ 2012 میں اپنے سفارت خانہ کو وہاں بند کر دیا تھا۔ لیکن 12 سال کے بعد اچانک اپریل 2022 میں سعودی عرب نے جدہ میں شامی وزیر خارجہ مقداد کا استقبال کیا اور دونوں جانب سے قونصل خدمات اور ہوائی راستوں کو کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد شام کے مسئلہ پر بحث کرنے کے لیے جدہ میں ایک میٹنگ کا انعقاد بھی عمل میں آیا۔ اس کے بعد سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے گزشتہ 18 اپریل کو شام کا دورہ کیا جہاں ان کا استقبال بشار اسد نے کیا اور دونوں لیڈران نے شام کے بحران کا مکمل سیاسی حل ڈھونڈنے اور عرب دائرہ میں شام کو شامل کرنے پر بات چیت کی تھی۔
مصر نے شام کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو پورے طور پر تو کبھی ختم نہیں کیا تھا لیکن جون 2013 میں سفارتی نمائندگی کی سطح میں کمی ضرور کر لی تھی۔ البتہ سیکورٹی معاملوں پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مسلسل برقرار رہے۔ اعلیٰ قیادت کی سطح پر پہلی بار مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے بشار الاسد کے ساتھ اس وقت فون پر بات چیت کی جب 6 فروری کو زلزلہ آیا تھا اور اس کے بعد مصری وزیر خارجہ کی ملاقاتیں بشار الاسد کی حکومت میں اپنے ہم منصب سے ہونے لگیں۔ مصر کا کہنا ہے کہ اس کے وزیرخارجہ نے دمشق کا دورہ انسانی بنیادوں پر کیا تھا اور شام کے بحران کے حل کے سلسلہ میں وہ عرب اور بین الاقوامی قراردادوں کے ساتھ ہے۔ ان ممالک کے موقف سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ شام کی واپسی عرب لیگ میں جلد ہی ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو جہاں ایک طرف شامی پناہ گزینوں کی اپنے ملک میں واپسی کا راستہ آسان ہوگا اور ان کے مسائل میں کمی آئے گی وہیں یہ سوال باقی رہے گا کہ کیا بشارالاسد کو اس کے جرائم کے لییکوئی سزا نہیں دی جائے گی؟ کیا شام کی بشار مخالف جماعتوں کے اعتراضات کا کوئی تشفی بخش جواب مل پائے گا؟ بہتر یہ ہوگا کہ شام کا ایسا سیاسی حل تلاش کیا جائے جس سے ملک کی وحدت پارہ پارہ نہ ہو اور مظلومین کے حق میں مظالم کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عالم عربی میں انتشار کا ماحول بدستور قائم رہے گا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں