عبیداللّٰہ ناصر
پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل حکومت کے سامنے اپوزیشن کی متحدہ اور مشترکہ طاقت کے مظاہرہ کے لیے کانگریس کی طرف سے طلب کی گئی اپوزیشن کی سبھی پارٹیوں کی میٹنگ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر کے ترنمول کانگریس اور اس کی سربراہ ممتا بنرجی نے واضح کر دیا ہے کہ اب وہ کانگریس سے کوئی تعلق نہیں رکھیںگی حالانکہ یہ تو اسی وقت واضح ہو گیا تھا جب انھوں نے دہلی میں رہتے ہوئے صدر کانگریس سونیا گاندھی سے ملاقات نہیںکی، اتنا ہی نہیں اس ملاقات کے سلسلہ میں پوچھے جانے پر ان کا جواب بھی بہت تلخ اور کسی حد تک غیر پارلیمانی تھا، ان کا کہنا تھا کہ یہ آئین میں کہاں درج ہے کہ ہر بار دہلی آنے پر میں سونیا گاندھی سے ملوں۔بیشک یہ آئین میں کہیں نہیں درج ہے اور اس وقت بھی نہیں تھا جب وہ دہلی آنے پر سونیا گاندھی سے ضرور ملتی تھیں۔کچھ سیاسی روایات کچھ وضع داریاں ایسی ہوتی ہیں جو آئین میں درج نہیں ہوتیں لیکن ان کی پاسداری کی جاتی ہے۔برطانیہ کا آئین تو تحریر میں نہیں ہے صرف روایات اور وضع داریوں پر ہی چل رہا ہے۔ ممتا دیدی بھلے ہی سونیا سے نہ ملتیں مگر یہ تلخ جواب دے کر انہوں نے کوئی اچھی مثال نہیں قائم کی ہے۔
ترنمول کانگریس نے مذکورہ میٹنگ سے الگ رہنے کا فیصلہ اپنی سیاسی مصلحت اور ضرورت کے تحت ہی کیا ہوگا، جس کا اسے پورا اختیار ہے لیکن ایک طرف اپوزیشن کو متحد کرنے کی باتیں دوسری جانب خاص اپوزیشن سے یہ کنارہ کشی چہ معنی دارد؟ در اصل بنگال اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینے کے بعد ممتا دیدی کے سیاسی ارمانوں کو پنکھ لگ جانا کوئی ان ہونی بات نہیں، ہر علاقائی لیڈر اپنی ریاست میں سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم بننے کی تمنا رکھتا ہے اور ممتا دیدی بھی اس سے الگ نہیں ہیں ۔ صرف ایک وزیرا علیٰ ہے جو مسلسل کامیابیوں کے باوجود اپنی ریاست کی خدمت میں ہی سنجیدگی سے مصروف ہے اور کبھی قومی منظرنامہ پر آکر کوئی بڑا کھلاڑی بننے کی خواہش نہیں ظاہر کی، وہ ہیں اوڈ یشہ کے وزیرا علیٰ نوین پٹنائک۔بہت ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ، سنجیدہ، بردبار اور کم گو سیاست داں کے طور پر انہوں نے اپنی ایک صاف ستھری اور بالکل علیحدہ امیج بنا رکھی ہے۔
ممتا دیدی سمجھ رہی ہیں کہ اس وقت کانگریس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی ترنمول کانگریس کو وہ قومی سطح پر قبولیت بھی دلوا لیں گی اور آئندہ پارلیمانی انتخابات میں وہ کانگریس کابدل بن کر انڈین نیشنل کانگریس کی جگہ ترنمول کانگریس کو کھڑا کرد یں گی اورپھر ان کا وزیراعظم بننا مشکل نہیں ہوگا مگر یہ تو مودی جی کے کانگریس مکت بھارت بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے والی سیاست ہوگی تو یہ سوال لازمی طور سے اٹھے گا کہ ممتا دیدی کانگریس اور سونیا گاندھی سے لڑیں گی یا مودی جی اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے۔یہ فیصلہ ممتا دیدی کو ابھی کرنا ہوگا تاکہ ووٹروں کو الیکشن کے وقت پتہ رہے کہ صحیح معنوں میں مودی جی کا بدل کون ہوگا۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ ممتا دیدی نے ابھی تک جن ناراض کانگرسیوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے، کیا وہ اپنی ریاستوں میں ترنمول کانگریس کو کھڑا کر سکیںگے؟ اگر میگھالیہ کے سابق وزیراعلیٰ پورنو سنگما کو چھوڑ دیا جائے تو چاہے بہار سے کیرتی آزاد ہوں یا ہریانہ سے اشوک تنور یا گوا کے فلیریو ان میں سے کوئی اپنے دم پر اپنی سیٹ بھی نکال لینے کی حیثیت نہیں رکھتا، پھر وہ ترنمول کانگریس کو کیا فائدہ پہنچا پائے گا۔ ہاں انڈین نیشنل کانگریس کو ضرور نقصان پہنچا سکتا ہے جس کا حتمی فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملے گا۔ اگر ممتا دیدی اسی سیاست پرعمل کر رہی ہیں تو پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سبھی علاقائی لیڈروں کی طرح ممتابنرجی بھی اولین مخالفت کانگریس سے ہی رکھتی ہیں۔ بنگال میں بھی ان کی سیاست کا محور بائیں محاذ اور کانگریس کو ہی کمزور کرنا رہا ہے جس کے نتیجہ میں وہاں آر ایس ایس خوب پھلی پھولی۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کا 80کے قریب سیٹیں پا نا صرف مودی اور امت شاہ کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت آر ایس ایس کے کارکنوں کی زبردست محنت اور لگن بھی ہے، بھلے ہی ان کی فکر اور عمل مختلف ہے، لیکن ان کی محنت لگن اور مقصد کے لیے ایمانداری کی تعریف تو کرنا ہی پڑے گی۔ ممتابنرجی ہی نہیں اس سے پہلے شرد پوار بھی کانگریس کو کمزور کر کے قومی سطح پر اپنی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو قائم کرنے اور وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ چکے ہیں، ان کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہاں یہ سوال لازمی طور سے اٹھتا ہے کہ شرد پوار اور ممتا دیدی کے بعد ان کی پارٹیوں کا کیا مستقبل ہوگا؟ کیا شردپوار اور ممتا کے بھتیجے ان کی سیاسی وراثت اپنی اپنی ریاستوں میں ہی اسی طرح سنبھال پائیں گے، قومی سطح کی تو بات ہی کرنا فضول ہے۔ مہاراشٹر اور بنگال کے عوام دونوں بھتیجوں کے کارناموں سے خوب واقف ہیں۔
یہ درست ہے کہ کانگریس اس وقت اپنے وجود کے بدترین دور سے گزر رہی ہے جس کی خاص وجہ اس کی تنظیمی کمزوریاں ہیں حالانکہ پارٹی کے تنظیمی انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے اور ممبر سازی کی مہم بھی شروع ہو چکی ہے، پروگرام کے مطابق تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اگلے سال اگست میں پارٹی صدر کا الیکشن ہوگا۔ آر ایس ایس تو خیر اس کے وجود کی شروع سے ہی دشمن رہی ہے اور ہر سیاسی چال اس کو نقصان پہنچانے کی غرض سے چلتی رہی ہے لیکن اسے کامیابی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی اندھی کانگریس دشمنی سے ملتی رہی ہے جس کا سلسلہ میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے غیر کانگریس واد کے نعرہ سے شروع ہوا تھا۔ اس سے قبل اسی آر ایس ایس اور اس کی سیاسی شاخ جن سنگھ کو لوگ چمٹی سے بھی چھونا پسند نہیں کرتے تھے، یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے اور ہر علاقائی پارٹی اور اس کا لیڈر کانگریس کو ہی نقصان پہنچا کر اپنا وجود بچائے رکھنا چاہتا ہے۔حالانکہ اس وقت سیاسی پارٹیاں غیربی جے پی واد کا نعرہ دے رہی ہیں لیکن چاہتی ہیں کہ کا نگریس کے لیے کوئی جگہ نہ بچے یعنی کانگریس اپنے دفتروں میں تالا ڈال دے اور سونیا گاندھی اپنے دونوں بچوں کو لے کر اٹلی واپس چلی جائیں جو بہر حال ممکن نہیں ہے۔
بیشک کانگریس مشکلات کے دور سے گزر رہی ہے۔ متعدد ریاستوں میں تو اس کا وجود ہی نہیں بچا ہے، ان سب کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعد وہی قومی سطح کی پارٹی ہے اور بدترین حالات میں بھی اس کو سابقہ پارلیمانی الیکشن میں20 فیصد ووٹ ملے تھے۔ لوک سبھا میں بھلے ہی اسے تین ممبروں کی کمی کی وجہ سے لیڈر آف اپوزیشن کا عہدہ نہ ملا ہو لیکن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر صرف کانگریس اور اس کے لیڈر راہل گاندھی ہی صحیح معنوں میں حزب اختلاف کے لیڈر کا کردار ا دا کرتے رہے ہیں، کوئی علاقائی لیڈر اور علاقائی پارٹی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے اس طرح مودی حکومت کی مخالفت کی ہے جیسے راہل گاندھی اور کانگریس نے کی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اگر ممتا دیدی یہ الزام لگاتی ہیں کہ کانگریس حزب اختلاف کا کردار نہیں ادا کر پا رہی ہے تو اسے سیاسی بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ممتا دیدی کو اپنی پارٹی کو قومی سطح پر فروغ دینے کا پورا حق حاصل ہے، انھیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ جسے چاہیں اپنی پارٹی میں شامل کریں لیکن قومی سطح کا لیڈر تو انھیں عوام ہی بنا سکتے ہیں اور اس کے لیے انھیں ابھی بہت سے امتحانات سے گزرنا ہوگا، مگر تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کانگریس کے مقابلہ قومی سطح کا وہی لیڈر بن سکا ہے جسے در پردہ یا کھلے عام آر ایس ایس کی حمایت حاصل رہی ہو۔ مرار جی ڈیسائی اور وی پی سنگھ اسی طرح وزیراعظم بن سکے تھے۔ کانگریس مخالف سبھی تحریکیں آر ایس ایس کی مدد سے ہی کامیاب ہو سکی تھیں۔ لوہیا جے پرکاش نارائن اور اناہزارے کی تحریک کے معاملہ میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔کیا دیدی نئی تاریخ رقم کریں گی یا انھیں اس طرح کا کوئی اشارہ مل چکا ہے، اس کا جواب مستقبل میں پنہاں ہے۔
[email protected]